مولانا مودودیؒ تاریخ دعوت وعزیمت کا ایک روشن باب

شبیع الزماں،پونے

25ستمبر :مولانا مودودیؒ کے یوم پیدائش کے موقع پر خصوصی مضمون
زندہ قومیں جب کسی بڑے حادثہ سے دوچار ہوتی ہیں تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے قدرت اتنے ہی بڑے آدمی بھی پیدا کر دیتی ہے۔ بیسوی صدی میں اسلام اور مغرب کی سیاسی اور تہذیبی کشمکش نے بر صغیر کی مسلم دنیا میں کتنے ہی بڑے لوگ پیدا ہوئے۔سرسید، حالی، شبلی، آزاد، سید سلیمان ندوی، علامہ اقبال اور کتنے ہی ستارے اس افق پر چمکے لیکن اسلام کی فکری و نظریاتی اٹھان کا کلائمکس مولانا مودودی کی شخصیت ہی کو کہا جا سکتا ہے۔
برصغیر میں 1857 کے سانحہ کے رد عمل میں مسلمانوں میں دو رویے پیدا ہوئے، اول یہ کہ تحفظ ودفاع اسلام کی خاطر روایت پسندی پر انحصار اور جدت سے گریز یا اجتناب کا رویہ دوسرا اپنے تشخص سے بے نیاز ہو کر غالب فکر و تہذیب سے ہم آہنگی کا رویہ۔ تیسرا رویہ فکر اسلامی کے حرکی رویے کا تصور تھا جس کی تعبیر نو کا جو کام علامہ شبلی نے شروع کیا تھا اسے مولانا مودودی نے کمال پر پہنچا دیا۔ حالانکہ جس فکر اسلامی کو وہ پیش کر رہے تھے ان سے پہلے علامہ اقبال اس پیغام کے داعی تھے لیکن چونکہ اقبال شاعر تھے اور شاعری میں کسی مربوط فکر کو پیش کرنا مشکل کام ہے۔ شاعر کسی نظام زندگی کو استدلالی حیثیت میں پیش نہیں کرتا بلکہ اس کے لیے جذبات پیدا کرتا ہے۔
مولانا مودودی کے کارنامے تو بہت ہیں لیکن جو باتیں انہیں امتیازی مقام عطا کرتی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
مولانا مودودی نے دین کے کسی ایک جز جیسے فقہ، علم الکلام، تفسیر و حدیث وغیرہ کے بجائے مکمل دین کی تعبیر و تشریح کی۔ انہوں دین کے اجتماعی پہلوؤں کو بیان کیا۔ ان کی کسی بھی کتاب کے مطالعے سے یہ بات ابھر کر آتی ہے۔ پردہ، سود، حقوقِ الزوجین، تنقیحات، تفہیمات، تجدید و احیائے دین سب اسی رنگ میں لکھی ہوئی ہے۔
دین کی تعبیر و تشریح کا کام انہوں نے بہت اعلیٰ سطح پر کیا۔ ہر کام کی مختلف سطحیں ہوتی ہیں اور سب سے اعلیٰ سطح یہ ہوتی ہے کہ پورے نظریاتی اور فکری ڈائنامکس کو ہی بدل دیا جائے، جیسے سائنس کے میدان میں سائنسدان تو ہزاروں لاکھوں ہوئے ہیں لیکن آئن اسٹائن اور نیوٹن ایک الگ امتیازی مقام رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے سائنس کے میدان کی ڈائنامکس ہی بدل دی تھی۔
ان کا تیسرا اور امتیازی کام مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کے فرق کو واضح کرنا تھا۔ عین اس زمانے میں جبکہ مغربی تہذیب کے سیاسی اور نظریاتی غلبے کے سبب بڑے بڑے اذہان ماؤف ہو چکے تھے انہوں نے اسلامی تہذیب کی خوبیوں کو واضح کیا اور مغربی تہذیب کے بودے پن کو مضبوط اور محکم دلائل کے ساتھ واضح کر دیا۔ مغربی تہذیب پر مولانا مرحوم کی تنقید معذرت خواہانہ یا مدافعانہ نہیں بلکہ جارحانہ تھی اور تنقید کے ساتھ مولانا نے اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی بھی بیان کردیے۔ انہوں نے مسلمانوں کو اعتماد بخشا کہ تمہارا دین کوئی ازکار رفتہ (out dated) دین نہیں ہے جس پر تمہیں شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے بلکہ اس دین میں وہ قوت موجود ہے کہ یہ آج بھی دنیا کی رہنمائی کر سکتا ہے۔
برصغیر سے پہلے مذہب اور علوم جدیدہ کی کشمکش مغرب میں ہو چکی تھی جہاں عیسائی پادریوں نے نئی علمی تحریک کی مخالفت کی اور اس کو روکنے کے لیے علمی و عقلی دلائل کے بجائے قوت سے کام لیا تھا مذہبی عدالتیں قائم کیں جن میں اس تحریک کے علم برداروں کو سخت وحشیانہ اور ہولناک سزائیں دی گئیں جس کے سبب مذہب مغربی دنیا میں اپنا مقدمہ ہار گیا۔ بعینہ یہی صورتحال مولانا مودودی کے زمانے میں برصغیر میں پیدا ہوئی۔ علامہ اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد اور شبلی کی طرح سیّد مودودی نے مغربی تہذیب کے متعلق اعتدال کا راستہ اختیار کیا۔ مغربی فکر و فلسفہ کو انہوں نے بالکلیہ مسترد کر دیا۔ جہاں وہ مغرب کی مادہ پرستی اور الحاد کی تاریخ کو مذہب کے خلاف جنگ سے تعبیر کرتے تھے وہیں مغربی تہذیب کی مثبت چیزیں جیسے کائنات کے آثار کا مشاہدہ، اس کے اسرار کی تحقیق، فطرت کے قوانین کی دریافت، آفاق و انفس پر غور وفکر اور ان سے نتائج کا استنباط، اس کی ایجادات و علوم سے استفادہ کے داعی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مغربی تہذیب کے ان پہلووں کی بھی نشان دہی کی جہاں وہ اسلام سے بالکل الگ نظر آتے ہیں اور ان حدود کا بھی تعین کر دیا جس میں رہ کر ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
ان کی شخصیت کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی ذات کا دفاع نہیں کیا۔ کیا کچھ الزامات ان پر نہیں لگے ضال، گمراہ، منکر حدیث، مہدیت کا دعویدار، دنیا پرست، شیعوں کا ایجنٹ اور یہاں تک کہ جس قادیانیت کے رد میں انہیں پھانسی کی سزا ہوئی اسی قادیانیت سے جڑے ہونے کی گالی تک انہیں دے دی گئی۔ لیکن انہوں نے ان الزامات کے خلاف قلم اٹھانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی لیکن اگر کسی نے اسلام ، اسلامی تہذیب اور اسلامی شعائر کے خلاف کچھ لکھا تو ان کی ایمانی غیرت فوراً جوش میں آجاتی اور اس کی زور دار خبر لیتے اور اس کے افکار و نطریات کی دھجیاں اڑا دیتے۔ یہ بات اکثر زیر بحث آتی ہے کہ علوم اسلامی کی تاریخ میں مولانا کا مقام کیا ہو حالانکہ اس طرح کی باتوں کا تعین مشکل ہوتا ہے۔ عام طور پر جس کسی نے کچھ اجتہادی کام کردیا یا اسلامی علوم پر کچھ کتابیں لکھ دیں اس کا مقابلہ سید مودودی سے کرنے لگتے ہیں۔ بر صغیر پاک و ہند میں اس طرح کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں لیکن مذاق سلیم کو یہ گوارا نہیں۔ اسلامی علوم کی تاریخ میں ان کا ٹھیک ٹھیک مقام وہی معلوم ہوتا ہے جو جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک انٹریو میں بیان کیا ہے کہ ’’ان کا عام علماء سے کیا مقابلہ، ہماری تاریخ میں ان کا مقابلہ امام غزالی، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ دہلوی سے کیا جا سکتا ہے‘‘۔
وہ اسلامی تاریخ کے دعوت وعزیمت کے اس قافلے کے فرد تھے جن پر آزمائشیں ہر شکل میں آئیں اور وہ اس میں کھرے اترے ۔ پھانسی کی سزا سے لے کر یونیورسٹی کے قیام کے نام پر کروڑوں روپے کی آفر، دونوں ہی موقع پر ان کے پائے استقامت میں تزلزل نہیں آیا ۔
ان کی تمام تر زندگی ہندوستان میں علمی و تحقیقی کاموں سے لے کر پاکستان میں بھر پور سیاسی زندگی کے اس پورے وقفے کو صرف اس ایک بات سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ تمام زندگی غلبہ اسلام کے لیےجدوجہد کرتے رہے۔ یہ جذبہ ان کے اندر کتنا پیوست تھا اس کا اندازہ اس تحریرسے ہوتا ہےجو انہوں نے ترجمان القرآن کے متعلق لکھی تھی وہ چاہتے تھے کہ رسالہ ترجمان القرآن
’’ایک زبردست انقلابی طاقت بن جائے، خیالات کا رخ جاہلیت سے اسلام کی طرف پھیر دے۔ افکار کی تطہیر، تنویر اور تعمیر خالص اسلامی اصولوں پر کرے۔ اسلام جو ایک جامد اور قدیم یارگار بنا کر رکھ دیا گیا ہے اس کو یہ ایک نامی، متحرک اور محرک نظام زندگی کی حیثیت سے پیش کرے۔ یہ تمنائیں دل میں پال رہا ہوں اور چھ برس اپنے جسم کی طاقت انہیں حاصل کرنے پر خرچ کر رہا ہوں مگر بد قسمتی سے اکیلا ہوں، تنہا ہوں، میری طاقت محدود ، وسائل مفقود، جو کچھ کرنا چاہتا ہوں وہ کر نہیں سکتا۔ ساتھ دینے والوں کو ڈھونڈتا ہوں مگر وہ کمیاب ہیں۔ کروڑوں مسلمانوں کی اس بستی میں اپنے آپ کو اجنبی اور غریب پاتا ہوں۔ جس جنون میں مبتلا ہوں، اس کا مجنوں مجھے کہیں نہیں ملتا۔ برسوں تک جن لوگوں کو اپنے خیالات پہنچاتا رہا ہوں ان کے قریب بھی جاتا ہوں تو مجھ سے دور نظر آتے ہیں۔ ان کی روح میری روح سے نا آشنا، ان کے کان میری زبان سے بیگانے۔ یہ دنیا کوئی اور دنیا ہے جس سے میری فطرت مانوس نہیں ۔ جو کچھ یہاں ہو رہا ہے سب کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنے پر مجبور ہوں۔ (ترجمان القرآن محرم 1960ء)
مولانا مودودی کی فکر کو عرب و عجم میں یکساں مقبولیت ملی، ملک، زباں، مسلک اور جماعتی دائروں سے باہر دنیا بھر میں ان کی تحریریں پڑھی جاتی ہیں کیونکہ ان کی دعوت کسی گروہ، قوم، جماعت، مسلک، ملک یا مذہب کے لیے مخصوص نہ تھی بلکہ وہ پوری انسانیت کے لیے تھی اور اسی احساس نے حفیظ میرٹھی کو اسلامک مشن لندن میں یہ شعر کہنے پر مجبور کیا تھا۔
بہ فیض مودودی مکرم کہیں غریب الوطن نہیں ہم
ہماری بستی ہے ساری دنیا تمام عالم نگر ہمارا
نہ قید ہے ملک اور زباں کی، نہ شرط مخصوص کارواں کی
اقامت دیں ہو جس کی منزل وہی شریک سفر ہمارا
***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  25 ستمبر تا 1 اکتوبر 2022