مسلمان کامیابی کی شاہ کلید سےغافل کیوں ہیں؟

قرآن کا مطالعہ ، تفہیم و اثرپذیری کے ضمن میں کچھ یاد رکھنے کی باتیں

محمد عنایت اللہ اسد سبحانی

قرآن پاک ہمارے مہربان رب کا بھیجا ہوا کلام ہے،یہ کلام دراصل ہمارے نام اس کا پیغام ہے،اس پیغام میں اس نے براہ راست ہمیں مخاطب کیا ہے، اس میں ہمیں اس زمین پر جینے کا سلیقہ سکھایا ہے۔
اپنوں کے ساتھ، بیگانوں کے ساتھ،سارے انسانوں کے ساتھ ہم کیسے رہیں؟ لو گوں کے ساتھ ہمارے معاملات اور تعلقات کی نوعیت کیا ہو؟ خود اپنے رب کے ساتھ ہمارا کیا انداز ہو؟ اس نے ہم پر جو بے پناہ احسانات کیے ہیں، ان کا شکر کیسے ادا کریں؟
اس دنیا میں ہم ایک اچھی زندگی کیسے گزاریں،کس طرح ہم خوش رہیں؟ کس طرح دوسروں کو خوش رکھیں؟ کس طرح اپنے رب کو خوش رکھیں؟
اس زندگی کے بعد جو دوسری زندگی آنے والی ہے، اس زندگی کی خوشیاں ہم کیسے حاصل کریں؟ اس کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ کن کاموں کو اختیارکرنا ہوگا؟ اور کن کاموں سے بچنا ہوگا ؟ یہ ساری باتیں نہایت تفصیل سے ہمارے رب نے قرآن پاک میں بتادی ہیں۔
مختصر لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں، کہ قرآن پاک ہماری پوری زندگی کا نظام العمل ،یا عملی پروگرام ہے ، جو ہمارے رب نے ہمارے لیے بھیجا ہے،اس پروگرام کی پیروی پرہی ہماری کامیابی کا انحصارہے، ہماری ساری خوشیاں،اورساری ترقیاںاسی سے وابستہ ہیں،اس لحاظ سے دیکھاجائے تو قرآن پاک کا پڑھنا، سمجھنا، اور اس پر عمل کرنا ہمارے لیے کتنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔
اسی لیے ہمارے نبی محمد ﷺنے فرمایا ہے:
(تم میں سب سے اچھے لوگ وہ ہیں جو قرآن پاک سیکھیں، اور دوسروں کو سکھائیں۔) (صحیح بخاری)
آپ نے یہ بھی فرمایا:
(اﷲ تعالی اس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو بلندی عطاکرتا ہے،اور کچھ دوسرے لوگوں کو پستی میں پھینک دیتا ہے۔) (صحیح مسلم)
ظاہر ہے بلندی انہیں عطاہوتی ہے،جو اس کتاب کو سینے سے لگاتے ہیں،اسے اپنے دل میں بساتے ہیں،اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہیں۔ اورپستی میں وہ گرتے ہیں،جو اس کتاب الٰہی کی ناقدری اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں،جو جہالت کی تاریکی میں بھٹکتے اورمن مانے طریقے سے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔اس طرح خود بھی نقصان اٹھاتے ہیں، دوسروں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔خود بھی تباہ ہوتے ہیں، دوسروں کو بھی تباہ کرتے ہیں۔
میرے پیارے عزیزو! اگر ہم اﷲ ورسول کی نگاہ میں اچھے انسان بننا چاہتے ہیںاوراگر ہم دنیاوآخرت کی بلندیاں اورکامرانیاںحاصل کرنا چاہتے ہیں توضروری ہے کہ ہم قرآن پاک کو ذوق و شوق سے پڑھیں، اچھی طرح سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو بنائیں اوراپنی سیرت کو سنواریں۔
یقیناً تم یہاں جاننا چاہوگے کہ اس کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ اور کن باتوں کا لحاظ رکھنا ہوگا ؟
سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ کہ ہم قرآن پاک کو ایک عظیم، بلکہ سب سے عظیم کلام سمجھیں،ہم یہ سمجھیں کہ اس صفحہ ہستی پر کوئی ایسی کتاب نہیں جو اس کتاب کی جگہ لے سکتی ہو،اور اس سے ہمیں بے نیاز کرسکتی ہو۔
قرآن پاک ہمیں دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز کرسکتا ہے،مگر دنیا کی کوئی کتاب ہمیں قرآن پاک سے بے نیاز نہیں کرسکتی۔دنیااور آخرت کی ساری کامرانیاں،اورتمام بلندیاں اسی کتاب سے وابستہ ہیں۔
جب تک مسلم امت اس کتاب سے وابستہ رہی، دنیا کی تمام قوموں میں سربلند رہی، عزت وسطوت اور اقبال مندی اس پر سایہ فگن رہی، اور وہ زندگی کے ہر میدان میں دن دونی رات چوگنی ترقی کرتی رہی،مگر جب اس نے قرآن پاک کی طرف پیٹھ کرلی، اور خدائی علم کے بجائے انسانی علوم کو اپنی توجہات کا مرکز بنالیا،جب اس کی زندگی کے تمام شعبوں سے قرآن پاک بے دخل ہوگیا،اور یکسر جاہلی علوم اس کے دل ودماغ پر چھاگئے،اوروہی اس کی تہذیب وتمدن کی اساس بن گئے، توثریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا ! اور ہماری حالت اس شعر کی مصداق بن گئی ؎
نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
کتاب الٰہی کی یہ عظمت وحیثیت اچھی طرح ہمارے دل ودماغ میں جاگزیں رہنی چاہیے، تاکہ ہم اسے اپنی زندگی میں وہ مقام دے سکیں، جس کی وہ اہل ہےاور تاکہ اس غلطی کی تلافی کرسکیں جو ہمارے اگلوں سے سرزد ہوچکی ہے،اور جس کا خمیازہ بعد کی نسلوں نے بھگتا، اور آج تک بھگت رہی ہیں۔
ملت کے گراں مایہ فرزندو! دوسری بات جو تمہارے کرنے کی ہے، وہ یہ کہ قرآن پاک کو کبھی اجروثواب کی نیت سے نہ پڑھو،نہ حصول برکت کی نیت سے پڑھو۔ اسے ہمیشہ اس نیت سے پڑھو،جس نیت سے اﷲ کے رسول پڑھتے تھے ،جس نیت سے آپ کے صحابہ کرام پڑھتے تھے۔
صحابہ کرام قرآن پاک کو کبھی اجروثواب یاحصول برکت کی نیت سے نہیں پڑھتے تھے،وہ ہمیشہ اسے اس جذبے سے پڑھتے تھے کہ اس کے علم وعمل کو اپنے اندر جذب کرلیں،چنانچہ روایتوں میں آتاہے کہ وہ ایک بارمیں بہت سا قرآن جان لینے کی کوشش نہیں کرتے تھے،بلکہ نبی ﷺسے ایک بارمیں زیادہ سے زیادہ دس آیتیں پڑھتے تھے،جب ان دس آیتوں کو اچھی طرح اپنے دل ودماغ میں جذب کرلیتےاور اپنی سیرت وکردار میں انہیں سجالیتے، تب وہ آپ سے دوسری دس آیتیں سیکھتےاور ان کے ساتھ بھی ویسا ہی کرتے،جس طرح پچھلی دس آیتوں کے ساتھ کیاتھا۔
صحابہ کرام قرآن پاک کو اسی طرح پڑھتے تھے،وہ یہ جانتے تھے کہ قرآن پاک کواﷲ تعالی نے نور کہاہے،یہ نورہمارے پاس اس لیے آیاہے، تاکہ ہمارے دل و دماغ کو منور،اور ہماری زندگیوں کو روشن کردے،لہٰذا اس سے ہمارے دل و دماغ کو منور، اورہماری زندگیوں کو روشن ہونا چاہیے، نہ صرف ہماری زندگیوں کو، بلکہ پورے انسانی سماج کو روشن ہونا چاہیے۔
میرے عزیز نوجوانو! صحابہ کرامؓ کے ہاں اجروثواب کی نیت سے، یاحصول برکت کی نیت سے قرآن پاک پڑھنے کارواج کبھی نہیں رہا،یہ رواج مسلمانوں میںاس وقت شروع ہوا جب قرآن پاک پر عمل کرنےاوراس کے مطابق اپنی زندگیوں کو بدلنے اور سنوارنے کا جذبہ مفقود ہوگیا،جب ان کے اندر سے یہ شعور ختم ہوگیاکہ اﷲ تعالی نے ہمیں اس کتاب کاامین بنایاہےتاکہ اس امانت کو دوسروں تک پہنچائیں، اس کے علوم کو ہم ساری دنیا میں تقسیم کریں اور اس کی روشنی سے سارے جہاں کو روشن کریں۔
میرے پیارے عزیزو! اجروثواب یا حصول برکت کی نیت سے قرآن پاک پڑھنے کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتاکہ ہم نے قرآن پاک کی اہمیت اور اس کی عظمت کو سمجھا نہیں، ہم نے اس مقصد کو ہی نہیں سمجھاجس کے لیے ہمارے رب نے یہ قرآن نازل فرمایا ہے، یہ قرآن تو ایسی کتاب ہے جسے کوئی سمجھ کے پڑھ لے،تو اس کی آنکھوں کی نیند اڑجائےاور دل کا سکون جاتارہے، وہ غفلت و سرمستی کی خانقاہوں سے نکل کرجہدو عمل کے میدانوں میں آکھڑاہو اورہر اس پہاڑ سے ٹکراجانے کے لیے بے چین ہوجائے جو اس قرآنی مشن کے لیے سدراہ ہو۔
میرے پیارے عزیزو!اگرتم اجروثواب کے خواہاں اور رحمت وبرکت کے متمنی ہوتووہ اجروثواب اور وہ رحمت وبرکت قرآن پاک کے الفاظ میں نہیں بلکہ اس مشن اور اس نظام میں ہے،جس کی طرف قرآن پاک دعوت دیتاہے۔ اسی مشن کو عام کرنے اوراسی نظام کو قائم کرنے کی راہ میں ہمارے ہادی ورہبر حضرت محمد ﷺ طائف کی گلیوں میں لہولہان کیے گئے، اسی نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد میں بدروحنین کے معرکے برپا ہوئے اور پھر بعد میں اسی مشن کو عام کرنے اوراسی نظام کو قائم کرنے کی راہ میں جام شہادت کے اتنے دور چلے اور جاں نثاران قرآن کے اتنے ہاتھ اوراتنے سرقلم ہوئے کہ انہیں شمارکرنا کسی بڑے سے بڑے حساب داں کے بس میں نہیں۔
بدقسمتی سے آج ہماری ساری توجہ رواں دواں ، یعنی دوڑتی بھاگتی قرآن خوانی پرہوتی ہے اس کے معانی پر نہیں،اس کے مشن پر نہیں،اس کے نظام پر نہیں، اس کے پیغام پر نہیں۔
ہماری یہ حالت بڑی ہی عبرت ناک ہے، ہم اس حالت میں قرآن پاک سے کٹے ہوئے بھی نہیں، اس سے جڑے ہوئے بھی نہیں۔اس کے دوست بھی نہیں، اس کے دشمن بھی نہیں !
اپنی اس حالت پر چاہے ہم مطمئن ہوں اور چاہے ہماری پوری مسلم قوم مطمئن ہو مگرخود وہ قرآن مطمئن نہیں جس کے لیے ہم یہ سارے جشن کرتے ہیں، آج قرآن پاک ہمارے خلاف فریادی ہے، وہ زبردست فریاد کررہا ہے،مگر افسوس کہ ہمارے پاس وہ کان نہیں،جو اس کی فریاد کو سن سکیں ! اور اگرکسی کے پاس سننے والے کان ہوں،تووہ بڑی آسانی سے یہ فریادسن سکتا ہے ،دیکھو یہ قرآن پاک اپنی زبان حال سے کتنی درد بھری فریاد کررہا ہے:
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے
قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں
ایسے بھی ستایا جاتا ہوں
کس بزم میں میرا ذکر نہیں
کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں
یاں مجھ سا کوئی مظلو م نہیں
میرے عزیزو،اور دوستو! قرآن پاک کی کوئی آیت بلاسوچے سمجھے کبھی مت پڑھو، غور وتدبر کے ساتھ ایک دو آیت پڑھنا ، اس پر ٹھہرنا ،اس سے اثر پذیر ہونا، اس کی روشنی میں اپنا احتساب کرنا،آیندہ کے لیے اپنے رب سے نیا عہد ومیثاق کرنا اور اس سے عمل کی توفیق مانگنا بلاسوچے سمجھے پورا قرآن پاک پڑھنے سے کہیںبہتر ہے۔یہی وجہ ہے ہمارے بزرگ اسلاف ایک ایک آیت کو اتنی اتنی دیر تک پڑھتے رہتے تھے،جتنی دیرمیں کوئی پڑھنے والا پورا قرآن پاک پڑھ سکتا ہے۔حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں: نبی ﷺنے ایک رات یہ آیت پڑھی:
إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔(سورۃ المائدۃ: ۱۱۸)
(اگر تو انہیں سزادے،توتو اس پر پوری طرح قادرہے،کیونکہ یہ سب تیرے ہی بندے ہیں،اور اگر تو انہیں معاف کرنا چاہے تو تجھے کوئی روکنے والا نہیں،کیونکہ قوت وحکمت کا مالک تو ہی ہے۔)
اسی آیت کو آپ نہایت رقت کے ساتھ رات بھرپڑھتے رہے،باربار دہراتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔
عباد بن حمزہ ایک بزرگ تابعی ہیں،وہ فرماتے ہیں: میں حضرت اسماءؓ بنت أبی بکرکے گھر گیا،تو دیکھا وہ ایک آیت پڑھنے میں مشغول ہیں، یہ وہ آیت تھی ، جو جنت میں جنتیوں کی زبان پر رواں ہو گی:
فَمَنَّ اللَّہُ عَلَیْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ۔ (سورۃ الطور:۲۷)
(اﷲ نے ہم پر فضل فرمایا،اورجہنم کی جھلسا دینے والی ہواؤں کے عذاب سے بچالیا۔)
میں کچھ دیر کھڑا رہا، وہ بار باریہ آیت پڑھ رہی تھیں،جہنم سے پناہ مانگ رہی تھیں، اور جنت کی دعاکررہی تھیں !
عباد کہتے ہیں: مجھے اندازہ ہوا ،یہ کیفیت جلدی ختم ہونے والی نہیں،چنانچہ میں بازار چلا گیا، وہاں جو کام تھا وہ کام کیا،پھر واپس آیا،تو دیکھا وہ ابھی تک اسی آیت میں مشغول ہیں،وہ باربار آیت پڑھ رہی ہیں، جہنم سے پناہ مانگ رہی ہیں، اورجنت کی دعا کررہی ہیں !
حضرت تمیم داریؓ ایک بزرگ صحابی ہیں،انہوں نے ایک رات یہ آیت پڑھی:
أًمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ أن نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاء مَّحْیَاہُم وَمَمَاتُہُمْ سَاء مَا یَحْکُمُونَ۔ (سورۃ الجاثیۃ:۲۱)
( وہ لوگ جو بے باکی سے برائیاں کررہے ہیں،کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں کی طرح کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے،جن کا مرنااور جینا برابر ہے، کتنی بری بات ہے جو یہ سوچتے ہیں!)
حضرت تمیم داری کی رات بھر یہ کیفیت رہی کہ وہ یہی آیت بار بار پڑھتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔
یہ چند واقعات ہیںورنہ اس طرح کے واقعات کی کمی نہیں، رسول اﷲ ﷺم اورصحابہ کرام ؓکی عام طور سے یہی کیفیت تھی،قرآن پاک سے اسی والہانہ تعلق نے اوراس تعلق کے نتیجہ میںایک ایک آیت پر غوروتدبراوراس سے اثر پذیری کی کیفیت نے ان کی رگوں میں محبت الٰہی کی بجلیاں دوڑادی تھیں، اقامت دین اور غلبہ اسلام کے لیے ان کے اندر اِک جنونی کیفیت پیدا کردی تھی،وہ جنونی کیفیت جس سے ٹکراکراس وقت کی تمام طاقتیں پاش پاش ہوگئیں،اور دیکھتے ہی دیکھتے باطل کے ایوانوں میںدھول اُڑنے لگی !
میرے پیارے عزیزو!آج ضرورت ہے کہ ہم قرآن پاک کی اس انقلا بی قوت کو محسوس کریں، قرآن کی اس انقلابی قوت کو ہم اسی وقت محسوس کرسکتے ہیںجب اسے اپنے دل ودماغ میں بسائیں، اپنی تنہائیوں میں اسے گنگنائیںاور اس کی اس لذت اور اس مٹھاس کو محسوس کریں جسے صحابہ کرام محسوس کرتے تھے۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قرآن پاک پر غوروتدبرکرنےیا اسے گنگنانے اوراس کی مٹھاس محسوس کرنے کے لیے عربی زبان جاننا شرط نہیں ہے، اگر ہم عربی زبان جانتے ہیں تو اس سے اچھی بات کیا ہے نورٌ علی نور،لیکن اگر نہیں جانتے ہیں،تو اس سے غوروتدبر اور قرآن پاک سے لذت اندوزی کا دروازہ بند نہیں ہوجاتا ۔
ایک غوروتدبر وہ ہوتاہے ، جس کے لیے عربی زبان میں مہارت ضروری ہوتی ہے، مثال کے طور پر کسی آیت کا صحیح مفہوم متعین کرنے کے لیےیا اس کے اسلوب کی خوبیاں یا باریکیاں سمجھنے کے لیےیا نظم آیات کے اندرعلوم ومعارف کے جو بیش بہا خزانے اﷲ تعالی نے رکھ دیے ہیںان کا سراغ لگانے کے لیے عربی زبان وادب میں مہارت ضروری ہوتی ہے۔
غوروتدبر کی ایک دوسری قسم وہ ہوتی ہے،جس کا عربی دانی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ،اس کے لیے ایک سوچنے والا دماغ اور اثر قبول کرنے والا دل کافی ہوتا ہے، مثال کے طورپرقرآن پاک کی ایک آیت ہے:
وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللّہِ لاَ تُحْصُوہَا إِنَّ الإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ۔(سورۃ ابراہیم:۳۴)
( اگر تم اﷲ کی نعمتوں کو شمارکرو،تو تم انہیں شمار نہیں کرسکتے،بلا شبہہ انسان بڑا ہی ظالم اور ناشکرا ہے! )
یہ ایک ایسی آیت ہے جس کا سادہ سا ترجمہ جان لینے کے بعدکوئی بھی اس پر غور کرسکتا ہے اور اس طرح غورکرسکتا ہے کہ وہ ہفتوں مہینوں اس پر غورکرتارہےاوراس کے غور وتدبر کا سلسلہ ختم ہونے پر نہ آئے، ظاہر ہے جب اﷲ تعالی کی نعمتوں کی کوئی حد نہیںتو غوروفکر کرنے والے کے غوروفکرکا سلسلہ بھی اتنا ہی دراز ہوسکتاہے۔
اس آیت پر غور کرنے کے لیے عربی دانی شرط نہیں، اس کے لیے دل کی بیداری، فطرت کی سلامتی، طبیعت کی پاکیزگی اور احسان کرنے والے کے لیے احسان مندی کا جذبہ درکار ہے۔
ایک دوسری آیت ہے:
إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِأُوْلِیْ الألْبَابِ۔ (سورۃ آل عمران: ۱۹۰)
(بلاشبہہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں،اور رات و دن کے باری باری آنے جانے میں بڑی نشانیاں ہیں سلیم العقل لوگوں کے لیے۔)
یہ ایک ایسی آیت ہے جس کا سادہ سا ترجمہ کسی سے سن کر،یا کسی ترجمۂ قرآن میں دیکھ کرکوئی بھی اس پر غور کرسکتاہے،اوراس غور کے نتیجہ میں قدم قدم پر اﷲ تعالی کی قدرت کے جلوے دیکھ سکتا ہےاور ایمان ویقین کی کیفیات سے سرشار ہو سکتا ہے۔
اوراگر کوئی ایسا شخص ہے جو فلکیات یا علم طبقات الارض سے تعلق رکھتا ہے،تو وہ تو اس آیت کی وسعتوں اور گہرائیوں میں اتنی دورتک جا سکتاہے،جس کا اچھے اچھے علماء کبھی تصور بھی نہیں کرسکتے۔
میرے عزیزواوردوستو! یہ دو مثالیں ہیںانہی دو مثالوںپر پورے قرآن پاک کو قیاس کرسکتے ہو۔ا ﷲ تعالی نے یہ قرآن سب کے لیے نازل فرمایاہےاورسب کو تدبراورغوروفکر کی دعوت دی ہے۔ ہرایک اپنی صلاحیت اور اپنی سطح کے مطابق غوروفکرکرے گااورتبھی اس سے فائدہ اٹھاسکے گا غوروتدبرکے بغیر قرآن پاک سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں۔
بدقسمتی سے عام طلبہ اور نوجوانوں بلکہ عام مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ یہ قرآن پاک سب کے سمجھنے کی چیز نہیں ،یہ احساس بہت ہی غلط اور انتہائی خطرناک ہے، اس احساس نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے،اس نے ہماری ملت کو قرآن پاک سے دور کرنے میں بہت زبردست رول ادا کیا ہے، اس احساس سے ہم جس قدر جلد آزاد ہو سکیں بہتر ہے۔
میرے عزیزو اور دوستو!اﷲ کی کتاب کو جتنا پڑھ سکتے ہوپڑھو،اس پر جتنا غوروفکر کر سکتے ہوغوروفکر کرو،اس سے جتنا قریب ہوگے، اتنا ہی مالامال ہو گے۔بس شرط یہ ہے کہ اس سے تمہیں سچی محبت ہو،اس کی ہدایات پر عمل کرنے کا جذبہ ہو، اس کی تعلیمات کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے اوراپنے طورطریق کو سنوارنے کا حوصلہ ہو۔
میرے عزیزو اور دوستو !کبھی یہ کہہ کر اپنے آپ کو یا دوسروں کوبہکانے کی کوشش نہ کرناکہ قرآن پاک پڑھنے کا توبہت دل چاہتا ہے ، مگر کیا کریںصبح سے شام تک ایک منٹ خالی نہیں،کا موں کا اتنا ہجوم رہتاہے کہ سانس لینے کی فرصت نہیں ملتی!
آج کل یہ بیماری بہت عام ہے،اس طرح کی باتیں عام طور سے لوگ کہتے ہیںاور بڑی سنجیدگی سے کہتے ہیں۔
اس طرح کی باتیں کرناقرآ ن پاک کے ساتھ بڑی بے ادبی، اپنے رب کے ساتھ کھلی ہوئی گستاخی اور اس کی نعمتوں کی صاف صاف ناشکری ہے ۔
میرے عزیزو! وقت کیا چیز ہے ؟ وقت زندگی کا ہی دوسرانام ہے،یہ زندگی ہمیں کس نے دی ہے؟زندگی کی رونقیں اور زندگی کی مصروفیتیں کس نے دی ہیں ؟
کتنی نادانی کی بات ہے کہ جس نے ہمیں یہ زندگی اورزندگی کی یہ رونقیں اورمصروفیتیں دی ہیںاسی کا پیغام سننے اوراسی کا کلام پڑھنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہ ہو !
یہ سوچ ایک بہت بڑی بیماری ہےجو خالص مادہ پرستی اور آخرت فراموشی کا نتیجہ ہوتی ہے، جس طرح ممکن ہو اس بیماری سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس تعلیم یا اس ریسرچ یااس کاروبار یا اس مصروفیت میں کوئی خیر نہیںجو ہمیں خدا اور اس کی کتاب سے دور کردے، جو ہمیں اتنی فرصت نہ دے کہ ہم اپنے رب کو یاد کرسکیںاوراس کی کتاب کوپڑھ سکیں۔
یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اس دنیا میں ہمیں ہمیشہ نہیں رہنا ہےبلکہ دیرسویر یہاں سے رخصت ہوجانا ہےاور جس طرح اس دنیا میں خالی ہاتھ آئے تھےبالکل اسی طرح یہاں سے خالی ہاتھ جانا ہے، اس وقت اگر کوئی چیز ہمارے ساتھ جائے گی تو وہ اﷲ کی کتاب ہوگی اس پر ایمان ہوگااس کا احترام ہوگااس سے محبت ہوگی اور اس کی پیروی ہوگی۔
اس کتاب سے تعلق کی بنیاد پر ہی وہاں فیصلے ہوںگے، جس نے اس کتاب کو عزت دی ہوگی خدا اسے عزت دے گا،جس نے اس سے بے اعتنائی برتی ہوگی،خدااس کی طرف نظر نہیں اٹھائے گا۔
اگرآخرت کا یہ تصورہمارے ذہن میں تازہ رہےتو دنیا کی کوئی مصروفیت ہمیں قرآ ن پاک سے غافل نہیں کر سکتی، اس وقت نہ صرف یہ کہ قرآن پاک کے لیے وقت میں اچھی خاصی گنجائش نکل آئے گی بلکہ اس وقت قرآن پاک پڑھنے میں لذت بھی حاصل ہوگی اور حیرت ناک طریقے سے اس کی ساری گرہیں کھلنے لگیں گی،اس وقت جب اسے لے کرپڑھنے بیٹھو گے، یا نماز میں اس کی تلاوت کروگے تو اسے چھوڑنے یانماز کو مختصر کرنے کو دل نہیں چاہے گا،اس وقت اسی قرآن کے بارے میںتمہا را یہ احساس ہوگا ؎
ہٹتی ہی نہیں اب ترے جلووں سے نگاہیں
آنکھوں کو بڑی دیر میں آداب نظر آئے
ڈاکٹرعلامہ اقبالؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ جن دنوں وہ لاہورمیںبیرسٹری کرتے تھے،وہ بس مہینے کے ابتدائی دس دنوں میں کورٹ میں کیس لڑتے تھے،بقیہ بیس دن اپنی علمی اور دینی سرگرمیوں کے لیے فارغ رکھتے تھے، وہ کثرت سے قرآن پاک کا مطالعہ کرتے تھے ،اور گھنٹوں اس پرغوروفکر میں کھوئے رہتے تھے ۔
وہ کہتے تھے،دس دنوں میں جتنا کچھ مل جاتا ہے،وہ پورے مہینے کے لیے کافی ہوتا ہے، اس سے زیادہ کماکر ہمیں کیا کرنا ہے؟
جس وقت ڈاکٹراقبال نے اپنی پر یکٹس کے سلسلے میں یہ فیصلہ کیا تھا، اوراپنا یہ معمول بنایا تھا، یقینا بہت سے لوگوں کو اس پر تعجب ہوا ہوگا،اور کچھ بعید نہیں کہ ان کے بہت سے ساتھیوں نے مذاق بھی اڑایا ہو،مگرکیا اقبال کا اس سے کوئی نقصان ہوا ؟ اپنے دین اور اپنے قرآن کی محبت میں انہوں نے جو قربانی دی، کیا اس قربانی نے انہیں مسلمانان عالم کی آنکھوں کا تارہ نہیں بنادیا ؟ ان کے مہربان رب نے انہیں جو عزت کی قبا پہنائی،کیا دنیاکا بڑے سے بڑا خزانہ اس کی قیمت بن سکتا ہے ؟
ایک مرد مومن کی یہی شان ہوتی ہے،وہ دنیا کے معاملے میں کبھی بے اعتدالی کا شکار نہیں ہوتا،وہ دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھتا ہے اوراس سے بس اتنا ہی لیتا ہے، جتنا اس کے دین کی ترقی اوراس کی اخروی کامیابی کا ذریعہ ہو،یا کم ازکم اس کے دین وایمان کے لیے نقصان دہ نہ ہو اور کتاب الٰہی سے اس کی دوری کا باعث نہ ہو،اور ایسا کرکے وہ کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا، اس کا مہربان رب اس کے نیک جذبات کی قدر کرتاہےاوراپنے فضل خاص سے اسے اتنا نواز دیتا ہے، کہ اس سے پہلے وہ اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
میرے پیارے عزیزو!کسی انسان یاکسی قوم کے بننے یا بگڑنے میںرزق حلال اور رزق حرام کا بڑا دخل ہوتا ہے ،رزق حلال ہمیشہ رحمتوں اور برکتوں کے قافلے اپنے ساتھ لاتا ہے، انسانوں اور قوموں کواپنے رب سے قریب کرتا ہے،ان کے اندراس کی کتاب اور اس کی شریعت سے محبت پیدا کرتا ہے،اس کے برعکس رزق حرام ہمیشہ ہلاکتوں اور بربادیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے، وہ انسانوں اور قوموں کے اندربے حسی اور بے رحمی پیدا کرتا ہے،جس انسان یا جس قوم کو اس کی چاٹ لگ جاتی ہے،ذلت ورسوائی اور تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے،کہ یہ رزق حلال اور رزق حرام ہے کیا؟
اس کا ایک مطلب تو وہ ہوتاہےجو تم نے فقہ یا دینیات کی کتابوں میں بارہا پڑھا ہوگا، بارہا خطبوں اور تقریروں میں سنا ہوگا،لہٰذا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
اس کا ایک مفہوم اور بھی ہوتا ہےجس پر شاید تم نے کبھی غور نہ کیا ہویا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دلائی ہومگر وہ بہت اہم ہےاور اس قابل ہے کہ اس کو اچھی طرح سمجھا جائےاور اس کے لحاظ سے برابر اپنا جائزہ لیا جائے۔
ہروہ کاروبار،ہر وہ تجارت ،ہر وہ زراعت ،ہروہ پیشہ جو آدمی کو اس طرح اپنی زنجیروں میں جکڑ لے، اور اس طرح اس کے دل ودماغ پر سوار ہوجائے ،کہ وہ اﷲ کو بھول جائے، وہ پنج وقتہ نمازوں ،اور دوسری تمام عبادا ت سے غافل ہوجائے، کتاب الٰہی کی تلاوت اور اس کا مطالعہ نہ کرسکے، اپنے بوڑھے والدین کی خدمت نہ کرسکے،وہ اپنے بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کا اہتمام نہ کرسکے، اس کے اوپر جو دوسرے فرائض اور حقوق عائدہوتے ہیں، ان کے لیے وقت نہ نکال سکے، ایسا ہر کاروبار شرعی نقطہ نظر سے ناپسندیدہ اورناجائز ہوتا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والا رزق کبھی رزق حلال نہیں کہا جاسکتا ، چاہے بظاہر وہ بالکل صاف ستھرانظر آتا ہو، اور اس میں کسی ایسے عمل کا شائبہ نہ پایا جاتا ہو،جس کو شریعت نے حرام قراردیاہے!
ہروہ رزق جو ایک مسلما ن کا ضمیر مردہ کردے،اسے دینی لحاظ سے بے حس بنادے،اسے اپنے فرائض وواجبات سے غافل کردے ، اور جو آخرت میں اس کے لیے رسوائی اور پشیمانی کا سبب بنے،وہ رزق ایک مسلمان کے لیے کبھی حلال نہیں ہو سکتا۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
میرے پیارے عزیزو! اسی کاروبار اور اسی رزق پرہراس تعلیم اور ہر اس ریسرچ کو بھی قیاس کرسکتے ہو،جو تمہیں اﷲ کی کتاب سے غافل کردے،اور تمہیں اس قابل نہ چھوڑے کہ تم اﷲ کی کتاب کے لیے وقت نکال سکواوراس کاتم پر جو حق ہوتا ہے اس حق کو ادا کرسکو۔
اﷲ کی کتاب کو نظرانداز کرکے کوئی بھی علم حاصل کیا جائےوہ کبھی بھی ہماری سرخروئی کا ذریعہ نہیں بن سکتا،وہ نہ ہمیں اس دنیا میں عزت دے سکتاہے،نہ آخرت کی رسوائی سے بچاسکتا ہے۔
آج ملت اسلامیہ کن حالات سے گزررہی ہے، اپنے ملک ہندوستان میں کن حالات سے گزررہی ہے،ہندوستان سے باہر پوری دنیا میںکن حالات سے گزررہی ہے، پستی و زبوں حالی کی وہ کون سی حالت ہےجس کا وہ سامنا نہیں کررہی ہے؟
کیا یہ ساری پستی و زبوں حالی اس وجہ سے ہے کہ وہ سائنس اور ٹکنالوجی میں پیچھے ہے ؟ کیا اس وجہ سے ہے کہ اس کی صفوں میںانسانی علوم کے ماہرین کی کمی ہے ؟ عالمی حالات پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے،مسلم امت میں ہر میدان کے بڑے بڑے سورما موجود ہیںجو دوسری قوموں سے کسی حیثیت سے پیچھے نہیں ہیں۔
آج یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اورکناڈا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں جاکر دیکھوایک سے ایک مسلم پروفیسرس تمہیں ملیں گے جو دوسری قوموں کے پروفیسرس سے کسی حیثیت سے پیچھے نہیں ہوں گے ، ان کی رصدگاہوں اور ایٹمی تجربہ گاہوں میں جاکر دیکھو،ایک سے ایک مسلم سائنٹسٹ اورجدید ٹکنالوجی کے اکسپرٹ ملیں گے،جو کسی لحاظ سے دوسری قوموں سے کمتر نہیں ہوں گےاورایسے لوگ دس بیس کی تعداد میں نہیں، ہزاروں کی تعداد میں ملیں گے۔
مگرآہ ! یہ ہزاروں مسلم پروفیسرس اورمسلم اکسپرٹس وہ ہوں گےجن کی اکثریت کتاب الٰہی سے بے گانہ، بلکہ بے زار ہوگی،جنہیں اپنے دین اور اپنی ملت سے کوئی لگاؤ نہیں ہوگا،جو اپنے آپ کو ایک مسلم کی حیثیت سے پیش کرنے سے بھی گریز کرتے ہوں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آج مسلم اسکالرس اور مسلم اکسپرٹس کی بہترین صلاحیتیں اپنے دین اور اپنی ملت کے کام نہیں آرہی ہیں،بلکہ اﷲ کے دشمنوں کے کام آرہی ہیں،جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ انہوں نے قرآن پاک نہیں پڑھا،انہوں نے اﷲ کی کتاب کو نہیں پہچانااور اﷲ کی کتاب کو نہ پہچان کر انہوں نے خود اپنے آپ کو نہیں پہچانا،اپنے منصب کو نہیں پہچانا،اپنے اس بلند مقام کو نہیں پہچاناجس پر ان کے رب نے انہیں سرفراز فرمایاتھا۔
میرے پیارے عزیزو ! اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو، ہماری عزت اورذلت مکمل طور سے اسی قرآن سے وابستہ ہے،اگرقرآن تمہارے ہاتھو ں میں ہوگااور مضبوطی سے اسے پکڑے رہوگے تو مٹی کو بھی ہاتھ لگاؤگے تو وہ سونا بن جائے گی لیکن اگرتم نے قرآن پاک کی عزت سے اپنے آپ کومحروم کرلیاتو پھر کوئی چیزتمہیں عزت دلانے والی نہیں۔تم دنیا کے سارے علوم حاصل کروکہ ان سارے علوم کی ضرورت ہےاوران سارے علوم میں افادیت ہےمگریہ بات کبھی نہ بھولو کہ یہ علوم تمہارے لیے اسی صورت میںعزت وسربلندی کا ذریعہ بن سکتے ہیںجب تم قرآنی اسپرٹ کے ساتھ انہیں حاصل کرواور قرآن کی رہنمائی میں انہیں استعمال کرو۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ پابندی سے قرآن پاک کا مطالعہ کرو،اس کی ایک ایک آیت پر ڈیرے ڈالو، اور ایک ایک آیت کو سمجھنے کی کوشش کرو، وہ آیت اگر تمہیں کوئی پیغام دیتی ہے تو سنجید گی سے اس پیغام کوسنواور اس کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرو،تنہا بھی اس کا مطالعہ کرو، اچھے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر اجتماعی مطالعہ بھی کرو،اگر عربی نہیں جانتےتواردو،یا ہندی یا انگریزی ترجمے اور تفسیریں اپنے سامنے رکھو،ان ترجموں اور تفسیروں سے اگر تشفی نہ ہو،تو تفسیرکا ذوق رکھنے والے علماء سے استفادہ کرو، مگر جب تک اس آیت کو سمجھ نہ لو چین سے نہ بیٹھو۔
مختصر یہ کہ کسی بھی حالت میں قرآن پاک سے غافل نہ ر ہو، قرآن پاک کواگریاد کرسکتے ہو تو یاد بھی کرو، پورا نہیں یاد کرسکتے تو جتنا بھی یاد کرسکتے ہو یاد کروکہ اس سے تمہاری روح کوفرحت اوردل کو ٹھنڈک حاصل ہوگی، نیز اس سے اس پر غور کرنا، ا س کے معانی کو سمجھنا، اور انہیں محفوظ ر کھنا آسان ہوگا۔
میرے پیارے عزیزو ! قرآن پاک میں اﷲ تعالی نے اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کی یہ صفت بتائی ہے کہ جب انہیں رحمان کی آیتیں سنائی جاتی ہیںتو وہ روتے ہیںاورروتے روتے سجدے میں گر پڑتے ہیں۔
إِذَا تُتْلَی عَلَیْہِمْ آیَاتُ الرَّحْمَن خَرُّوا سُجَّداً وَبُکِیّا۔ (سورۃ مریم: ۵۸)
ایک دوسری جگہ فرمایاہے:
إِنَّمَا یُؤْمِنُ بِآیَاتِنَا الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوا بِہَا خَرُّوا سُجَّداً وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُون۔(سورۃ السجدہ:۱۵)
ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے تو وہ لوگ ہیںکہ جب ان آیتوں سے ان کی یاددہانی کرائی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیںاوراپنے رب کی حمد کرتےاوراس سے مغفرت طلب کرتے ہیںاوروہ تکبر کی روش نہیں اختیار کرتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کی شان یہ ہےکہ جب اس کی آیتیں پڑھیں یاکسی کو پڑھتے ہوئے سنیں تو ہم پرگریہ طاری ہوجائے یا کم از کم دل پر اس کا کچھ ا ثر ہو یہ ایک سچے اورزندہ ایمان کی علامت ہوتی ہے،لہٰذا قرآن پاک پڑ ھتے وقت نہایت سنجیدہ ہونا چاہیے، اس دوران میں اِدھر اُدھرکی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، اورہنسی مذاق سے پرہیز کرنا چاہیے ،کو ئی دوسرا قرآن پاک پڑھ رہا ہو،اس وقت بھی سنجیدہ ہونا چاہیے،نہ شور ہنگامہ کرنا چاہیے،نہ کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس سے وہ ڈسٹرب ہو۔
یہ اﷲ کا کلام ہے،اس کا ہم جتنا زیادہ احترام کریں گے، اتنا ہی زیادہ اس کی رحمت کے سزاوار ہوں گے۔اﷲ تعالی ہمیں اپنی توفیق سے بہرہ مند فرمائے، ہمیں اپنے بہترین اسلاف کا بہترین جانشین بنائے، ہمیں قرآن پاک کا سچاشیدائی بنائے،اس کے احکام پر عمل کرنےاور اس کے پیغام کو سارے انسانوں تک پہنچانے کا حوصلہ عطافرمائے،رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔
(مضمون نگار معروف عالم دین اور محمد عربیؐ کے مولف ہیں )

 

***

 یہ ایک حقیقت ہے کہ آج مسلم اسکالرس اور مسلم اکسپرٹس کی بہترین صلاحیتیں اپنے دین اور اپنی ملت کے کام نہیں آرہی ہیں،بلکہ اﷲ کے دشمنوں کے کام آرہی ہیں،جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ انہوں نے قرآن پاک نہیں پڑھا،انہوں نے اﷲ کی کتاب کو نہیں پہچانا،اور اﷲ کی کتاب کو نہ پہچان کر انہوں نے خود اپنے آپ کو نہیں پہچانا،اپنے منصب کو نہیں پہچانا،اپنے اس بلند مقام کو نہیں پہچاناجس پر ان کے رب نے انہیں سرفراز فرمایاتھا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اکتوبر تا 22 اکتوبر 2022