سپریم کورٹ نے محمد زبیر کو اتر پردیش میں درج تمام چھ مقدمات میں ضمانت دی

نئی دہلی، جولائی 20: سپریم کورٹ نے صحافی محمد زبیر کو اتر پردیش میں ان کے خلاف درج تمام چھ مقدمات میں عبوری ضمانت دے دی۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور اے ایس بوپنا پر مشتمل ایک بنچ نے مشاہدہ کیا کہ گرفتاری کے اختیار کو احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے اور بنچ نے پولیس کو ہدایت دی کہ آلٹ نیوز کے شریک بانی کو شام 6 بجے تک رہا کر دیا جائے، جو کہ ضمانتی مچلکوں کی ادائیگی سے مشروط ہے۔

ججوں نے کہا کہ زبیر کو مزید حراست میں رکھنے اور اسے مختلف عدالتوں میں نہ ختم ہونے والی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق عدالت نے کہا ’’بنیادی طور پر الزامات کی سنگینی اس کے ٹویٹس پر مبنی ہے۔ اس کو [زبیر کو] دہلی پولیس کی طرف سے کافی مسلسل تحقیقات کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ہمیں اس کی آزادی سے محرومی کی مزید کوئی وجہ نہیں ملتی ہے۔‘‘

زبیر کے خلاف سیتا پور، لکھیم پور کھیری، مظفر نگر اور غازی آباد کے اضلاع میں ایک ایک اور ہاتھرس میں دو کیس درج کیے گئے ہیں۔ ان کا تعلق ٹیلی ویژن نیوز اینکرز کے بارے میں طنزیہ تبصروں، مبینہ طور پر ہندو برادری کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور دیوتاؤں کے بارے میں مبینہ اشتعال انگیز مواد پوسٹ کرنے سے ہے۔

زبیر پر 2018 میں کی گئی ایک ٹویٹ کے سلسلے میں نئی ​​دہلی میں ایک اور مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں صحافی کو 15 جولائی کو ضمانت دے دی گئی تھی۔

بدھ کی سماعت میں عدالت نے اتر پردیش میں زبیر کے خلاف درج ایف آئی آرز کو دہلی پولیس کی خصوصی سیل کو منتقل کر دیا۔ ججوں نے زبیر کے خلاف ایف آئی آر کی تحقیقات کے لیے اتر پردیش حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم کو کالعدم قرار دیا۔

بنچ نے مزید یہ بھی کہا کہ اگر انھیں الزامات پر مبنی کوئی اور ایف آئی آر زبیر کے خلاف درج کی جاتی ہے تو زبیر کو ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا۔

ججوں نے اتر پردیش پولیس کی اس درخواست کو بھی مسترد کر دیا کہ زبیر کو ضمانت کی شرائط کے تحت ٹویٹ کرنے سے روکا جائے۔ جسٹس چندر چوڑ نے پوچھا ’’ہم صحافی کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ نہ لکھے؟ ہم پیشگی طور پر اسے اپنی آزادی اظہار رائے کے حق کو استعمال کرنے سے روک نہیں سکتے۔ وہ قانون کے مطابق جواب دہ ہوگا۔ تمام ثبوت عوامی ڈومین میں ہیں۔‘‘

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب زبیر کے وکیل ورندا گروور نے یہ عرض کیا کہ اتر پردیش پولیس اسے حراست میں رکھنے کے لیے فیکٹ چیک کرنے والے کے خلاف درج پرانی ایف آئی آرز کا استعمال کررہی ہے۔

لائیو لاء کے مطابق گروور نے عدالت کو بتایا کہ ’’غیر فعال ایف آئی آر اچانک فعال ہو جاتی ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جو نظر آرہا ہے کے اس کے علاوہ بھی کچھ ضرور ہے۔ زبیر کو گھیرا جارہا ہے۔‘‘

انھون نے مزید کہا ’’ڈیجیٹل دور میں کسی ایسے شخص کا کام جو غلط معلومات کو ختم کر رہا ہے، دوسروں کے غصے کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن قانون کو اس کے خلاف ہتھیار نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘

دریں اثنا اتر پردیش کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل گریما پرشاد نے عرض کیا کہ زبیر حقائق کی جانچ کی آڑ میں بدنیتی پر مبنی اور اشتعال انگیز مواد کو فروغ دے رہا ہے۔

پرشاد نے ججوں سے کہا ’’بار بار کہا جاتا ہے کہ ملزم صحافی ہے…لیکن وہ صحافی نہیں ہے۔ اسے ٹویٹس کا معاوضہ ملتا ہے۔ زیادہ بدنیتی پر مبنی ٹویٹس سے اسے زیادہ ادائیگی ملتی ہے. اس نے اعتراف کیا ہے۔ اس کے پاس 2 کروڑ روپے سے زیادہ ہیں۔ وہ صحافی نہیں ہے۔‘‘

پرشاد نے یہ بھی الزام لگایا کہ ’’زبیر ان تقریروں اور ویڈیوز کا فائدہ اٹھا رہا ہے جس میں فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ بار بار ان کا اشتراک کر رہا ہے۔‘‘

اس سے قبل پیر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے زبیر کے خلاف کارروائیوں کو ’’شیطانی چکر‘‘ قرار دیا تھا۔ عدالت نے پولیس کو ان مقدمات میں حراست میں لینے سے بھی روک دیا تھا جن میں اسے گرفتار نہیں کیا گیا یا اس کا ریمانڈ طلب نہیں کیا گیا۔