’میڈیا اتنا گر سکتی ہے اس بارے میں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا‘
میڈیا کا کریکٹر سمجھنے کے ماہین علی کی یہ کہانی کافی ہے۔
افروز عالم ساحل
کانپور کی ریچا جو اب اسلام اپنا کر ماہین علی ہوچکی ہیں، ان کے بارے میں میڈیا بغیر ان سے بات کئے ہر طرح کا جھوٹ پھیلایا۔ ریچا نے پہلے اسلام کو پڑھا، سمجھا، اپنی زندگی میں اتارا اور پھر قانونی طور پر اسلام قبول کیا۔ لیکن اگر آپ انڈین میڈیا کی خبریں پڑھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ جیسے کسی نے ریچا پر کوئی جال پھینکا ہو اور انہیں اپنے چنگل میں پھنسا لیا ہو۔ دراصل انڈین میڈیا کا یہی کردار بن چکا ہے جو بغیر کسی ٹھوس بنیاد اور بغیر کسی ڈر و خوف کے جو جی میں آرہا ہے، پھیلا رہا ہے۔ میڈیا کا کریکٹر سمجھنے کے ماہین علی کی یہ کہانی کافی ہے۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں ماہین علی کہتی ہیں، ’میرے بارے میں اب تک میڈیا میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے، وہ سب کا سب جھوٹ ہے، سچائی سے اس کا دور کا بھی رشتہ نہیں ہے۔ اور ایک سچ یہ بھی ہے کہ ان خبروں کو لکھنے والے کسی بھی جرنلسٹ نے آج تک مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ میری فیملی کا بھی کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی بیان نہیں دیا۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ میڈیا میں میرے بارے میں نہ جانے اب تک کیا کیا لکھا جا چکا ہے۔ انہیں پڑھنے یا دیکھنے میں میری کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن میرے جاننے والے میرے بارے میں لکھی گئی جھوٹی خبریں مجھے ہی بھیجتے ہیں تو پڑھ لیتی ہوں اور پڑھ کر خوب ہنسی آتی ہے۔
ماہین علی کہتی ہیں کہ نہ 75 ہزار میری سیلری ہے اور نہ ہی میں نے اب تک ایک روپیہ بھی کسی مسجد یا کسی بھی مذہبی ادارے کو چندہ دیا ہے۔ اور ہاں! نہ تو میں نوئیڈا میں رہتی ہوں، نہ ہی کبھی رہی ہوں، اور نہ ہی وہاں نوکری کرتی ہوں۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ جو الہٰ آباد کے پروفیسر شاہد کا نام مجھ سے جوڑا گیا، ان کا نام پہلی بار میں نے نیوز پیپر میں پڑھا تھا۔ ان سے ملنے کی بات تو بہت دور میں انہیں جانتی تک نہیں اور نہ ہی مجھے کسی مسلم پروفیسر نے پڑھایا۔ میرا اسلام میں دلچسپی کا جو پورا معاملہ ہے، وہ کالج میں پڑھائی کے دوران ہوا ہی نہیں ہے۔ ہاں! کالج کے بعد نوکری کے دوران میں نے اسلام کا مطالعہ کیا، سمجھا اور اپنی زندگی میں اتارا۔ یہ میرا خود کا فیصلہ تھا۔
ماہین علی یہ بھی بتاتی ہیں کہ میرے بارے میں میڈیا میں یہ بھی خبر چلائی گئی کہ ایم بی اے کرنے کے بعد الہٰ آباد میں یو پی ایس سی کی تیاری کررہی تھی، اسی دوران مجھے پروفیسر شاہد ملے، تو بتادوں کہ ایم بی اے کرنے کے بعد میں الہٰ آباد کبھی گئی ہی نہیں، اور نہ ہی میں نے کبھی یو پی ایس سی کی تیاری کی۔ میں نے کبھی اس کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ میڈیا میں یہ خبر بھی آئی کہ عمر گوتم نے انہیں ’شائننگ اسٹار‘ کا نام دیا۔ لیکن ماہین کا کہنا ہے کہ مجھے اس کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔
ان کے بارے میں میڈیا میں یہ بھی لکھا گیا کہ جب سے انہوں نے اسلام قبول کیا ہے، فیملی سے رشتے ختم کرلئے ہیں، سب کا نمبر بلاک کردیا ہے۔ بلکہ انٹرنیٹ سے بھی ناطہ توڑ لیا ہے۔ ان خبروں میں اے ٹی ایس کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ان کے گھر والوں نے بتایا ا ن کے لئے ریچا اب مر چکی ہے۔ لیکن ماہین کا کہنا ہے کہ جس دن یہ نیوز میڈیا میں دکھائی گئی، اس دن تک میری بات گھر پر ہورہی تھی۔ دو مہینے پہلے تک میں اپنے گھر پر ان کے ساتھ رہ کر آئی ہوں۔ ہاں! ابھی حالات کو دیکھتے ہوئے گھر والوں نے بات چیت کم ضرور کردی ہے اور تقریباً ایک ہفتے سے بات نہیں ہو پائی ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ گھر والوں سے میرے تعلقات ہمیشہ ایک جیسے ہی رہے ہیں۔
میڈیا میں آئی خبر کے مطابق ماہین کی شادی ہوچکی ہے، بلکہ انہیں شادی کے لئے ہی مسلمان بنایا گیا۔ لیکن ماہیں علی کہتی ہیں کہ اب تک میری شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ملک کی میڈیا اتنا گر سکتی ہے اس بارے میں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔