مولانا فاروق خاں:  اس کی اُمیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل

مفسر قرآن ، مصنف ومحقق اور تحریک اسلامی کے بزرگ رہنما سے ایک یادگار ملاقات

رضوان احمد اصلاحی
مرکز اسلامی ٹکاری روڈ پتھر کی مسجد پٹنہ

کتاب’’نجات کا تصور‘‘ تکمیل کے مرحلے میں۔ قرآن میں حضرت عیسیٰ کے ذکر کے حوالے سے کتاب ’ایماءقرآن‘ کی تصنیف کا ارادہ
پرانی کہاوت ہے ’’دلی ہنوز دور است‘‘ میرے لیے یہ کہاوت ابھی بھی پرانی نہیں ہوئی ہے، ہاں کبھی کبھار دہلی جانا ہوتا ہے۔ چنانچہ اپریل 2023 کے آخری ہفتے دہلی میں کچھ دن گزارنے کا موقع ملا ۔30 اپریل کو اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر مفسر قرآن اور معروف مصنف ومحقق مولانا محمد فاروق خان سے ملنے مرکز جماعت اسلامی ہند کے وسیع وعریض کیمپس میں واقع ان کے چھوٹے سے حجرے میں حاضر ہوا۔ عصر سے مغرب تقریباً ایک گھنٹہ کی ملاقات رہی۔ سلام اور دیگر رسمی خیر خیریت کے بعد میں نے ان سے تحقیق وتصنیف، قرآن فہمی اور فکر مودودیؒ و فکر فراہی، تحریک وتنظیم سے متعلق دسیوں سوالات کیے۔ مولانا نے سارے سوالوں کے جوابات بہت ہی خوش گوار ماحول میں دیے۔ گفتگو کا بیشتر حصہ میرے ہمراہ موجود دو رفقاء جناب نثار احمد اور جناب زاہد حسین نے ریکارڈ کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ حصہ ریکارڈ ہونے سے رہ گیا۔ گو یہ ایک مکمل انٹرویو ہے، جس کا خلاصہ ہدیہ ناظرین وقارئین ہے۔
مولانا نے گفتگو کے آغاز میں بتایا کہ اس وقت ان کی عمر تقریباً 90 سال ہوچکی ہے۔ فی الحال وہ ’’نجات کا تصور‘‘ نامی کتاب لکھ رہے ہیں۔ کتاب پائے تکمیل کے مرحلے میں ہے۔ مولانا نے اس کا مختصر خلاصہ بھی پیش کیا۔ مختلف مذاہب میں نجات کے تصورات کا تعارف کراتے ہوئے اسلام کا تصور نجات بھی ہمیں سمجھانے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں ہم نے ماضی کی ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے کے ضمن میں ایک گفتگو کے موقع پر ’’ایماء قرآن‘‘ نامی کتاب لکھنے کی بات کہی تھی ،جس میں قرآن مجید میں جو باتیں اشارے کی زبان میں کہی گئی ہیں غالباً ان کے اسرار ورموز کی کچھ وضاحت کرنا چاہتے ہیں، کیا اس پر کچھ کام شروع ہوا؟ تو مولانا نے کہا میں تو بھول ہی گیا تھا آپ نے اچھا کیا کہ یاد دلا دیا، میں اسے نوٹ کر لیتا ہوں کہ اس موضوع پر بھی مجھے لکھنا ہے۔
ہم نے سوال کیا کہ آپ کے اندر قرآن فہمی کا ذوق کیسے پیدا ہوا، نیز ہندی میں قرآن کا ترجمہ کرنے کا خیال کیسے ذہن میں آیا؟مولانا نے تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی، گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اعظم گڑھ میں ایک گاؤں کوہنڈہ ہے جہاں مدرسہ دینیات تھا جہاں لوگوں نے مجھے پڑھانے کے لیے رکھا تھا وہیں جماعت اسلامی سے متعارف ہوا۔ مولانا غالب احسن اصلاحیؒ اور دیگر لوگوں سے وہیں ملاقات ہوئی، انہیں لوگوں نے مجھے جماعت اسلامی ہند کا لٹریچر دیا، سب سے پہلے ہم نے مولانا مودودی ؒکی کتاب ’’دینیات ‘‘پڑھی، اس کے بعد خطبات پڑھی۔ 1956 سے پہلے جماعت اسلامی سے میری وابستگی ہوئی۔ مولانا اختر احسن اصلاحی سے ملاقات رہی۔ میرے مضامین بھی ’’زندگی‘‘ رام پور میں شائع ہونے لگے تھے، مضامین معیاری ہوتے تھے۔ اسی دوران کوثر یزادانی صاحب کا میرے پاس ایک خط آیا کہ امیر جماعت مولانا ابواللیث صاحب قرآن کا ہندی میں ترجمہ کروانا چاہتے ہیں۔ آپ مرکز رام پور آئیے۔ میں نے آمادگی ظاہر کر دی، کوہنڈہ کے لوگوں نے روکا لیکن میرا شوق بڑھتا گیا، میں رام پور چلا گیا وہاں ذمہ داروں نے مجھے قرآن کا ہندی میں ترجمہ کرنے کے لیے کہا کہ دو تین پارے ترجمہ کرکے دکھاوں۔ مشکلات کو حل کرنے کے لیے مولانا امانت اللہ اصلاحی ؒاور مولانا صدر الدین اصلاحی ؒ موجود تھے، جہاں دقت پیش آتی تھی میں ان دونوں سے رجوع کرتا۔ میں نے ڈھائی تین پارے ترجمہ کیا، مجھے کہا گیا اس ترجمہ کو ہندی کے معروف ادیب اور پیشے سے وکیل دیواکر جی کو دکھاوں۔ میں لے کر گیا اور ان کو سورہ بقرہ کے بجائے سورہ آل عمران کا ترجمہ سنایا، انہوں نے کہیں بھی نہیں ٹوکا، اصلاح نہیں کی، کہا کہ اتنا اچھا ترجمہ تو میں بھی نہیں کرسکتا‘‘۔ تب مجھے بھی اطمینان ہوا۔ اب طے ہوا کہ ترجمہ شائع کیا جائے، البتہ میرے نام سے شائع نہیں ہوگا کیوں کہ میرے پاس سرٹیفیکٹ نہیں تھا اور میں عالم فاضل بھی نہیں تھا، لہٰذا مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے نام سے شائع کیا جائے گا۔ یہ سن کر مجھے تکلیف تو ہوئی لیکن میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ یہ بات جب مولانا امانت اللہ صاحب تک پہنچی تو انہوں نے کہا ’’نہیں! محنت ان کی اور کام بھی ان کا تو میرا نام کیسے آئے گا؟ لہٰذا انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ کہا گمنامی سے نکلیں گے کیسے؟
ایک سوال کے ضمن میں مولانا نے بتایا کہ ایک عرصہ تک میرا ایک درس قرآن جامع مسجد دہلی اور ایک مرکز چتلی قبر میں ہوتا رہا۔ ان دونوں مقامات پر چار پانچ دور درس کے مکمل ہوئے۔ اسی طرح کا ایک سوال میں نے اور پوچھا کہ اب تک آپ نے کتنی کتابیں لکھی ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ اب تک چھوٹی بڑی سو سے زائد کتابیں لکھ چکا ہوں۔
میں نے پوچھا آپ کی دلچسپی کا میدان کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ قرآن میں تدبر کرنا اور قرآن کو سمجھنا۔ اسی ضمن میں انہوں نے بتایا کہ ’’قرآن کا معجزہ ہے کہ یہ کتاب عوام کے لیے بھی ہے، خواص کے لیے بھی اور خواص الخواص کے لیے بھی۔ آدمی جتنا گہرا ہوگا کتاب اتنی گہری ہوتی جائے گی اور آدمی جتنا بلند ہوگا کتاب اتنی بلند ہوتی جائے گی اور آدمی جتنا سادہ ہوگا کتاب اتنی ان کے لیے سادہ ہوتی جائے گی۔
مولانا نے ایک سوال کے بارے میں بتایا کہ میرے پاس MA کی ڈگری ہے البتہ میرے پاس عالمیت یا فضیلت کی ڈگری نہیں تھی لیکن اب میرے پاس عالمیت اور فضیلت کی اعزازی ڈگری ہے۔ میں نے مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ کوہنڈہ، ضلع اعظم گڑھ میں علماء کا ساتھ رہا ہے۔ اس میں اصلاحی علماء بھی تھے اور دیوبندی و قاسمی علماء بھی تھے۔ بطور خاص انہوں نے مولانا اختر احسن اصلاحی کے صاحبزادے مولانا غالب احسن اصلاحی اور مطیع الرحمن اقبال احمد قاسمی صاحب کا تذکرہ کیا۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے مولانا فراہیؒ کو دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا نہیں، البتہ ان کے شاگرد اختر احسن صاحب کو دیکھا ہے۔ انہوں نے مولانا امین احسن اصلاحی صاحب سے بھی زیادہ مولانا فراہیؒ سے استفادہ کیا تھا لیکن وہ ’’لکھاڑ‘‘ نہیں تھے۔مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ’’لکھاڑ‘‘ تھے۔
میں نے سوال کیا کہ آپ کی ملاقات مولانا مودودیؒ سے رہی ہے؟ انہوں نے پھر جواب دیا کہ نہیں، البتہ خط وکتابت تھی، ان کے انتقال پر نماز جنازہ میں شرکت کے لیے میں لاہور گیا تھا وہیں مولانا امین احسن اصلاحی ؒسے ملاقات ہوئی، کان میں آلہ لگائے ہوئے تھے، میں نے پوچھا کیا آپ سنتے نہیں ہیں؟ تو مولانا امین صاحب نے برجستہ جواب دیا ’’ہم پہلے بھی کہاں کسی کی سنتے تھے؟‘‘
مولانا امین صاحب کے تعلق سے انہوں نے مزید کہا کہ مولانا مودودی ؒ ان کو یہاں سے لے کر گئے تھے۔ جب مولانا امین صاحب ’’دارالاسلام‘‘ پہنچے تو وہاں انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کیا ہوتا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک کام درس قرآن کا ہوتا ہے جو مولانا مودودیؒ دیتے ہیں۔ تو امین صاحب نے مخصوص لہجہ میں کہا ’ہوں، وہ کیا درس قرآن دیں گے؟‘‘ یہ شکایت مولانا مودودی تک پہنچی کہ جو نئے مولانا آئے ہیں انہوں نے آپ سے متعلق یوں کہا ہے۔ مولانا فاروق خان صاحب نے بتایا کہ یہ سننے کے بعد بھی مولانا مودودی ؒ ناراض نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے کہا کہ ان کو ایسا کہنے کا حق ہے کیوں کہ وہ جن کے شاگرد ہیں وہ قرآن کے گہرے عالم ہیں۔
لگے ہاتھ میں نے اسی سے متعلق یہ سوال بھی کر ڈالا کہ ’فکر فراہی‘ کیا ہے؟ بولے ’فکر فراہی‘ ایک معمہ ہے جو بہت کم لوگوں کو سمجھ میں آتا ہے۔ فکر فراہی کا مطلب ہے ’’قرآن ایک منظم کتاب ہے، یہ کتاب حکومت کی طالب ہے،یہ کتاب حکمرانی چاہتی ہے، یہاں نظم قرآن پر زور دیا جاتا ہے‘‘ اس کے معاً بعد میں نے سوال کیا ’’فکر مودودی اور فکر فراہی میں کیا کچھ مماثلت ہے؟ مولانا نے بس ایک جملہ میں جواب دیا’’ ہاں ہاں! مماثلت ہے‘‘۔
آخر میں، میں نے مولانا سے سوال کیا کہ اب جب کہ جماعت کی نئی میقات شروع ہو چکی ہے اور نئے امیر جماعت کا انتخاب عمل میں آچکا ہے، کیا آپ اس موقع پر کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟ مولانا نے جواب میں نصیحتا چند جملے کہے۔ بھارت میں بہت ساری جماعتیں ہیں البتہ جماعت اسلامی کا امتیاز دعوت الی اللہ ہے، آپ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں غیر مسلموں کے لیے بھی سوچیں، کہیں جائیں تو صرف رفقاء سے ہی مل کر واپس نہ جائیں بلکہ وہاں کے غیر مسلموں سے بھی ملاقاتیں کریں، کوئی بات مانے یا نہ مانے ہمارا پیغام سب کے لیے ہے، دودوھ سب کے لیے مفید ہے چاہے کوئی پیے یا نہ پیے‘‘۔
ملاقات کے اختتام پر میں نے اجازت لی، سلام وداع کہا تو مولانا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ’’ آپ کا شکریہ کہ آپ کے آنے سے بڑا فائدہ ہوا، میں بھول چکا تھا کہ مجھے ’’ایماء قرآن‘‘ لکھنا ہے۔ اسے میں نے نوٹ کر لیا ہے۔ اب مجھے ایک اور زرین موقع ہاتھ آگیا ۔ میں کسی تکلف اور توقف کے بغیر مولانا سے ایک بار پھر مخاطب ہوا اور کہا ’’لیکن مجھے کیا فائدہ ہوا؟ مجھے تو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ بولے آپ کیا فائدہ چاہتے ہیں؟
میں نے کہا آپ میرے لیے دعا کیجیے، بس یہی چاہتا ہوں۔ مولانا نے میرے لیے بروقت نہایت عمدہ اور جامع دعا کی، اس دعا کے بعد میں جذبات سے مغلوب ہوکر مولانا سے لپٹ گیا، مولانا نے بھی گلے لگایا اور اسی کے ساتھ میں نم آنکھوں سے مولانا کو اللہ حافظ کہتے ہوئے ان کے کمرے سے نکل گیا۔مولانا سے مل کر طمانیت قلب محسوس ہوئی، پانچ دن کی ساری تکان دور ہوگئی، خوشی خوشی گھر کو لوٹا۔اللہ تعالیٰ مولانا کا سایہ ہم سب پر تادیر قائم رکھے، ان کی خدمات کا اجر انہیں عطا فرمائے آمین۔
(مضمون نگار سے رابطہ : 8651882777)
***

 

***

 ’’بھارت میں بہت ساری جماعتیں ہیں البتہ جماعت اسلامی کا امتیاز دعوت الی اللہ ہے، آپ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں غیر مسلموں کے لیے بھی سوچیں، کہیں جائیں تو صرف رفقاء سے ہی مل کر واپس نہ جائیں بلکہ وہاں کے غیر مسلموں سے بھی ملاقاتیں کریں، کوئی بات مانے یا نہ مانے ہمارا پیغام سب کے لیے ہے، دودوھ سب کے لیے مفید ہے چاہے کوئی پیے یا نہ پیے‘‘۔(مولانا فاروق خاں )


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023