مسلمانوں سے نفرت کی پالیسی بی جے پی کو مٹا دے گی

کرناٹکا اسمبلی انتخابات میں شکست فاش کے بعد بی جے پی سدھر جائے

کانگریس حجاب پر پابندی برخاست کرے گی۔ نو منتخب ایم ایل اے کنیز فاطمہ سے ’دا کوئنٹ‘ کی کرسپانڈنٹ فاطمہ خان کا انٹرویو
قمرالاسلام مرحوم کی اہلیہ کنیز فاطمہ گلبرگہ حلقہ اسمبلی سے منتخب ہونے والی واحد خاتون مسلم لیڈر ہیں۔ قمر الاسلام گلبرگہ حلقہ اسمبلی سے چھ بار ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے اور دو بار ریاستی وزیر رہ چکے تھے۔ کانگریس کے سینئر قائدین نے 2018 کے اسمبلی انتخابات میں کنیز فاطمہ سے جب اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کی درخواست کی تھی تو انہوں نے تذبذب کا اظہار کیا تھا کیوں کہ ان کے شوہر قمر الاسلام کے انتقال کو ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا۔ کنیز فاطمہ ایک باحجاب خاتون ہیں جو کرناٹکا کے علاوہ ‘ملک کی دیگر ریاستوں میں کانگریس کی ایک منفرد سیاسی شخصیت کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے حلقہ اسمبلی گلبرگہ سے انتخاب لڑنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسمبلی کی یہ وہی نشست ہے جس پر ان کے مرحوم شوہر گزشتہ تین دہائیوں تک مسلسل ایم ایل اے کی حیثیت سے منتخب ہوتے رہے۔ چنانچہ کنیز فاطمہ نے 2018 کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور 6000 ووٹوں کی اکثریت سے کرناٹکا کی 224 رکنی اسمبلی میں واحد مسلم خاتون ایم ایل اے منتخب ہوئیں اور پانچ سال میں ایک کامیاب اور فعال ایم ایل اے کی حیثیت سے سماج میں اپنا مقام بنایا۔ انہوں نے 2023 کے انتخابات میں دوبارہ حصہ لیا لیکن اس مرتبہ مقابلہ بہت سخت تھا کیوں کہ بی جے پی اس حلقے میں بہت سرگرمی کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہی تھی۔ بی جے پی کے علاوہ کنیز فاطمہ کو دیگر نو مسلم امیدواروں سے بھی مقابلہ درپیش تھا جن میں آزاد امیدواروں کے ساتھ جنتا دل ایس اور مجلس اتحادالمسلمین کے امیدوار بھی شامل تھے۔ انہوں نے مقامی لنگایت قائد اور بی جے پی کے امیدوار چندر کانت پاٹل سے 3000 ووٹوں کی اکثریت سے انہوں نے کامیابی حاصل کی۔ ایک ایسے اسمبلی حلقے میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، کثیر تعداد میں مسلم امیدوار مقابلے کر رہے تھے اور بی جے پی بھی اسی حلقے سے مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی کے نعرے کے ساتھ میدان میں تھی، کنیز فاطمہ نے مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی کے خلاف نہایت پر اثر مہم چلائی تھی۔ انتخابات کے بعد مخالفین نے خود محسوس کیا کہ حجاب پر پابندی ایسا سلگتا ہوا مسئلہ تھا جو خوش قسمتی سے کانگریسی امیدوار کے ہاتھ لگ تھا جو اہم ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی تھا۔ آخر کار اس نشست سے کنیز فاطمہ دوبارہ ایم ایل اے منتخب ہو گئیں۔
نو منتخب ایم ایل اے و نامزد وزیر کنیز فاطمہ سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات
قمرالاسلام مرحوم جب اپنی چالیس سالہ طویل سیاسی زندگی کی مصروفیات میں مشغول تھے، تب کنیز فاطمہ زیادہ تر گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے اور اپنے اکلوتے بیٹے کی پرورش، تعلیم و تربیت میں مصروف رہیں۔ ایک زندہ ضمیر سیاست داں کی رفیق حیات ہونے کے ناطے، نفسیاتی اور قدرتی طور پر ان کی سیاسی سوجھ بوجھ، سماجی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اور انتظامی امور میں ذہانت، ان کی شخصیت پر بلاشبہ اثر کر گئی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کی انتخابی مہمات میں وہ اکثر شامل رہا کرتی تھیں، خاص طور پر اس وقت جب انہیں اپنے حلقہ انتخاب کی خواتین ووٹرس سے ملاقاتیں کرنی ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ انتخابات کے بعد عام دنوں میں بے شمار خواتین گھر پر انہیں اپنے شخصی مسائل کے علاوہ اپنے اطراف و اکناف کے عوامی مسائل لے کر آیا کرتی تھیں جو وہ ان کے ذریعے ان کے شوہر تک پہنچانا چاہتی تھیں۔ 64 سالہ نو منتخب ایم ایل اے کنیز فاطمہ نے کہا کہ اس مدت میں سیاست سے ان کا تعلق صرف اسی حد تک رہا۔ انہوں نے کہا کہ 2018 میں پہلی مرتبہ ایم ایل اے منتخب ہونے کے بعد انہوں نے زندگی کا ایک نیا رخ دیکھا جب لوگوں نے انہیں پہچانا اور ایک قائد کی حیثیت سے قبول بھی کیا۔ مقامی عوام اتنی عزت اور احترام سے پیش آتے کہ وہ خود اپنی ذاتی پریشانیاں اور خانگی مسائل بھول جاتیں۔
2022ء کے اوائل میں بی جے پی حکومت نے مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اسی دن سے کنیز فاطمہ اس پابندی کے خلاف احتجاج منظم کرنے میں سب سے پیش پیش رہیں۔ وہ اسمبلی کے ان چند گنے چنے ارکان میں سے ایک ہیں جنہوں نے ریاستی حکومت کے اس غیر اخلاقی حکم کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے شہر گلبرگہ میں مسلم مخالف قوانین CAA/NRC کے نفاذ کے خلاف مظاہرے منظم کیے تھے اور کئی دھرنوں کی قیادت کی تھی۔ اس کے علاوہ covid19 کے زمانے میں اپنے حلقہ اسمبلی میں عوام کے لیے منظم کیے گئے تمام طبی، سماجی دیگر امدادی کاموں میں شخصی طور پر برابر کی شریک رہیں، چنانچہ آج وہ بحیثیت ایم ایل اے، اپنے حلقے کی مصروف سیاست داں ہیں، ان کی خدمات کرناٹکا کے عوام کے لیے بلا لحاظ مذہب و ملت، ہندو مسلمان سکھ عیسائی یا بدھ سبھی شہریوں کے لیے دستیاب ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آج وہ یہ محسوس کر رہی ہیں کہ عام لوگوں پر اور خصوصاً مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جارہے ہیں، جن میں قابل ذکر مسلم خواتین، طالبات اور لڑکیوں پر حجاب پہننے پر پابندی ہے جو کہ مسلمانوں کے ساتھ سراسر ظلم ہے، ناانصافی ہے جس کے خلاف انہوں نے آواز بلند کی تھی، اب جبکہ ریاست کرناٹکا میں کانگریس اقتدار میں آچکی ہے، حکومت کی باضابطہ رسمی تشکیل کے بعد، انشاء اللہ مسلمان خواتین کے حجاب پر عائد پابندی کو یقیناً برخاست کر دیا جائے گا اور مسلمانوں کے لیے پہلے سے منظور شدہ 4 فیصد تحفظات کو حسب معمول جاری رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس سال اپریل میں اسمبلی انتخابات سے پہلے کرناٹکا کی سابقہ بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے لیے منظور شدہ کوٹہ اور عملی طور پر جاری حکمنامے کو ختم کردینے کا اعلان کیا تھا جو 2B کے تحت دیا جاتا رہا ہے، یہ تحفظات ریاست کے مسلمانوں کے حق میں بہت فائدہ مند ہیں۔ یہ خاندان کے ان افراد کو دیے جاتے ہیں جن کے سرپرستوں کی سالانہ آمدنی آٹھ لاکھ روپے سے کم ہو، یعنی معاشی طور پر پسماندہ ہوں۔ یہ تحفظات انہیں تعلیم کے علاوہ روزگار کے میدان میں دیے جاتے ہیں‘‘ اخبار The Quint نے بھی ریاست کرناٹکا میں مسلمانوں کو دیے جانے والے چار فیصد تحفظات کی برخاستگی پر جو بی جے پی کے انتخابی وعدے کے ضمن میں کیا گیا تھا، نہایت بے باکی سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’دراصل ریاست کے مسلم سماج کے افراد اور ان کے نوجوانوں کے اندر، ان کے مستقبل کے بارے میں تشویش اور خوف کا ماحول پیدا کرنے کی دانستہ کوشش ہے‘‘ کنیز فاطمہ نے یقین دلایا کہ ریاست کرناٹکا کی کابینہ کے اجلاس میں حجاب پر پابندی ہٹانے اور 2B تحفظات کو واپس لانے کی قرارداد منظور کرلی جائے گی اور حالات حسب معمول بحال ہو جائیں گے۔
حجابی خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے والے شر پسندوں کی شناخت:
انہوں نے اپنے شخصی تجربے کی بنیاد پر کہا کہ حجاب پر پابندی کے خلاف میدان میں وہ سرگرم عمل رہی ہیں لیکن ذاتی طور پر انہیں باحجاب خاتون ہونے کی وجہ سے کسی قسم کے مسائل یا غنڈہ گردی کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا، نہ کبھی پریشانی اٹھانی پڑی کیوں کہ بحیثیت ایم ایل اے جب بھی وہ کام کے لیے دفتر یا سفر پر جاتی ہیں ان کے ساتھ ہر وقت سیکوریٹی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یقینا یہ سہولتیں، مراعات اور اعزازات، کسی عام خاتون یا طالبہ کو حاصل نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران با حجاب طالبات کے ساتھ ان کے ہم جماعتوں، ساتھیوں کے علاوہ دائیں بازو کے دہشت گرد گروپس سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی طرف سے، زیادتی اور بدتمیزی کے جو واقعات ہوئے ہوتے رہے اور جن کا انہوں نے بھی ویڈیوز کے ذریعہ مشاہدہ بھی کیا ہے انہیں دیکھ کر طبیعت پریشان ہوجاتی تھی۔ آج بھی ہم ان مظلوم طالبات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کی نشان دہی کرسکتے ہیں۔ مجھے شدت سے اس بات کا احساس ہوتا کہ کاش ریاست میں ایک مرتبہ پھر کانگریس بر سراقتدار آجائے تاکہ ان غیر اخلاقی، غیر سماجی اور غیر قانونی سرگرمیوں کو سختی سے کچلا جا سکے۔ میں جانتی ہوں کہ ریاست کرناٹکا کے عوام کی زندگیوں میں، اس طوفان بدتمیزی کے علاوہ اور بہت کچھ داو پر لگا ہوا تھا۔
کرناٹکا اسمبلی میں 2018 میں اور اب 2023 میں، کنیز فاطمہ واحد مسلم خاتون ایم ایل اے ہیں۔ ان سے پہلے 1985 میں ایک مسلم خاتون ایم ایل اے ہوا کرتی تھیں تھیں جن کا نام مختارالنسا بیگم تھا۔ کرناٹکا اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی کی تاریخ سب سے خراب رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2023 کے کرناٹکا اسمبلی کے انتخابات میں دو ہزار سے زیادہ امیدواروں نے حصہ لیا تھا جن میں 185 خواتین تھیں جبکہ صرف گیارہ خواتین ہی منتخب ہو سکیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ خواتین ووٹرس انتخابات میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ ذمہ داری کے ساتھ اہم کردار ادا کرتی ہیں کرناٹکا اسمبلی میں خواتین ایم ایل ایز کی تعداد کبھی بھی 10 فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس سال کرناٹکا کے 52 اسمبلی حلقوں میں مردوں سے زیادہ خواتین نے اپنے ووٹ استعمال کیا۔ آبادی کا 13 فیصد ہونے کے باوجو مسلمانوں کی روایتی طور پر اسمبلی میں نمائندگی کم رہی۔ بشمول کنیز فاطمہ موجودہ اسمبلی میں کل نو مسلمانوں نے اپنی جگہ بنائی ہے جو اسمبلی کا صرف چار فیصد ہے۔ 2013 میں کرناٹکا اسمبلی میں مسلمان ایم ایل ایز کی تعداد سب سے زیادہ یعنی گیارہ تھی۔ کنیز فاطمہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو مناسب نمائندگی دینے کے لیے پارٹی ٹکٹ آسانی سے نہیں دیتیں بالخصوص خواتین کو ٹکٹ دینا تو وہ پسند ہی نہیں کرتیں۔ اسی وجہ سے اسمبلی میں خواتین اور خصوصاً مسلم خواتین کی نمائندگی برائے نام رہ گئی ہے۔ اس کے لیے دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں۔ مسلم معاشرے میں سیاست کا میدان خواتین کے لیے شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا سماج خواتین کو سیاست سے جوڑنے کی جستجو کرے۔ ان کا اس میدان میں خیر مقدم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ مسلم خواتین اپنے مخصوص نسوانی موقف اور نسوانی نقطہ نظر کے ساتھ آگے آئیں گی اور خواتین سے وابستہ مسائل و نکات کو ایوان میں بہتر اور پراثر انداز میں پیش کریں گی اور اپنے جائز حقوق کو منوانے میں کامیاب بھی ہوں گی۔ اگر وہ سیاست کے میدان میں مصروف ہوجائیں تو خواتین کے بے شمار مسائل حل کرواسکتی ہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خود خواتین کو بھی سیاست کے میدان کی طرف قدم بڑھانا چاہیے کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اسی میں ہم سب کی عافیت بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں گزشتہ انتخابات ہی میں کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلم برادری کی بھرپور تائید و حمایت حاصل تھی، مقامی مسلمانوں اور علمائے کرام نے بھی ان کی ہمت افزائی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ وقفے وقفے سے شمالی ہند کے مختلف مقامات سے خواتین کے سیاست میں داخلے کے خلاف، علماء و مفتیان کرام کے بیانات اور فتوے جاری ہوتے رہتے ہیں۔ 2022ء کے گجرات اسمبلی کے انتخابات سے پہلے احمد آباد کی ایک جامع مسجد کے امام مفتی شبیر احمد صدیقی نے ایک فتوی جاری کیا تھا کہ ’’اسلام میں خواتین کو سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کی ہرگز اجازت نہیں‘‘ کنیز فاطمہ نے کہا کہ جنوبی ہند کی ریاستوں بشمول ریاست کرناٹکا میں علماء و مفتیان کرام، دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم کی بھی اچھی خاصی معلومات رکھتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ سیاست میں خواتین کے داخلے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ آخر میں انہوں نے ملک، بشمول کرناٹکا میں بی جے پی کی سماج اور انسانیت کے ساتھ غیر صحت مندانہ حرکات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ پرستی اور ہندو مسلم نفرت کے ماحول میں بہت اضافہ ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ روایتی طور پر پر امن، دوستی و ایثار اور قربانی کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے جسے مٹھی بھر شرپسندوں نے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر خراب کر رکھا ہے۔ لہذا حالات کو سدھارنا، معاملات کو درست کرنا اور ماحول کو پرامن بنانا ہماری ذمہ داری ہے اور یہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے تاکہ ملک میں پرامن اور خوش گوار ماحول دوبارہ بحال ہو سکے۔
(ترجمہ: سلیم الہندیؔ)
***

 

***

 ایک ایسے اسمبلی حلقے میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، کثیر تعداد میں مسلم امیدوار مقابلے کر رہے تھے اور بی جے پی بھی اسی حلقے سے مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی کے نعرے کے ساتھ میدان میں تھی، کنیز فاطمہ نے مسلم خواتین کے حجاب پر پابندی کے خلاف نہایت پر اثر مہم چلائی تھی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023