مولانا آزاد نے ہندوستان کی تعلیمی پالیسی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا: جماعت اسلامی ہند

نئی دہلی، نومبر 11: ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے تعلیمی بورڈ کے چیئرمین مجتبیٰ فاروق نے کہا کہ مولانا آزاد نے ہندوستان کی تعلیمی پالیسی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔

انھوں نے کہا کہ مولانا آزاد ایک عظیم دانشور، مفکر، متعدد کتابوں کے مصنف اور متعدد اخبارات و جرائد کے ایڈیٹر تھے جنھوں نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔

تاہم مسٹر فاروق نے، جو خود ایک صحافی ہیں، افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ حلقوں میں مولانا آزاد کی خدمات کو یاد کرنے کے لیے کوئی جوش نہیں ہے، جو انڈین نیشنل کانگریس کے سربراہ بھی تھے۔

انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ لوگ مولانا آزاد کی بے عزتی کو حب الوطنی کی علامت سمجھتے ہیں۔

مسٹر فاروق نے کہا کہ ’’متعصبانہ ذہنیت کے حامل لوگ وہی دلیل دیتے ہیں کہ مولانا آزاد، ایک عالم دین، کو وزیر تعلیم مقرر کرنا غلط تھا کیوں کہ وہ نہ تو ماہر تعلیم تھے اور نہ ہی جدید تعلیم سے واقف تھے۔ لیکن واضح ہو کہ مولانا آزاد عربی، انگریزی، اردو، ہندی، فارسی اور بنگالی سمیت کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔‘‘

مسٹر فاروق نے کہا کہ اس طرح کے دلائل کا استعمال کرتے ہوئے ’’عظیم آزادی پسندوں کو نیچا دکھانے اور جدید ہندوستان کی تعمیر میں ان کے تعاون کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ ’’بھارت کے سب سے بڑے لیڈروں کو صرف ان کی اپنی برادریوں تک محدود رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، نہ کہ قومی لیڈروں کے طور پر۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے آئین کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو محض ایک دلت رہنما اور مولانا آزاد، متحدہ ہندوستان کے ایک عظیم محافظ اور ہندو مسلم اتحاد کے عظیم رہنما کو، آزادی کے بعد کے ہندوستان میں محض مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا ’’یہ بدقسمتی کی بات ہے کیوں کہ کوئی رہنما صرف اپنی برادری تک محدود نہیں تھا۔ انھوں نے پورے ملک کے لیے قربانیاں دی ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ کھڑگپور میں پہلا انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IIT) مولانا آزاد کی وزارت تعلیم کے دور میں قائم کیا گیا تھا۔

بعد میں یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن، جس کا نام بدل کر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن رکھا گیا، 1953 میں مولانا آزاد کی قیادت میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا۔

مولانا آزاد کے تحت وزارت تعلیم نے آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن قائم کیا۔ علی گڑھ میں قائم جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ان کی وزارت کے دور میں ہی دہلی منتقل کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے ہندی زبان میں تکنیکی اصطلاحات کی تالیف کی بھی حوصلہ افزائی کی۔

مولانا آزاد کی صحافتی خدمات اور جدوجہد آزادی میں ان شرکت کو یاد کرتے ہوئے جناب مجتبیٰ فاروق نے کہا کہ ’’مولانا آزاد نے نیرنگ عالم نامی ایک جریدہ شائع کیا۔ وہ 1900 میں 12 سال کی کم عمری میں ہفت روزہ المصباح کے ایڈیٹر تھے۔ 1903 میں انھوں نے لسان الصدق نامی ماہانہ رسالہ نکالا۔ انھوں نے 20 سال کی عمر میں الہلال اخبار کا آغاز کیا۔ جب اخبار کی مقبولیت ہندوستان کی تحریک آزادی کی آواز کے طور پر بڑھی تو برطانوی حکومت نے اس پر پابندی لگا دی۔ بعد ازاں مولانا آزاد نے ایک نیا اخبار البلاغ شروع کیا جس پر 1916 میں پابندی لگ گئی۔ مولانا آزاد کو جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کی وجہ سے کئی بار قید کیا گیا۔‘‘

انھوں نے پوچھا کہ ’’ایسی شخصیت کو نشانہ بنانا جہالت اور تنگ نظری نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘

تعلیم کو آج ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے مسٹر فاروق نے نشان دہی کی کہ حکومت آزادی کے 75 سال گزرنے کے باوجود تعلیم میں انصاف اور مساوات قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ملک کی تعلیمی ترقی میں مولانا آزاد کی شراکت پر غور کرتے ہوئے مسٹر فاروق نے ہندوستانی یونیورسٹیوں میں مولانا آزاد کی تعلیمی خدمات اور نظریات پر تحقیق کرنے کا مشورہ دیا۔

مسٹر فاروق نے حکومت پر زور دیا کہ وہ غریب اور دیہی طلباء کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنے والی پالیسیاں اور اسکیمیں بنائے۔

مسٹر فاروق نے مسلم کمیونٹی کو تعلیم کے میدان میں انفرادی اور اجتماعی طور پر مسلمانوں کے مقام کا جائزہ لینے کا مشورہ دیا۔

انھوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ ہر پڑھا لکھا شخص، جو اعلیٰ عہدے پر فائز ہے اور امیر ہے، ایک یا دو غریب طلبا کی کفالت کرے۔