مسلم وقف ترمیمی بل 2024

مجوزہ بل کےبیشتر نکات وقف کی بنیاد اور صحیح مصرف کے خلاف

ملک معتصم خان
نائب امیر جماعت اسلامی ہند

اوقاف کی اراضی پر غیر قانونی قبضے کا سب سے زیادہ الزام حکومت کے سر
غیر سماجی غنڈہ عناصر اور پیشہ ور لینڈ گرابرس کے لیے ’مجوزہ بل‘ ایک نعمت۔مسلمانوں کے لیے سنگین خطرہ
وقف کے تعلق سے اسلامی تعلیمات کا ایک اہم اور بنیادی اصول ہے کہ ’’ایک بار وقف تو ہمیشہ کے لیے وقف‘‘ لیکن موجودہ حکومت نے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے وقف سے متعلق،اسلام کے اس اہم ترین عقیدے اور بنیادی اصول پر ضرب لگاتے ہوئے اسے اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق جبراً تبدیل کرناچاہتی ہے جو مسلم اوقاف کے وجود اور اس کی کارکردگی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ مجوزہ 2024 وقف ترمیمی بل کے ذریعے 1995 کے وقف ایکٹ میں 44 خطرناک ترامیم متعارف کروانے کی سازش رچی گئی ہے۔ ان ترامیم کا مقصد مسلم وقف املاک کے انتظامیہ اور اس کے اصول و ضوابط کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق تبدیل کرکے نئی شکل دینا ہے۔
وقف مینجمنٹ سسٹم آف انڈیا کے ڈیجیٹل ریکارڈ کے مطابق، ای گورننس کی روشنی میں آج وزارت اقلیتی بہبود، حکومت ہند کے تحت کل 32 مسلم وقف بورڈس بخوبی اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔ ان وقف بورڈس کے تحت 8,72,324 رجسٹرڈ غیر منقولہ جائیدادیں اور 16,713 متحرک جائیدادیں ہیں۔ اس اعتبار سے ان تمام وقف بورڈس کے قبضے میں تخمینہ جائیدادوں کی قیمت تقریباً 1.2 لاکھ کروڑ روپے ہے اور 9.4 لاکھ ایکڑ اراضی اس کے علاوہ ہے۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں انڈین ریلویز اور بھارتی محکمہ دفاع کے بعدمسلم وقف بورڈ،ملک کا سب سے بڑا زمین دار ادارہ ہے۔
وقف کے قیام کی جڑیں بہت گہری ہیں اس کے قیا م کاآغاز نبی کریم ﷺکے دور سے شروع ہوتا ہے۔ بھارت میں وقف بورڈ کا آغاز برطانوی حکومت کے قیام کے دوران عمل میں آیا۔ 1913 میں آزادی سے قبل بھارت میں مسلم وقف بورڈ کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ اس کے بعد 1954 میں باضابطہ مرکزی وقف ایکٹ منظور کیا گیا۔ آزادی کے بعد 1954 میں بھارت میں باضابطہ ایک مرکزی وقف ایکٹ نافذ کیا گیا۔ 1964 اور 1995 میں اس ایکٹ میں کچھ معمولی ترمیمات کی گئیں اور آج 2024 میں این ڈی اے حکومت کی جانب سے یہ مجوزہ ترمیم شدہ بل پیش کیا گیا ہے جو موجودہ مسلم وقف املاک کے مستقبل اور مسلم برادری پر بلاشبہ منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات کو تقویت پہنچاتا ہے۔
اسلامی فقہ کے مطابق لفظ وقف کے لفظی معنی ہیں حراست۔ اس سے مراد مذہبی یا انسانوں کی بہبود کے لیے خیراتی مقصد سے اپنی ذاتی جائیداد کو مستقل طور پراللہ کے نام پر وقف کر دینا ہے۔ چنانچہ جب کوئی شخص اپنی کسی جائیداد کو وقف کردیتا ہے تو اسے جوں کا توں حالت میں مستقل طور پر رکھا جاتا ہے یعنی کسی بھی صورت میں، حالات چاہے کیسے بھی کیوں نہ ہوں، اس جائیداد کو فروخت یا دوسرے کے نام پر منتقل کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہوتا۔ اس جائیداد کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے زیر تصرف لایا جاسکتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی،مطلوبہ استفادہ کنندگان کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔ وقف کا قانون، اسلامی عقائد اور مسلم پرسنل لا میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ جو مسلم برادری کی مذہبی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وقف کا وجود ایک بالکل خالص اور رضاکارانہ عمل ہے جو وقف کرنے والے کی شخصیت کے انسانی، دینی اور سماجی خدمات کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے کیوں کہ کوئی بھی شخص کسی جبر یا ذاتی مفاد کے بغیر، اپنی قیمتی جائیداد ہمیشہ کے لیے عطیہ دیتا ہے۔ مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024، اسلام کے انہیں بنیادی اصولوں سے ٹکراتا ہے۔ ملک کی موجودہ صورت حال کے پس منظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ترمیمی بل، سیاسی اور غیر سیاسی افراد کے ذریعے وقف املاک کی حفاظت کرنے کے نام پر اس کو دیگر غیر مستحق افراداور جماعتوں میں مفت بانٹنے کے لیے خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بل نہ صرف مسلم برادری کے حق میں ایک سنگین خطرہ ہے بلکہ آگے چل کر غریب، بے روزگار اور مسلم برادری کے مفادات پر بھی کاری ضرب لگاتا رہے گا۔ مسلمانوں کو جو دراصل وقف جائیدادوں کے استعمال کے صحیح حق دار ہیں، ان کو ان کے اس شرعی حق سے یکلخت اور مستقل طور پر محروم کرنے کی منصوبہ بند چال ہے۔
وقف ایکٹ1955 میں مجوزہ تبدیلیاں:
وقف ایکٹ 1955 میں حکومت کی جانب سے کی جانے والی مجوزہ تبدیلیوں کے اعلان کے ساتھ ہی جگہ جگہ مختلف مذہبی اور سماجی تنظیموں، سماجی رہنماؤں اور کارکنوں اور حزب اختلاف کی ممتاز شخصیتوں کے علاوہ ماہرین قانون کی جانب سے بڑے پیمانے پر شدید تنقید اور تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات سے وقف کی املاک پر ناجائز قبضہ کرنے کے واقعات میں بلاشبہ دن بہ دن اضافہ ہی ہوگا۔ جب تمام وقف بورڈس اور وقف ٹریبونلس کی دستوری، جمہوری خود اختیاری اور قانونی اختیارات ختم کردیے جائیں گے تو وقف املاک پر اپنے جائز حق کا دعویٰ کرنے والے مستحق مسلم خاندان، بحیثیت حقیقی حق دار، اپنے حق سے جبراً محروم کردیے جائیں گے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے ان مسلم مخالف اقدامات کے ذریعے وہ غیر مسلم یا ہندو ووٹرس میں اپنے آپ کو مستحکم اور ممتازظاہر کرنا چاہتی ہے۔ ان ترمیمات کے بعد وقف بورڈس کی بنیادیں بری طرح ہل جائیں گی جس کی وجہ سے آگے چل کر وقف کی عمارت خود بخود مسمار ہوجائے گی۔ دانشوروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے ان بدنیتی پر مبنی اقدامات سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھنے کے قوی امکانات ہیں اور یہاں رہنے بسنے والی مسلم اقلیت کے دستوری حقوق اور مذہبی آزادی پر بھی کاری ضرب لگے گی۔
مسلم وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی شمولیت:
CWC) سنٹرل وقف کونسل، CEO چیف اکزیکیٹیو آفیسر، SWB اسٹیٹ وقف بورڈس)
وقف بورڈ کے انتظامی امور کا راست تعلق اسلام کے چند مخصوص بنیادی اصولوں سے ہے جس کی وجہ سے مسلم وقف اداروں کے انتظامی امور کی ذمہ داری صرف انہیں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جو وقف کے اسلامی اصولوں اور احکامات سے پوری طرح سے واقفیت رکھتے ہوں اور قانونی پیچیدگیوں کو سلجھانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ اسی اصول کی افادیت کی بنیاد پرہمارے سامنے بھارت میں ہندو ، جین اور سکھ مذاہب کے اوقاف کے قوانین و ضوابط، بطور شہادت موجود ہیں، خصوصاً ان مذاہب کے ماننے والوں کے اوقاف بورڈس میں صرف انہیں مذاہب کے افراد کو شامل کیے جانے کی شرط موجود ہے۔ اس قدر واضح مثال کے باوجود، موجودہ حکومت مسلم وقف ایکٹ کے سیکشن 9 اور 23 میں غیر ضروری ترامیم کرکے سنٹرل مسلم وقف کونسل، اسٹیٹ مسلم وقف بورڈس اور سنٹرل مسلم وقف بورڈ میں غیر مسلم افراد کو جبراً شامل کرکے انہیں کلیدی عہدوں پر فائز کرنا چاہتی ہے یہاں تک کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر کی حیثیت سے بھی کسی غیر مسلم کا تقرر کرنا چاہتی ہے جو بھارتی دستور کی دفعات 14‘ 25 اور 26 میں درج مذہبی مساوات، مذہبی آزادی اور خود مختاری کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ہمیں یاد ہے کہ اس سے قبل سنٹرل مسلم وقف کونسل میں کل چودہ ارکان شامل تھے جن میں ایک غیر مسلم رکن بھی تھا۔ اس کے علاوہ بحیثیت مجموعی تمام مسلم وقف معاملات کا ذمہ داریعنی وقف بورڈ کا چیرمین ایک مرکزی وزیر ہوتا ہے۔ اب مجوزہ ترمیم کے بعد سنٹرل وقف کونسل کے ارکان کی تعداد تیئیس کردی جائے گی جن میں سات غیر مسلم ارکان شامل کیے جائیں گے۔ سماجی جہد کاروں اوردانشوروں کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی سے عوامی نمائندگی کا توازن بگڑ جائے گا کیوں کہ تیئیس ارکان کے درمیان سات غیر مسلم ارکان کی شمولیت، وقف بورڈ کی سالمیت کے لیے غیر موزوں ثابت ہوگی کیوں کہ انہیں وقف امور میں دین اسلام کے اصولوں اور ہدایات سے ناواقفیت کی وجہ سے قدم قدم پر رکاوٹیں پیش آئیں گی۔ غیر مسلم ہونے کی حیثیت سے فطری طور پران سے اسلامی اقدارکے احترام کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔
وقف بورڈ کے انتظامی امور میں حکومت کی بے جا دخل اندازی، اختیارات سے حد سے زیادہ تجاوز اور جمہوری اقدار کی پامالی:
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مجوزہ مسلم وقف ترمیمی بل سرکاری سطح پر جمہوری اصولوں سے انحراف کی زندہ مثال ہے جبکہ ماضی میں سابقہ حکومتوں نے وقف بورڈس کی تشکیل اور اس کی بہتر سے بہتر کارکردگی کو ہمیشہ تقویت بخشنے کی کوشش کی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں وقف بورڈ کی تشکیل کے لیے الکٹورل کالج سے دو ارکان منتخب کیے جاتے تھے جو عموماً مسلم ممبر آف پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی، اسٹیٹ بار کونسل کے ارکان اور اوقافی جائیدادوں کے نگران کار متولی ہوا کرتے تھے، مجوزہ ترامیم کے بعداب تمام 23 ارکان کا انتخاب موجودہ حکومت خود اپنے طور پرکرے گی۔ اس کے بعد محکمہ اوقاف میں برسوں سے رائج جمہوری طریقہ کار کی دھجیاں اڑنے میں مزید کوئی تاخیر نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ حکومت کے منتخب کردہ ارکان صاحب اقتدار ٹولی کی خوشنودی کی خاطر وقف بورڈ کی خود مختاری اور وقف کی منشا کو پس پشت ڈال کر اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرتے رہیں گے۔
وقف ایکٹ 21 سیکشن A:
ترمیمی بل میں وقف ایکٹ 21 سیکشن A کے ایک نکتے کو منسوخ کیے جانے کی تجویز اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے لیے بہت زیادہ پریشان کن حالات کی پیش قیاسی کرتی ہے۔اس ایکٹ کے مطابق فی الوقت صرف وقف بورڈ کے منتخب ارکان کے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے چیرمین وقف بورڈ کو اس کے عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے لیکن اس ترمیم کے بعد چیرمین کو اس کے عہدے سے ہٹانے کا اختیار اب ریاستی حکومتوں کوہوگا جس کے اطلاق کے بعد وقف بورڈس کی انتظامی صلاحیت پربلاشبہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
وقف ایکٹ کی دفعہ 23 میں مجوزہ ترمیم کے بعد اس سے زیادہ حیرت ناک نتائج سامنے آئیں گے، مثلاً ایگزکیٹیو آفیشیو سکریٹری کا تقرر، وقف بورڈ کے ارکان کی رائے کے بغیر حکومت خود کرے گی۔ اس ترمیم شدہ دفعہ کے نفاذ کے بعد وقف بورڈ کی کارکردگی اور کام میں شفافیت کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ چنانچہ وقف کے نئے ترمیم شدہ قوانین ،غیر سماجی غنڈہ عناصر اور زمینات پر ناجائز قبضہ کرنے والے پیشہ وروں اور لینڈ گرابروں کے لیے ایک نعمت اور ایک تحفہ ثابت ہوگی۔اس بل کا سب سے خطرناک موڑ‘ دفعہ نمبر 107 کو سرے سے برخاست کرنا ہے جسے فی الحال وقف املاک کو قانونی حد بندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اسی دفعہ کے تحت محکمہ اوقاف کو وقف شدہ زمینات پرغیر قانونی طور پر قابض افراد سے ان اراضی کی بازیابی میں بہت بڑی مدد ملتی ہے۔ دفعہ نمبر107 کو منسوخ کرنے سے وقف بورڈ کے جائز اور حقیقی دعوؤں کو شدید نقصان پہنچے گا اور بورڈ کو ان زمینات کی بازیابی کے لیے قانونی کارروائی کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اگر وقف جائیدادوں کی حد بندی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے تو وقف کی جن اراضی پر غنڈہ عناصر قابض ہیں ان وقف زمینوں پر سے انہیں قانونی طور پربے دخل کرنامشکل ہوجائے گا۔ مزید برآں ان لینڈ گرابرس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی بھی نہیں کی جاسکے گی۔اس کے علاوہ دفعہ 107 کی برخاستگی کے بعد زمینوں پر قبضہ کرنے والے پیشہ وروں لینڈ گرابروں اور غنڈہ عناصرکو جن کے پاس پہلے ہی سے دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں ترمیم شدہ وقف ایکٹ کے بعد ان کے ہاتھوں میں نہ ختم ہونے والے خزانے آ جائیں گے جس کے منفی اثرات مستحق مسلم برادری پر پڑیں گے جو عموماً وقف جائیدادوں کے تصرف کے حقیقی حق دار ہوتے ہیں۔
مجوزہ وقف ترمیمی بل میں چند نئی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں جن سے وقف جائیدادوں سے متعلق وقف بورڈ کے اختیارت کے توازن میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ موجودہ ایکٹ کے سیکشن 40 کے تحت سب سے پہلے وقف بورڈ کی اراضی کی قانونی حیثیت کا تعین کرنے کا اختیار رکھنے والی کمیٹی کوتسلیم کرنا ہوگاجس کی تائید سپریم کورٹ کرتی ہے۔ اور اب نئے بل کی دفعہ 40 میں چند ترامیم کے ساتھ سیکشن 3a 3b & 3c شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن کے ذریعے حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی وقف جائیداد کو سرکاری ملکیت قرار دے کر اس پر قبضہ حاصل کرسکتی ہے۔ یہ معاملہ بہت پیچیدہ خطرناک اور تشویش ناک بھی ہے کیوں کہ وقف کی زیادہ تر املاک پر ناجائز قبضہ کرنے والوں میں سب سے زیادہ الزام حکومت پر لگایا جاتا ہے۔ اس ترمیم کے بعد کسی بھی اوقافی جائیداد کے بارے میں ناانصافی پر مبنی، ملکیت کایکطرفہ فیصلہ کرنے کا حکومت کومکمل اختیار ہوگا ۔ منشائے وقف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت اب خود فیصلہ کرے گی کہ کونسی جائیداد حکومت کی ملکیت ہے اور کونسی وقف کی۔ مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کی ناانصافی کے فیصلے سابقہ حکومتیں بھی کرتی رہی ہیں جو آج موجودہ حکومت بھی کررہی ہے اور لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ ان کے علاوہ حکومت اور وقف بورڈ کے درمیان نئے نئے تنازعات پیداہوں گے جس سے جائز وقف جائدادوں پرسے وقف بورڈ کے قبضے ایک کے بعد ایک ختم ہونے شروع ہوجائیں گے۔
اس کے علاوہ وقف ترمیمی بل میں دفعہ 40 کے تحت وقف کی ملکیت سمجھی جانے والی اراضی اور جائیداد کے قانونی ہونے کے بارے میں تحقیقات کرنے اور اس ضمن میں ضروری احکامات جاری کرنے کا وقف بورڈ کا اختیار یکلخت ختم کردیا جائے گا۔ حالاں کہ اب تک اسی اختیار کے تحت پورے ملک میں قائم وقف بورڈس وقف جائیدادوں کا تحفظ کرتے آئے ہیں اور اسی اختیار کے تحت غنڈہ عناصر اور غیر قانونی قابضین کو کیفر کردار تک پہنچاتے رہے ہیں۔ یہ اختیار دراصل وقف بورڈس کے ہاتھوں میں ایک ایسا ہتھیارتھا جو وقف املاک کے حقوق کی نگرانی اور سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم کردار ادا کرتا آرہا تھا۔
حالاں کہ وقف بورڈ کے کسی فیصلے یا حکم کے خلاف درخواست گزار وقف ٹریبونل سے رجوع کرکے چیلنج کرسکتا ہے لیکن اب مجوزہ ترمیم کے بعد وقف بورڈ کو وقف کے اثاثوں کے تحفظ کے لیے ان کے ہاتھوں سے یہ ہتھیار چھین لیا گیا ہے اورا نہیں اس اختیار سے محروم کردیا گیا ہے۔
جب کوئی فرد صدق دل سے اپنی کوئی جائیداد زمین یا عمارت وقف کرتا ہے تو اس کے پس پردہ بلاشبہ انسانوں کی بھلائی فلاح و بہبود کی نیت ہوتی ہے۔ وقف کرنے والے انسانوں کی نیت کو درکنار کرتے ہوئے اب وقف کرنے والے شخص پر کچھ شرائط عائد کی گئی ہیں جس کے تحت وقف کرنے والے عطیہ دہندہ کو کم سے کم پانچ سال تک اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی (یہ شرط سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ نکتے سے جدا ہے) یہ شرط عدالت کی من مانی رائے کا اظہار ہے جو اسلام قبول کرنے والے نومسلموں کو اپنی جائیداد وقف کرنے سے روکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اس میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ وقف کرنے والا مسلمان اگلے پانچ سال تک تمام شرعی احکامات پر عمل پیرا ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کسی مسلمان کے عقائد اور عبادات کی پانچ سال تک نگرانی کرنے یا اس کی تصدیق کرنے کا اختیار کس عہدہ دار کے ہاتھوں میں ہوگا؟ ایسی غیر معقول، نامناسب، مضحکہ خیز اور من مانی شرائط کے اطلاق سے وقف املاک کے تصرف میں غیر ضروری پیچیدگیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ وقف ترمیمی بل 2024 کے مسودے کی تیاری کے وقت، میٹنگ میں مسلم علماء و دانشور اور سماجی قائدین کو عمداً مدعو نہیں کیا گیا یعنی مسلم علماء، فقہاء اور قائدین کی غیر موجودگی میں مسلم دشمن، کٹّر ہندو بنیاد پرست دانشوروں نے یہ ترمیمی بل مرتب کیا ہے۔ پورے ترمیمی بل میں اسی طرح کی نامناسب، غیر معقول شرائط کی شمولیت کا مقصد، مسلم وقف کے بنیادی اصولوں کو غیر ضروری، بے وزن اوربے وقعت ثابت کرنا ہے۔اس کے علاوہ اس بل کی تیاری کا مقصد، بھارت کے مسلم علمائے دین اور مسلم دانشوروں کو اوقاف کی املاک سے دوررکھنا ہے۔ اس بل میں ترمیمات کے بعد بہت سے مذہبی، سماجی خدمات انجام دینے والے ادارے جو خیراتی خدمات کے لیے وقف ہیں، مستقبل میں مسلم اوقافی جائیدادوں سے کوئی استفادہ کرنے کے، قانوناً مجاز نہیں ہوں گے اور کسی فرد کو کوئی بھی مذہب اختیار کرنے کے حق پر بھی پس پردہ پابندی عائدکی جاسکتی ہے۔ ان تمام ترمیمات کے ساتھ مسلم وقف ترمیمی بل کے اطلاق سے نہایت سنگین، خطرناک اور ناقابل قیاس اثرات مرتب ہوں گے۔ آخر میں مسلمانوں کی مسجدوں، دینی مدارس، مسلم قبرستانوں اور سماجی خدمات انجام دینے والے خیراتی اداروں اوردیگر انجمنوں کاوجود خطرے میں پڑجائے گا۔ وقف ایکٹ 1995 سے دفعہ 3(r) (i) کو حذف کردینے کے بعد مسلم اوقاف کی املاک و اراضی کی ملکیت کے تنازعات کے فیصلے کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ وقف بورڈس کی جانب سے کیے جانے والے اب تک کے انتظامی معاملات، املاک و اراضی کی حفاظت اور اس کے استعمال کے مضبوط و موثر شرعی احکامات کویہ ترمیمات کمزور اور ناکارہ کردیں گی۔
سروے کمشنر کا عہدہ برخاست:
مجوزہ بل میں وقف سروے کمشنر کے عہدے کو برخاست کرنے کی غیر معقول تجویز پیش کی گئی ہے۔ وقف سروے کمشنر کی جگہ اب وقف املاک و اراضی کے سروے کی ذمہ داری، ضلع کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹر کے عہدے کے مساوی کسی عہدہ دار کے حوالے کرنے کی صلاح دی گئی ہے۔ سروے کمشنر کے عہدے کو برخاست کرنے کی یہ تجویز بذات خود وقف بورڈ کے اہم اور بنیادی اختیارات کو ختم کرنے کی علانیہ سازش اور چال ہے۔ اس مجوزہ بل کی دفعہ 3c کے تحت ضلع کلکٹر کو وقف بورڈ کی املاک و اراضی کی ٹیکس وصولی کے ریکارڈ، کارکردگی کی رپورٹ کی تحقیقات کرنے کے علاوہ ان میں ضروری ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے جس کا مقصد وقف بورڈ کے انتظامی امور کے اختیارات ختم کرنا ہے تاکہ حکومت اور اس کے سیاسی قائدین، وقف کی املاک و اراضی سے مستفید ہوتے ہوئے دنیا میں عیش کرسکیں۔ بالفاظ دیگر اس طرح کی ترمیمات سے قدرتی انصاف اور قانون کی حکم رانی کے اصولوں و ضوابط کی دھجیاں اڑائی جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ ضلع کلکٹروں کو، جن پر پہلے ہی سے سرکاری فرائض کی انجام دہی، عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کی نگرانی اور دیگر ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے، اب انہیں وقف سروے کمشنروں کی زائد خدمات کے علاوہ وقف کے دیگر فرائض کو ایمانداری کے ساتھ نبھانا، وقف جائیدادوں کا تحفظ کرنا، ان کے تصرف اور دیگر انتظامی امور کی انجام دہی کے پیچیدہ کاموں کو بخوبی نبھانا ہوگا۔ اس کے علاوہ وقف املاک و اراضی کو حکومت کی جانب سے سرکاری جائیداد قرار دینے والے جھوٹے دعوے اور وقف بورڈ کے درمیان بطور ثالث کامیاب رول ادا کرنا، ایک کلکٹر کے لیے حقیقتاً ممکن نہیں ہے جس کے نتیجے میں وہ حکومت کے حق میں یکطرفہ غلط فیصلے دے گا جو کہ مسلم وقف بورڈ کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہوگا۔ حق تو یہ ہے کہ وقف املاک کے تمام تنازعات کو وقف ٹریبونل کے ذریعے ہی حل کیا جانا چاہیے کیوں کہ ٹریبونل کے پاس ان مقدمات کو بروقت اور منصفانہ طریقے پر حل کرنے کا عملی تجربہ، مہارت اور صلاحیت ہوتی ہے۔ دفعہ نمبر 36 کے تحت وقف کے لیے مجوزہ ضروری شرائط کو ایک دستاویز میں باضابطہ تحریر کیا جانا دیگر روایتی طریقوں سے کہیں بہتر ہے۔ کسی اراضی، جائیداد یا ملکیت کو وقف کرنے کے لیے زبانی یا تحریری دونوں طریقے رائج اور وقف کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں۔ یہی جو اسلامی فقہ کے مطابق لازمی جز ہے جسے آج اس ترمیمی بل کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس ترمیمی بل میں ایک نئی شرط یہ بھی لگائی گئی ہے کہ تمام وقف جائیدادوں، اراضی اور املاک کو وقف ترمیمی بل 2024 کے نفاذ کے چھ ماہ کے اندر رجسٹر کروالینا ہوگا۔ ایسا نہ کرنے پر فریقین کے خلاف وقف جائیدادوں کے مقدمات میں کسی بھی قانونی کارروائی پر روک لگائی جاسکتی ہے، یہ یکطرفہ سرکاری من مانی اور عوام پر ظلم کے مترادف ہے جس کے اطلاق کی صورت میں جائیدادوں، اراضی یا املاک کے رجسٹریشن کے بجائے حکومت، جائزاوقافی املاک کو اس کی قانونی حیثیت سے محروم کرنے کا اختیار رکھتی ہے جو بلاشبہ مسلم برادری کے بنیادی حقوق پر منفی اثرات پڑنے کے علاوہ کاری ضرب بھی لگے گی۔
ذمہ داریوں میں مجرمانہ غفلت پر سزاؤں میں تخفیف:
وقف کی دفعہ 52A کے تحت وقف کی جائیدادوں کے مقدمات سے اچانک غیر قانونی علیحدگی یا املاک کی خریدی اور قبضے کے فیصلوں میں دی جانے والی سزاؤں میں کمی کرنا ایک تشویش ناک ترمیم ہے۔ اس دفعہ کے تحت سزا پانے والوں کو دی جانے والے قید کی سزا کی مدت میں کمی کرتے ہوئے اسے زیادہ سے زیادہ دو سال کرنے کا اختیار دیا گیاہے۔ ان مقدمات میں الزامات کے ثبوت اور ناقابل ضمانت ہونے کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے وقف املاک کی خاطر خواہ حفاظت نہیں ہوسکتی، جو وقف اراضی کے تحفظ میں حکومت کے ناقص عزم اور مجرمانہ غفلت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
کسی غیر قانونی تنظیم سے وابستگی پر، وقف کے متولی کی برخاستگی:
یہ وقف ترمیمی بل 2024 کی دفعہ 52 کے تحت، وقف جائیداد کے متولی کو کسی غیر قانونی تنظیم سے وابستگی یا اس کی رکنیت اختیار کرنے کی صورت میں متولی کے عہدے سے برخاست کیا جا سکتا ہے جو کسی متولی کو برخاست کرنے کے لیے حکومت کے ہاتھ میں یہ ایک بہترین ہتھیار ہے، یعنی اگروہ کسی ممنوعہ تنظیم سے تعلق رکھتا ہو یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے تو 1967 کے UAPA کے ایکٹ کے تحت اسے متولی کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کیا جاسکتا ہے۔ اس میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ کیا متولی کو ہٹانے کے لیے اس کا مجرم ثابت ہونا ضروری ہے یا کسی ممنوعہ تنظیم سے وابستگی ہی کافی ہوگی۔
مجوزہ ترمیمی بل 2024 بہ یک نظر:
یہ مجوزہ بل، دفتری بدانتظامی، بدعنوانی اور وقف املاک و اراضی پر ناجائز قبضوں سے متعلق اہم مسائل کو حل کرنے میں پوری طرح سے ناکام ثابت ہوگا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بل اوقافی املاک کی بہتر نگہداشت اور موثر استعمال کے لیے ایک نہایت مضبوط ہتھیار فراہم کرنے کے بجائے حکومت نے وقف بورڈ اور وقف ٹریبونل کے اختیارات پر روک لگانے کے لیے وقف انتظامیہ پر جبراً قابو پانے کے اجازت نامے کا مسودہ تیار کرلیا ہے۔ بدنیتی کی بنیاد پر تیار شدہ مجوزہ ترمیمی بل، مستقبل میں سنگین آئینی خدشات اوردیگر بےشمار سماجی و قانونی مسائل پیدا کرسکتا ہے جو آگے چل کر شہریوں کی مذہبی آزادی، مساوات کے حقوق اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
مجوزہ ترمیمی بل اس بات کا ثبوت ہے کہ بل کا مسودہ ترتیب دیتے وقت عمداً مسلم علماء، دانشوروں اور سماجی قائدین کو مدعو نہیں کیا گیا اورایک ناقص اور ادھورا ترمیمی بل عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کے نفاذ سے وقف املاک و اراضی کو ان کے جائز محافظوں کو بے دخل کیے جانے کا امکان نمایاں نظر آتا ہے۔ درحقیقت وقف اراضی کو پیشہ ور غنڈوں اور لینڈ گرابروں سے محفوظ رکھنے کے لیے بنیادی طور پر قانونی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے بجائے اس ترمیم شدہ بل نے موجودہ قانونی تحفظات کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگر حکومت حقیقی معنوں میں مسلم وقف اراضی و املاک کی حفاظت کرنا چاہتی ہے تو کسی بھی نئی قانون سازی کے ذریعے وقف سے مستفید ہونے والے افراد کے مفادات کو ترجیح دے۔ بدقسمتی سے وقف ترمیمی بل 2024 کی تمام دفعات، مسلم مخالف ہیں جس سے سماج پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات پیدا ہونے لگے ہیں۔
آج تک وقف بورڈوں اور وقف ٹریبونلوں نے وقف املاک، اراضی اور جائیدادوں کے تحفظ میں اور انصاف کو یقینی بنانے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ان اداروں کو عمداً کمزور کرنے کی سازش رچنے کے بجائے، موجودہ دستور و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، اس کے مزید مؤثر نفاذ پر توجہ دینی چاہیے۔
وقف کے دیگر حل طلب مسائل :
وقف کی املاک، اراضی اور جائیدادوں اور ان سے متعلق تمام تنازعات کا مکمل تفصیلی ریکارڈ آج کے جدید ٹکنالوجی کے ذریعے محفوظ کیا جائے تاکہ متعلقہ دستاویزات ضرورت پڑنے پر ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہوں۔ ان کے آن لائن ریکارڈ کو یقینی بنایا جائے۔ اوقاف کے تنازعات کے دستوری فیصلوں کا ریکارڈ آن لائن موجود ہو۔ اقتدار کے ارتکاز کو روکنے کے لیے وقف بورڈس کے انتظامیہ میں، جمہوری طرز پر نمائندگی میں اضافہ بہت ضروری ہے۔ جمہوری طرز عمل کو مضبوط کرنے اورانتظامیہ میں بدنظمی، اختیارات کے غلط اور بے جا استعمال پر سخت سزائیں تجویز کی جائیں اور عہدہ داروں میں جواب دہی کو یقینی بنایا جائے۔ ملک کے عوام یہ اچھی طرح محسوس کررہے ہیں کہ مجوزہ ترمیمی بل اپنے بیان کردہ مقاصد اور خوبیوں کے مطابق ہرگز نہیں ہے بلکہ مسلم برادری کے جائز حقوق اور مفادات کا مناسب تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ مذکورہ بالا حقائق اور بل کی خامیوں کے پیش نظر ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بل کوفوراً منسوخ کرکے اسے واپس لے، اس پر دوبارہ غور کرے تاکہ مسلمانوں کی حقیقی ضروریات اور دستوری حقوق کی بہتر عکاسی ہو، ترمیمی بل کا مقصد محض عوام کی خدمت کرنا ہو اور اس کے دیگر تمام منفی پہلوؤں کا خاتمہ کیا جائے۔
(انگریزی سے ترجمہ سلیم الہندی، حیدرآباد)

 

***

 ملک کے عوام یہ اچھی طرح محسوس کررہے ہیں کہ مجوزہ ترمیمی بل اپنے بیان کردہ مقاصد اور خوبیوں کے مطابق ہرگز نہیں ہے بلکہ مسلم برادری کے جائز حقوق اور مفادات کا مناسب تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ مذکورہ بالا حقائق اور بل کی خامیوں کے پیش نظر ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بل کوفوراً منسوخ کرکے اسے واپس لے، اس پر دوبارہ غور کرے تاکہ مسلمانوں کی حقیقی ضروریات اور دستوری حقوق کی بہتر عکاسی ہو، ترمیمی بل کا مقصد محض عوام کی خدمت کرنا ہو اور اس کے دیگر تمام منفی پہلوؤں کا خاتمہ کیا جائے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024