آہ میرے فلسطینی بھائیو اور بہنو!

(فلسطین پر پروفیسر منوج جھا کی ایک منتخب تحریر)

میرے پیارے فلسطینی بھائیو اور بہنو!

برائے مہربانی اس خط کو ہم ہندوستانی عوام کی جانب سے بطور معافی نامہ سمجھیے کیوں کہ موجودہ سرکار نے جس انداز میں ہند۔فلسطین کے خوش گوار تعلقات اور مضبوط رشتے کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے وہ رشتہ ماضی کے نازک لمحات میں بھی کبھی اتنا کمزور نہیں ہوا تھا۔ ہم ان نا گفتہ بہ حالات تک کیسے پہنچے؟

میں اس نکتے کی وضاحت میں آپ سب کا تھوڑا سا وقت لوں گا کیوں کہ قوموں کی تاریخ میں کبھی کبھی وہ لمحہ بھی آتا ہے جب برسر اقتدار حکومت اپنے عوام کے جذبات و احساسات سے یکسر لا تعلق نظر آتی ہے۔
ہم بھی اپنی معاصر تاریخ میں کچھ اسی قسم کے تجربے سے دوچار ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے اسرائیل کا دورہ کیا اور دانستہ طور پر ان مسائل سے کنارہ کشی اختیار کی جنہوں نے آپ کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

ہمارے وزیر اعظم کی کرشماتی شخصیت کے زیر اثر تقریباً سارے نیوز چینلز مسئلہ فلسطین کو عوامی ڈسکورس سے اوجھل کر دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ پریشانی کا سبب وزیر اعظم کا یہ دورہ نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے مسئلہ فلسطین پر ہندوستان کی بدلتی ہوئی پوزیشن باعثِ تشویش ہے۔ مجھے یہ کہنے میں جھجھک محسوس نہیں ہوتی ہے کہ بحیثیت قوم ہم آپ کی تاریخی جدوجہد کی وراثت اور ہمارے باہمی تعلقات کو بھلا دینے کے درپے ہیں۔ آپ کی جدوجہد آزادی کو ہمارے گزشتہ 70 سالہ تاریخی اور جذباتی رشتے کو بھی نہایت منظم طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے۔

کاش میں اپنے ہم وطنوں کو آگاہ کر پاتا کہ قوموں کی نفسیات پر ایسے رشتوں کو ختم کیے جانے پر کیسے سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس بات کو فلسطینیوں سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے؟ عوامی یادداشت کو ختم کرنے کی اس سازش کی مخالفت کرنے پر میرے کچھ لبرل دوست مجھے بھی ان سب باتوں کو بھول جانے کا مشورہ دیتے ہیں بلکہ وہ تو مجھ پر یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ میں تاریخ کا اسیر ہو کر رہ گیا ہوں۔ مگر میرے دوست یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ زندگی اس وقت تک آگے نہیں بڑھتی جب تک کہ آپ کے غموں اور دکھوں کا مداوا نہ ہوجائے۔ وہ اسلاموفوبیا کے پروپیگنڈے سے بھی روبرو نہیں ہونا چاہتے ہیں۔ یہ وہ آلہ کار ہے جس کے ذریعے مغرب نے فلسطینیوں کو اپنا نشانہ بنایا ہے۔ ہم دنیا والوں کو یہ دلیل بھی نہیں دے پا رہے ہیں کہ فلسطین محض مسلمان قوم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ تہذیب عالم کا ایک ایسا مسئلہ ہے جب تک اسے حل نہیں کیا گیا تب تک انسانیت کی روح مجروح ہوتی رہے گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے آپ سے ہر قسم کے تعلق کو ختم کر لیا ہے۔

ادبی تناظر میں جن ساتھیوں نے محمود درویش کو پڑھا ہے وہ فلسطین کی تہذیب وثقافت کو سمجھ سکتے ہیں مگر ہمارے اس خاموش رویے نے ادیب کے ان الفاظ کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔ اگر زیتون کے پیڑ صرف انہی ہاتھوں کو پہچانیں گے جن ہاتھوں نے ان کی آبیاری کی ہے تو ان کے تیل بھی آنسو بن جائیں گے۔ ’’ہمارے وزیر اعظم وقتاً فوقتاً مہاتما گاندھی کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔ گاندھی ہمارے قومی رہنما ہیں ہم جنہیں پیار سے باپو کہتے ہیں۔ مگر یہ دہائیاں گاندھی کے نظریات سے ذرا بھی میل نہیں کھاتی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے ہندوستان میں بڑھتے ہوئے جنونی ہجوم کے بارے میں ایک لمبے عرصے کے بعد خاموشی توڑی جو ان کے غیر حساس ہونے کی دلیل ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے درمیان ایسے کئی افراد موجود ہیں جو وزیر اعظم کو اسرائیل-فلسطین مسئلے کے حوالے سے گاندھی کے خیالات کو پڑھنے کا مشورہ دے سکتے ہیں اور ہمارے وزیر اعظم پر اسے عمل میں لانے کی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

گاندھی کا موقف تھا کہ ’’جو رشتہ انگلینڈ کا انگریزوں سے اور فرانس کا فرانسیسیوں سے ہے وہی رشتہ فلسطین کا عربوں سے ہے۔ اس لیے عربوں پر یہودیوں کو مسلط کرنا ایک غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل ہے۔ آج فلسطین میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کسی بھی اخلاقی پہلو سے جائز نہیں ہے۔ یقیناً یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے کہ عربوں کے وقار کو کم کر کے ان کی زمینوں کو یہودیوں کے حوالے کر دیا جائے‘‘۔

ایک یا دو ناخوشگوار واقعات کے علاوہ ہندوستانی ریاست اور عوام ہمیشہ آپ کے دکھ سکھ میں شریک رہے ہیں۔ ایک بے ایمان ریاست کے ظلم اور بربریت کے خلاف ہم ہمیشہ سڑکوں پر اترتے آئے ہیں۔ ہندوستان کی اکثریت آپ کے ساتھ تعلق خاطر رکھتی ہے۔ اسرائیلی ریاست پرتشدد طریقوں سے آپ کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا موقع تلاش کرتی رہتی ہے، ہم آپ کے اس دکھ کو سمجھتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ گیارہ سال پہلے جووتھ بٹلر نے دنیا کو بتایا تھا کہ امریکہ کے ایک فلسطینی شہری نے اسرائیل کے ہاتھوں مارے گئے دو فلسطینی خاندانوں کی تعزیتی سوانح سان فرانسسکو کرانیکل میں جمع کی تھی، مگر اس شخص کو بتایا گیا کہ بغیر ’موت کے ثبوت‘ کے یہ قبول نہیں کی جا سکتی۔ کرانیکل کے اسٹاف نے کہا کہ البتہ اس کومیموریل کے گوشے میں جگہ مل سکتی ہے۔ مگر جب ان کی سوانح دوبارہ لکھ کر جمع کی گئی تو اسے ایک بار پھر سے مسترد کر دیا گیا۔ اس وقت کے اسٹاف نے سوانح کو شائع نہ کرنے کی یہ دلیل دی تھی کہ اس عمل کے ذریعے ہم کسی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتے۔ یہ پڑھ کر میں اس جرنل کے ادارتی عملے کی اخلاقی پستی پر بہت برہم ہوا تھا۔ میں خوش تھا کہ ہمارے ملک کا میڈیا کم از کم ایسی کم ظرفی کا ثبوت نہیں دے گا مگر وزیر اعظم کے حالیہ دورے اور میڈیا حلقوں نے یہ احساس دلایا کہ ہندوستانی میڈیا پر میرا یقین محض ایک بھرم تھا۔ اپنے ہم منصب کے ساتھ تجارتی اور سیاسی حکمت عملی کے شور میں میرے وزیر اعظم اور ان کے رفقا نے نکبہ جیسے واقعے کو بڑی آسانی سے بھلا دیا ہے۔ نکبہ نسل کشی کی ایک ایسی مثال ہے جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ بالکل اسی طرز پر یہ لوگ بھی ایک بار پھر سے آپ کی تاریخ کو مکمل طور پر مسخ کر دینا چاہتے ہیں۔

فلسطینی شہداء پر لکھی گئی فیض احمد فیض کی یہ نظم مرے دکھوں پر ذرا دیر کے لیے مرہم رکھ دیتی ہے؎
میں جہاں بھی گیا ارض وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے
تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے
تیری الفت تری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
سارے ان دیکھے رفیقوں کا جلو ساتھ رہا
کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا
دور پردیس کی بے مہر گزر گاہوں میں
اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطین کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطین برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطین آباد

میرے پیارے فلسطینی بھائیو! اور بہنو! ہمیں معاف کردو کہ ہم نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ آپ پر کیے جا رہے جرم میں شریک ہو کر ہم اپنی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار اسے لوگوں کا ساتھ دے رہے ہیں جو انسانیت اور معصومیت کے قاتل ہیں مگر مجھے پوری امید ہے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

ہمیشہ آپ کا اپناایک عام ہندوستانی شہری

 

(رکن پارلیمنٹ راجیہ سبھا اور دہلی یونیورسٹی کے شعبہ سوشل ورک کے پروفیسر منوج کمار جھا نے یہ خط جولائی 2017 میں لکھا تھا۔ ان کا یہ خط سال 2021 کے شروعات میں اردو میں شائع ہونے والی کتاب ‘گرم ہوا کے دور میں : انصاف اور جمہوریت کے سروکار’ میں شامل ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر جھا کے حالیہ برسوں کے دوران انگریزی و ہندی میں لکھے گئے مضامین کا اردو ترجمہ ہے۔ اور اردو ترجمہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد میں اسسٹنٹ پروفیسر ابو اسامہ نے کیا ہے اور یہ کتاب کو نئی دہلی میں قائم الٹرنوٹس پریس نے شائع کی ہے۔)

***

ہم دنیا والوں کو یہ دلیل بھی نہیں دے پا رہے ہیں کہ فلسطین محض مسلمان قوم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ تہذیب عالم کا ایک ایسا مسئلہ ہے جب تک اسے حل نہیں کیا گیا تب تک انسانیت کی روح مجروح ہوتی رہے گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے آپ سے ہر قسم کے تعلق کو ختم کر لیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021