مقدس مذہبی شخصیتوں کی توہین کے تدارک کےلیے قانون سازی کی جائے

کانپور میں کُل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کا ۲۷واں اجلاس۔ اہم تجاویز پیش

مسلمانوں سے شریعت کو اپنے اوپر لاگو کرنے،نکاح میں سادگی اختیار کرنے اور بین مذہبی شادیوں سے گریز کا مطالبہ
کانپور میں منعقدہ کُل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ کے ۲۷ویں اجلاس میں درج ذیل تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
۱۔ تاریخ میں جو بھی مذہبی پیشوا گزرے ہیں بہت سے لوگ ان پر ایمان رکھتے ہیں اور ان سے لوگوں کے قلبی جذبات وابستہ ہیں، ان کی شان میں گستاخی صرف ایک مقدس شخصیت ہی کی اہانت نہیں ہے بلکہ کروڑوں انسانوں کی دل آزاری ہے۔ ہندوستان ایک کثیر مذہبی ملک ہے جس میں مختلف عقائد کے حاملین رہتے ہیں اور ان کا مرکزِ عقیدت الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمیشہ وطن عزیز کے باشندگان نے ایک دوسرے کے جذبات کا لحاظ رکھا ہے، مقدس شخصیتوں اور کتابوں کے بارے میں گستاخانہ رویہ اختیار کرنے سے اجتناب کیا ہے اور اسی رواداری نے کثرت میں وحدت کے تصور کو تقویت پہنچائی ہے، چنانچہ معتبر ہندو، سکھ اور دیگر غیر مسلم بزرگوں نے ہمیشہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی ہمیشہ اسلامی تعلیمات کے مطابق دیگر مذاہب کی مقدس شخصیتوں کے سلسلہ میں دل آزار کلمات کہنے اور لکھنے سے گریز کیا ہے۔ لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ حالیہ عرصہ میں بعض شرپسندوں نے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان میں کھلے عام گستاخی کا ارتکاب کیا ہے اور حکومت نے اس کو روکنے کی کوئی موثر کوشش نہیں کی۔ فرقہ پرست عناصر کی طرف سے یہ دل آزار رویہ قطعاً ناقابل قبول ہے، یہ ملک کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش اور حب الوطنی کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ حضرت محمد ﷺ پوری دنیا کے مسلمانوں کے رہبر ورہنما اور رحمت للعالمین ہیں۔ مسلمان انہیں ہر چیز حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ ان کی شان میں گستاخی سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ ہوں گے اور دنیا میں ملک کی تصویر بھی داغدار ہو گی۔ اس لیے یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مقدس مذہبی شخصیتوں کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور حکومت اس کے لیے موثر قانون سازی کرے۔
۲۔ ہندوستان کثیر مذہبی ملک ہے، اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کا دستور بنایا گیا ہے جس میں ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اس کی دعوت دینے کا حق دیا گیا ہے۔ ایسے بڑے ملک اور کثیر مذہبی سماج کے لیے یکساں سول کوڈ نہ مناسب ہے اور نہ مفید۔ بھارت میں اس طرح کی کوششیں دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق کے بھی مغائر ہیں۔ اس لیے یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ملک پر براہ راست یا بالواسطہ اور کلی یا جزوی یکساں سول کوڈ مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے، یہ ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہے۔
۳۔ بورڈ کا یہ اجلاس اس بات کو واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ جب کوئی چیز وقف کردی جاتی ہے تو وہ انسان کی ملکیت سے نکل کر براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں آجاتی ہے۔ اب وقف کرنے والے کے بشمول کسی فرد جماعت یا حکومت کو اس کا حق نہیں ہے کہ وہ اس کو فروخت کرے یا وقف کے منشا کے خلاف کسی اور کام میں استعمال کرے، اس لیے حکومت یا کسی بھی متولی کا اوقاف کی جائیداد میں تصرف کرنا یا بعض عدالتوں کا وقف کی اراضی کو بیچنے کی اجازت دینا اسلامی شریعت اور قانون وقف کے خلاف ہے، یہ مسلمانوں کے مذہبی حقوق اور شرعی قوانین میں مداخلت ہے اور مسلمان اسے قبول نہیں کر سکتے۔
۴۔ مذہبی احکام اور کتابوں کا تعلق عقیدہ ویقین سے ہے اس لیے اس کی تشریح کرنے کا حق ان ہی لوگوں کو ہے جو اس مذہب پر یقین رکھتے ہوں، اس مذہب سے واقف ہوں اور مذہب کے معتبر لوگوں کے نزدیک وہ مذہبی کتب اور اصطلاحات کی تشریح کے اہل سمجھے جاتے ہوں۔ حکومت یا عدالت کو اپنے طور پر مذہبی کتابوں یا مذہبی اصطلاحات کی تشریح وتوضیح کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ شہریوں کو جو مذہبی آزادی کا حق دیا گیا ہے، یہ اس میں بھی مداخلت ہے۔ اس لیے بورڈ مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت اور عدلیہ ایسے کسی بھی کام سے گریز کرے۔
۵۔ یہ اجلاس اس بات پر سخت رنج کا اظہار کرتا ہے کہ وطن عزیز میں خواتین مسلسل مظالم کا شکار ہو رہی ہیں۔ جہیز کی وجہ سے اموات بڑھتی جا رہی ہیں، عورتوں کو معلق رکھنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ماں کی کوکھ میں لڑکیوں کا قتل عام سی بات ہو گئی ہے، انہیں ترکہ سے محروم رکھا جاتا ہے۔ دفاتر، تعلیمی اداروں یہاں تک کہ ٹرینوں اور بسوں میں بھی عصمت ریزی کے متعدد واقعات پیش آرہے ہیں۔ لڑکیوں کی شادی میں ان کی مرضی کا خیال نہیں رکھا جاتا اور خاندان کے لوگ ان کو اپنی پسند قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں، یہ صورت حال غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہے، یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خواتین کے تحفظ کے لیے موثر قوانین بنائے اور اس پر عمل آوری کو یقینی بنائے۔
۶۔ اقلیتوں کا تحفظ تمام حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، مگر افسوس کہ جنوبی ایشیا کے خطہ میں اس پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ ماضی قریب میں بنگلہ دیش میں ہندو بھائیوں کے بعض مندروں کو نقصان پہنچایا گیا اور لوگوں پر حملے کیے گئے یہ یقیناً ایک قابل مذمت فعل ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی اس کی مذمت کی ہے، لیکن اس کے بعد شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں بغیر کسی وجہ کے مسلمانوں کی جانوں ومالوں کو جو نقصان پہنچایا گیا وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ پھر اس پر پولیس کی طرف سے بلوائیوں کی مدد اور خود مسلمانوں پر زیادتی ستم بالائے ستم ہے، نیز یہ حکومت کی اپنی ذمہ داریوں سے غفلت اور اقلیتوں اور دلتوں سے متعلق اس کی امتیازی پالیسی کا ثبوت ہے۔ مسلمانوں کا یہ نمائندہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اقلیتوں، دلتوں، دیگر کمزور طبقات اور خواتین پر بڑھتے ہوئے مظالم کی طرف خصوصی توجہ دے۔ ملک کے ہر شہری کے لیے امن و امان فراہم کرے، بالخصوص ہجومی تشدد کے وحشیانہ اور غیر انسانی طریقہ کو روکنے کا موثر طریقہ اختیار کرے اور مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دے، اس کے بغیر ایسے واقعات کا تدارک نہیں ہوسکتا۔
۷۔ یہ اجلاس مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خود اپنے آپ پر شریعت کو نافذ کریں، نکاح میں سادگی کو اختیار کریں، لڑکی والوں سے کسی قسم کا مالی مطالبہ نہ کریں، فضول خرچی سے بچیں، خواتین کو ان کا حق میراث دیں، ماں، بہن بیوی اور بیٹی کے حقوق کا خاص طور پر خیال رکھیں، اپنے باہمی نزاعات کو ثالث کے ذریعہ حل کرائیں اور اس سے کام نہ چلے تو دارالقضاة سے رجوع کریں۔ بین مذہبی شادی سے پوری طرح اجتناب کریں کیوں کہ اس سے سماج میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔
۸۔ بورڈ مسلمانوں، غیر مسلم بھائیوں اور بالخصوص علما و وکلا سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اسلام کے معاشرتی قوانین کو پڑھیں، اس کی حکمتوں اور مصلحتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، غلط فہمیوں سے بچیں اور دوسروں کی بھی غلط فہمیاں دور کریں، کیوں کہ اسلام کا قانون معاشرت پوری طرح انسانی ضرورت ومصلحت سے ہم آہنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں خاندانی زندگی سے متعلق جو قوانین مرتب کیے گئے ہیں اس میں مسلم پرسنل لا سے بہت استفادہ کیا گیا ہے۔
۹۔ دستور ہند میں ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی کا جو حق دیا گیا ہے اس میں مذہب کی تبلیغ بھی شامل ہے۔ اگر کوئی شخص جبر و دباو اور مالی تحریص کے بغیر اپنے مذہب کی خوبیوں کو بتاکر کر تبلیغ کرتا ہے تو اس کی اجازت ہے، مسلمانوں نے اس ملک میں کبھی بھی تبلیغ مذہب کے لیے جبر و دباو کا راستہ اختیار نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ایک ہزار سال اقتدار میں رہنے کے باوجود مسلمان ہمیشہ اقلیت میں رہے۔ حالیہ دنوں میں بعض لوگوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا، انہوں نے پولیس یا عدالت میں یہ دعویٰ دائر نہیں کیا کہ انہیں زبردستی مسلمان بنالیا گیا ہے، لیکن پھر بھی تبلیغ مذہب کا کام کرنے والوں پر جھوٹے مقدمات درج کیے گئے، جب کہ دوسری طرف بعض فرقہ پرست کھلے عام تبدیلی مذہب کا نعرہ لگارہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ یہ واضح طور پر دستور کی خلاف ورزی اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش ہے، اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی گروہ کے بنیادی حقوق میں مداخلت کرنے سے باز رہے اور تمام طبقوں کے ساتھ منصفانہ اور مساویانہ طرز عمل اختیار کرے۔ جو لوگ بے بنیاد الزامات کے تحت گرفتار ہیں انہیں فی الفور رہا کیا جائے اور ان پر سے مقدمات واپس لیے جائیں۔
۱۰۔ گزشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت، بغض اور عناد پر مبنی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، ان پر بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں، ان کی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر زہریلی، نفرت آمیز اور اشتعال انگیز تقاریر اور مواد پوسٹ کیا جارہا ہے، اس طرح ملک کی فضا کو فرقہ وارانہ خطوط پر مسموم کیا جارہا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت سوشل میڈیا پر ہونے والی فرقہ وارایت اور اشتعال انگیزی کی روک تھام اور شر پسند عناصر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021