کشمیری پنڈت کی ہلاکت میں ایک عسکریت پسند کے ملوث ہونے کا امکان: ڈی آئی جی
نئی دہلی، اکتوبر 15: وسطی کشمیر کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (ڈی آئی جی) سوجیت کمار کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری پنڈت کی ہلاکت میں ایک عسکریت کے ملوث ہونے کا امکان ہے۔
بتادیں کہ جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں کے چودھری گنڈ علاقے میں ہفتے کے روز مشتبہ عسکریت پسندوں نے ایک کشمیری پنڈت کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
ڈی آئی جی نے نامہ نگاروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فی الوقت تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ حملہ ایک عسکریت پسند نے کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ساری باتیں سامنے آنے کے بعد ہی تفصیلات کو میڈیا کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مہلوک کی رہائش گاہ کی حفاظت پر مامور محافظوں یا علاقے کے کسی افسر کی طرف سے سیکورٹی چوک ہوئی ہوگی تو اس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
دریں اثنا، ضلع مجسٹریٹ شوپیاں سچن کمار نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ حکومت متاثرہ پنڈت گھرانے کو تمام تر مدد فراہم کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ متوفی کی لاش کو آخری رسومات کی اداءیگی کے لئے جموں بھیج دیا جائے گا اور اس کے لئے انتظامیہ تمام تر انتظامات کرے گی۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے شوپیاں میں کشمیری پنڈت کی مشتبہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاکت کی مذمت کی ہے۔
عمر عبداللہ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ایک اور قابل مذمت حملہ، میں کھلے لفظوں میں اس حملے کی مذمت کرتا ہوں جس میں پورن کرشن بٹ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘۔ ’میں پسماندگان کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور پورن جی کے روح کے سکون کے لئے دعا گو ہوں‘۔
جموں وکشمیر پیپلز کانفرنس نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ’شوپیاں کے چودھری گنڈ میں پورن کرشن بٹ پر حملے جس میں ان کی جان چلی گئی، کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں‘۔
ٹویٹ میں کہا گیا: ’ایسے حملوں کا کسی بھی صورت میں کوئی جواز نہیں ہے‘۔
سی پی آئی (ایم) کے سینئر لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ’پورن کرشن بٹ پر ہوئے حملے جس کی وجہ سے ان کی ہلاکت ہوءی، سے پہنچنے والے تکلیف کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں‘۔
انہوں نے ٹویٹ میں کہا: ’عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کوئی ٹھہراؤ نظر نہیں آ رہا ہے حکومت کو اقلیتی فرقے کے لوگوں کی فول پروف سیکورٹی کو یقینی بنانا چاہئے‘۔