مسلمانوں کا مقصدِ وجود

خالق کے منشاء سے انحراف کے سنگین نتائج

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

داعی امّت بن جانے میں ہی مسئلہ کاحل مضمر
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بناکر پیدا فرمایا ۔اس احسان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی عقل کو استعمال کرکے اللہ کو بغیر دیکھے ہی آفاق و انفس کی نشانیوں کا مشاہدہ کرکے اس کو پہچانیں اور اسی کی بندگی اختیارکریں اور اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کریں۔اس احسان پر اللہ تعالیٰ کا مزید ایک احسان یہ ہے کہ اس نے ہم کو مسلمانوں میں پیدا فرمایا ہے ۔اس احسان کا تقاضا یہ ہےکہ ہم اس ذمہ داری کو پوراکریں جواللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ پر عائد کی ہے۔اس ذمہ داری کو قرآن میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۔۔۔اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمّتِ وَسَط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔(سورۃ البقرۃ ۱۴۳)
یہ آیت اپنے اندر معجزاتی پہلو رکھتی ہے۔یہ آیت سورۃ البقرۃ کے عین وسط میں آئی ہے اور اس میں لفظ وسط آیا ہے۔اس آیت میں فرمایا جارہاہے کہ جس طرح رسول اللہ ﷺنے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاکر حق کی گواہی پیش کی اسی طرح اب امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ ساری انسانیت تک اللہ کے پیغام کو پہنچائیں ۔چونکہ نبوت ورسالت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اس لیے شہادت ِ حق کی ذمہ داری اب ساری امتِ مسلمہ پر ڈالی گئی ہے۔پچھلی امتوں میں سے بنی اسرائیل پر کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری کے ساتھ کتاب کی تعلیمات پر عمل کرنے اور اس کے مطابق نظام زندگی چلانے کی ذمہ داری تھی ۔جبکہ قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لے رکھی ہے (سورۃ الحجر۹)۔امتِ مسلمہ پر ایک ہی ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ قولاً و فعلاً قرآن کی تعلیمات کو انسانیت کے سامنے پیش کریں ۔اس کو شہادت علی الناس کہا گیا ۔ شہادت کے معنی گواہی کے ہیں ۔جس طرح عدالت میں سچی گواہی ایک بے گناہ کو سزا سے بچاسکتی ہے اسی طرح حق کی گواہی سے انسانیت کو اخروی سزا سے بچا یا جاسکتا ہے۔آخرت میں شہادت علی الناس کا کیا مطلب ہے؟ ۔رسول اللہ ﷺسے میدانِ حشر میں گواہی لی جائے گی کہ آپ نے اللہ کے پیغام کوانسانوں کے سامنے اپنی زندگی میں پہنچا دیا (سورۃ النساء۴۱)۔اسی طرح امتِ مسلمہ کو قیامت میں اس بات کا گواہ بنایا جائے گاکہ انہوں نے اللہ کے پیغام کو اپنے غیر مسلم ہم وطنوں تک پہنچایا ۔اگر نہیں پہنچایا تو دنیا میں بھی اللہ کی طرف سے پکڑ ہوگی اور آخرت میں بھی ۔اللہ کی نظر میں گواہی کو چھپانا ظلم ہے:۔۔وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللّهِ ۔۔اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو گا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے؟(سورۃ البقرہ۱۴۰)
حق کو چھپانا اور اس کو بیان نہ کرنا اللہ کی نظر میں قابل لعنت بھی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَـئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ۔جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں در آں حال یہ کہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں ، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہےاور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔( سورۃ البقرۃ ۱۵۹)
اس لعنت کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں ۔ایک شکل یہ ہےکہ کسی قوم کے دل میں ہمارے لیے نفرت پیداکردی جائےیا ہم پر دشمنوں کو مسلط کردیا جائے اور ان کے ہاتھوں ہماری جان مال ایمان اور عزت محفوظ نہ ہو۔بھارت میں اس وقت مسلمانوں کی جو حالت ہےکیا یہ لعنت نہیں ہے ؟ہم نے نہ صرف دعوت الی اللہ اور شہادت علی الناس کے فریضہ کو فراموش کیا ہے بلکہ ہماری بداعمالیوں نے اسلام کی تصویر کو بگاڑنے کا بھی کام کیا ہے اور لوگوں کو اسلام سے دور کردیا ہے۔دوسری اقوام اگر کفر اور شرک میں مبتلا ہیں تو ان کے لیے یہ جواز تو ہے کہ ان کے پاس اللہ کاکلام محفوظ اور خالص حالت میں موجود نہیں ہے۔مسلمان اللہ کا آخری کلام محفوظ حالت میں قرآن کی صورت میں اپنے پاس رکھ کر مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہیں ،عبادات میں بدعات اور اعمال میں خرافات و اسراف کے مرتکب ہیں تو اللہ تعالیٰ کا غصہ اور عتاب کا رخ مسلمانوں کی طرف کیوں نہ ہو۔اس آیت میں مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔سورۃ البقرۃ کی اگلی آیت نمبر ۱۶۰ میں اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ بتلایا گیا ہے: إِلاَّ الَّذِينَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَبَيَّنُواْ فَأُوْلَـئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ۔البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اسے بیان کرنے لگیں، ان کو میں معاف کر دوں گا اور میں بڑا در گزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔(سورۃ البقرۃ ۱۶۰)
یہ آیت بہت امید افزأ ہے ۔اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کو اپنے دامنِ رحمت میں لینے کے لیے تیار ہے ۔مطلوب یہ ہے کہ ان کے اندر دعوتی شعورپیداہوجائے اور یہ احساس پیداہوجائےکہ وہ محض اقوام میں سے ایک قوم نہیں ہیں بلکہ وہ ایک داعی امت ہیں ۔
سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۴۳ امتِ مسلمہ کے مقصدِ وجود کو بیان کرتی ہے جس میں اس ذمہ داری کو بیان کیا گیا ہے جو قیامت تک اس پر ڈالی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانیت تک اللہ کے پیغام کو پہنچائے ۔اس ذمہ داری کو پیش کرنے سے قبل امتِ مسلمہ کو امتِ وسط کےلقب اور اعزازسے سرفرازکیا گیا ہے۔یہ بہت عظیم الشان ذمہ داری ہے جس سے غفلت کے نتیجے میں امتِ مسلمہ کا وجود ہی خطرہ میں پڑجاتا ہے۔
اسی طرح سورۃ آل عمران آیت ۱۱۰ میں امتِ مسلمہ کو ایک اور لقب عطا کیا گیا ہے اور وہ ہے خیرامت یعنی بہترین امت ۔اس اعزازی لقب سے سرفرازفرمانے کے بعد جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے : كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ ۔۔اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(سورۃ آل عمران ۱۱۰)
امربالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم مسلم معاشرہ کے لیے بھی ہے اور غیر مسلم معاشروں کے لیے بھی ۔ مسلم معاشرہ کے لیے حکم ہے کہ ان میں ایک جماعت تو ایسی ہونی چاہیے جو اپنی زندگی کا یہ نصب العین بنالے کہ وہ دن رات امربالمعروف ونہی عن المنکر کا کام انجام دے: وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۔ تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔(سورۃ آل عمران ۱۰۴)
امر بالمعروف ونہی المنکرکا فریضہ مسلم معاشرہ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ جس طرح ایک انسانی جسم میں مدافعانہ نظام بنادیا گیا ہےجس سے جسم بیرونی جراثیم سے محفوظ رہتا ہے اسی طرح امربالمعروف ونہی عن المنکر کا عمل معاشرہ کو برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔اگر یہ عمل رک جائے تو معاشرہ میں برائیاں بڑھتی چلی جا تی ہیں اور برائیوں پر قابو پانا ناممکن ہوجاتا ہے ۔یہ وہ وقت ہوگا کہ دعائیں بھی قبول نہیں کی جائیں گی (ابو داؤود)
امربالمعروف و نہی عن المنکر کا دائرہ کار ساری انسانیت تک وسیع ہے ۔دنیا میں جتنی بھی برائیاں موجود ہیں ان کے براہ راست یا بالواسطہ ذمہ دارمسلمان ہیں ۔یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ساری انسانیت میں سے امت مسلمہ کو چن کر ان کو ہدایت کی روشنی کا حامل اور علم بردار بنا یا ہے ۔انسانیت کے لیے ہدایت کی روشنی سے فیض یاب ہونے کا کوئی اور ذریعہ موجودہی نہیں ہے۔دوسری اقوام ایک تاریکی سے دوسری تاریکی میں مسلسل بھٹکتی چلی جارہی ہیں ۔قرآن کے نور سے ہی تاریکیاں دورہوسکتی ہیں ۔
قرآن میں امت مسلمہ کے مقصدِ وجود کو مختلف عنوانات سے بیان کیا ہے:شہادت علی الناس، امربالمعروف و نہی عن المنکر ، دعوت الی اللہ ،انذار،تبشیر ،اصلاح ،تذکیراور تواصی بالحق ۔
مسلم امت کا اس کے مقصدِ وجود کو ادا نہ کرنا خود اس کے وجود کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔دنیا میں جو بھی چیز اپنی افادیت utilityکھودیتی ہے تو اس کی اصلاح و مرمتrepair کے امکانات کو تلاش کیا جاتا ہے۔لیکن یہ معلوم ہوجائے کہ وہ چیزناقابل مرمت و اصلاحirrepairableہوچکی ہے تو اس کو replaceکردیا جاتا ہے۔اللہ کی بھی یہی سنت ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیا ن کیا گیا ہے: وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ ۔ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔(سورۃ محمد۳۸)
ایک اور مقام پر فرمایا گیا کہ کفارایک دوسرے کے مددگارہیں جو برائیوں کے علم برداربن کر نیکیوں سے روکتے ہیں ۔ اگر اہل ایمان ان کے مقابلے میں نیکیوں کو پروان چڑھانے اور برائیوں کو روکنے میں ایک دوسرے کے مددگارنہ بنیں تو زمین میں فتنہ و فساد برپا ہوگا : وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ ۔ جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد بر پا ہو گا۔(سورۃ الانفال ۷۳)
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں امت مسلمہ کو انبیاء کا قائم مقام بناکر دنیا کی امامت و رہنمائی کے لیے امت بناکر کھڑا کیا ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی اکثریت نے اس فرض ِ منصبی کو بھلا کر اس کا شعورہی کھودیا ہے۔چنانچہ مسلمان ،امت کے مقام سے زوال پذیر ہوکر قوم کے مقام پر پہنچ چکے ہیں ۔قومی سوچ نے مسلمانوں کے اندر دفاعی سوچ کو پیداکیا ہے۔یعنی مسلم جن ممالک میں اکثریت کے درمیان اقلیت بن کر زندگی گزاررہے ہیں وہاں ان کو اپنے حقوق کی حفاظت سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ اپنی جان،مال ، عزت ،اپنے مساجد،مدارس اور اپنے ادارے ،اپنی زبان و ثقافت کی حفاظت ہی ان کے مقاصدکی انتہا ہے۔سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوایسی مسلم قوم سے کیا دلچسپی ہوگی جو دنیا میں ۲۰فیصد ہوکر ۸۰فیصد غیر مسلموں تک اللہ کے پیغام کو پہنچانے کویکسر نظر انداز کردے۔ان ۸۰ فیصدتک اللہ کا پیغا م کیسے پہنچے گا؟اس وقت دنیا میں دعوت الی اللہ کا کام کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں ۔اگر مسلمانوں میں ایک فی لاکھ کے تناسب سے دعوت کا کام کرنے والے ہوں اور ۹۰ فیصد مسلمان غیر اسلام کا نمونہ پیش کررہے ہوں تو کیا اللہ تعالیٰ اس صورتحال سے راضی ہوگا؟
آج بھارت کے مسلمان اس فکر میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح ہم فرقہ پرستوں کے شر سے بچیں ۔ہم امید بھری نظروں سے سیکولر ہندودانشورں اور سیاست دانوں کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں ظالموں سے نجات دلائیں ۔حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ہم نے اہون البلتین کے اصول پر سیکولر پارٹیوں کو ووٹ بھی دیا لیکن حالات بتارہے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے اگلے پانچ سال بھی اچھے نہیں ہوں گے۔ اس صورتحال میں اللہ تعالیٰ بھارت کے مسلمانوں سے فرماتا ہے : ۔۔ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي ۔۔توان سے تم نہ ڈرو،بلکہ مجھ سے ڈرو۔مزید اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ تم میراکام کرو میں تمہاری حفاظت کی ذمہ داری لے لوں گا۔ہم جانتے ہیں کہ ہم حکومت کی طاقت کو چیلنج کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے ۔سیاست ،فوج ،پولیس،بیورکریسی ،میڈیا ، عدلیہ میں سے کون سی طاقت مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ایک طرف ہماری یہ کسمپرسی ہے تو دوسری طرف اللہ ہم سے وعدہ کرتا ہے کہ تم میرے دین کے داعی بن جاؤ ،میں تمہاری جان مال عزت وآبرو کی حفاظت کروں گا۔تمہارے قدم جمادوں گا اور تمہیں باعزت شہری بناؤں گا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ۔اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔(سورۃ محمد۷)
بڑی امید تھی کہ سیاسی افق پر بھارت میں نئی تبدیلی مسلمانوں کے لیے راحت کا پیغام لے کرآئے گی ۔لیکن فرقہ پرستوں کی تیسری بار حکومت بننے کے بعد ہمارے سامنے ناامیدی چھاجاتی ہے کہ اگلے پانچ سال مسلمانوں کے لیےبدستور ظلم سے عبارت ہوں گے۔ظلم و ستم ، ماب لنچنگ گھروں اور مساجدکا بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کیا جانا تاحال جاری ہے۔ یہ حالات صاف بتلارہے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنے فرض منصبی اور مقصدِ وجود سے غافل ہونے کی سزا مل رہی ہے۔
مقصدِ وجود کو فراموش کرنے کے بعد ہمارا اتحاد بھی پارہ پارہ ہوچکا ہے۔جب اہم ترین چیز غیر اہم بن جاتی ہے تو غیر اہم امور اہم بن جاتے ہیں جس سےعدم اتحاد اور انتشار پیداہوتا ہے۔ہماری مذہبی وسیاسی قیادت اس انتشار کی تصویر پیش کررہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس وقت ہم کیا کریں؟ مسلمانوں کو بس ایک ایجنڈے پر کام کرنا چاہیے جس سے ہم اللہ کی مدد کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ ہم اللہ سے ڈریں اور اسی سے امید لگائیں ۔اس کو راضی کرنے کے لیے مقصدِ وجود کی طرف پلٹ آئیں ۔ایک ہی فکر اختیارکریں اور وہ فکر یہ ہے کہ ہم داعی امت بن جائیں ۔اس فکر کے تحت ہم کو تین کام کرنے چاہئیں:
۱۔ بندگان خدا کے سامنے اللہ کا تعارف پیش کریں جو سب کا خالق اور رب ہے۔اللہ کے بندوں کے اندر اللہ کی بندگی کا شعورپیداکرنے کی کوشش کریں ۔ان کو زندگی کا اصل مقصد بتلائیں ۔
۲۔ بگڑے ہوئے مسلمانوں کے اندر صحیح اسلامی شعورپیداکریں تاکہ وہ اپنی بدعملی سے بندگانِ خدا کو اسلام سے دورکرنے اور اسلام کی بدنامی کا ذریعہ نہ بنیں ۔
۳۔ جو باعمل مسلمان ہیں ان کے اندر دعوتی شعورپیداکریں تاکہ داعیان ِحق کی تعداد اتنی ہوجائےکہ غیر مسلموں کے اندر دعوت کے ذریعے اتمام حجت ہوسکے۔

 

***

 مسلمانوں کو بس ایک ایجنڈے پر کام کرنا چاہیے جس سے ہم اللہ کی مدد کو یقینی بنا سکتے ہیں، وہ یہ کہ ہم اللہ سے ڈریں اور اسی سے امید لگائیں، اس کو راضی کرنے کے لیے مقصدِ وجود کی طرف پلٹ آئیں ۔ایک ہی فکر اختیارکریں اور داعی امت بن جائیں ۔اس فکر کے تحت ہم کو تین کام کرنے چاہیے:
۱۔ بندگان خدا کے سامنے اللہ کا تعارف پیش کریں جو سب کا خالق اور رب ہے۔اللہ کے بندوں کے اندر اللہ کی بندگی کا شعورپیداکرنے کی کوشش کریں ۔ان کو زندگی کا اصل مقصد بتلائیں ۔
۲۔ بگڑے ہوئے مسلمانوں کے اندر صحیح اسلامی شعورپیداکریں تاکہ وہ اپنی بدعملی سے بندگانِ خدا کو اسلام سے دورکرنے اور اسلام کی بدنامی کا ذریعہ نہ بنیں ۔
۳۔ جو باعمل مسلمان ہیں ان کے اندر دعوتی شعورپیداکریں تاکہ داعیان ِحق کی تعداد اتنی ہوجائےکہ غیر مسلموں کے اندر دعوت کے ذریعے اتمام حجت ہوسکے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024