محب وطن راجہ مہندرپرتاپ سنگھ کے نام پر سیاست

علی گڑھ میں ایک اور یونیورسٹی قائم کر کےکیا اے ایم یو کا قد گھٹایا جا رہا ہے ؟

افروز عالم ساحل

14 ستمبر 2021 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے علی گڑھ میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ایسی کتنی عظیم شخصیات ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا لیکن یہ ملک کی بدقسمتی تھی کہ آزادی کے بعد اگلی نسلوں کو ایسے قومی ہیروز کی قربانیوں سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ ملک کی کئی نسلیں ان کے بارے میں جاننے سے محروم ہیں۔

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی کی زندگی ہمیں ناقابل تسخیر عزائم اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی آمادگی سکھاتی ہے۔ راجہ مہندر پرتاپ ہندوستان کی آزادی چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ وقف کر دیا تھا۔ آج جب ہندوستان آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر تعلیم اور مہارت کی ترقی کی راہ پر گامزن ہے اپنے اس قابل بیٹے کے نام پر یونیورسٹی کا قیام حقیقی معنی میں ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ آج 21 ویں صدی کا ہندوستان 20 ویں صدی کی غلطیوں کو درست کر رہا ہے لیکن خود وزیر اعظم یہ غلطی کر رہے تھے کہ وہ راجہ مہندر پرتاپ کے ان اساتذہ اور ساتھیوں کو بھول گئے جن کے بغیر راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کچھ بھی نہیں تھے۔ ایسے کئی نام ہے جن کے ساتھ راجہ مہندر پرتاپ نے اپنی پوری زندگی گزار دی۔

راجہ مہندر پرتاپ کے نام پر میڈیا نے بھی زہر پھیلانے کا کام کیا۔ ہفت روزہ دعوت نے ایسے کئی امور کی تحقیق کی جن کو بنیاد بنا کر ملک کا نام نہاد ’مین اسٹریم‘ میڈیا عوام میں خوف وہراس پھیلا رہا ہے۔ حالانکہ ہفت روزہ دعوت ایک سال قبل ہی اس پر ایک خاص اسٹوری شائع کرکے تمام حقائق سامنے رکھ چکا ہے، لیکن ایک بار پھر ملک میں پھیلائے جارہے خوف کو ختم کرنے کے لیے ان کی شخصیت سے آپ کو متعارف کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

راجہ مہندر پرتاپ کے نام پر زی نیوز کے سدھیر چودھری کی زہر افشانی

زی نیوز پر سدھیر چودھری نے اپنے خاص پروگرام ’ڈی این اے‘ میں اپنی لمبی ’تقریر‘ میں کہا کہ ’آزادی کے بعد اسکولوں اور کالجوں میں ہندوستان کی جو تاریخ ہمیں پڑھائی گئی، وہ انگریزوں کی لکھی ہوئی تھی۔ اسے انگریزی بولنے والے ہی پڑھاتے تھے اور انگریزی بولنے والے ہی سمجھ پاتے تھے۔ اس تاریخ میں اکبر دی گریٹ کے لیے تو جگہ تھی لیکن اشوکا دی گریٹ کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس تاریخ میں سرسید احمد خان (سدھیر نے ان کا نام سر سید علی خان کہا تھا) کو ایک سماجی مصلح کے طور پر پیش کیا گیا لیکن راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جیسے محب وطن کی کہانی چھپا لی گئی۔

اس نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جیسے ہی اتر پردیش کے علی گڑھ میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا، پورے ملک میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے چرچے ہونے لگے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے پوری زندگی ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے لڑی۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے 1915ء میں افغانستان کی دارالحکومت کابل میں ہندوستان کی پہلی جلاوطنی حکومت قائم کی۔ جس کا نام حکومت مختارِ ہند یعنی آزاد ہندوستان کی آزاد حکومت تھا۔

سدھیر چودھری نے اپنے اس شو میں یہ الزام بھی لگایا کہ مہندر پرتاپ سنگھ نے اپنی ذاتی زمین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو عطیہ کی تھی۔ یہاں آپ پر یہ واضح کردیں کہ یہ الزام کوئی نیا نہیں ہے، بلکہ گزشتہ کئی سالوں سے یوگی سمیت ہندو جاگرن منچ اور بی جے پی کے کئی لیڈر راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ 14 ستمبر 2019 کو علی گڑھ میں ایک پروگرام کے دوران یو پی کے وزیر اعلیٰ نے ایک انتخابی ریلی کے دوران یہ غلط بیان دیا تھا، پھر اسی غلط دعوے کو انہوں نے نومبر 2020 میں ضمنی انتخابات کی مہم کے دوران بھی دہرایا کہ ’’راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی تعمیر کےلیے اپنی پوری جائیداد عطیہ کردی تھی لیکن ان کے نام پر ایک پتھر تک نہیں لگا۔ ایسے میں اب ہماری حکومت اسی علی گڑھ میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام سے یونیورسٹی بنانے کےلیے کام کر رہی ہے۔‘‘

اس سلسلے میں ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے اے ایم یو انتظامیہ سے بات کی تو اس نے اس الزام کو سرے سے خارج کردیا۔ اے ایم یو کے پروفیسر راحت ابرار کہتے ہیں کہ ’’راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اور ان کے کنبہ کے کسی بھی شخص نے ایک گز زمین بھی اے ایم یو کو عطیہ میں نہیں دی ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ سرسید احمد خان کے خوابوں کے ’مدرسہ‘ کا افتتاح 24 مئی 1875 کو ہی کردیا گیا تھا۔ دو سال بعد 7جنوری 1877کو محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کی بنیاد رکھ دی گئی۔ جبکہ راجہ مہندر پرتاپ کی پیدائش یکم دسمبر 1886 کو ہوئی تھی تب تک ایم اے او کالج کی عمارت پوری طرح تیار ہو گئی تھی۔پروفیسر راحت ابرار بتاتے ہیں کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ ایم اے او کالج کے طالب علم ضرور تھے، انہوں نے سرسید احمد خان کو دیکھا تھا اور ان کے جنازے میں بھی شامل ہوئے تھے۔ سرسید بھی انہیں جانتے تھے۔ ان باتوں کا تذکرہ خود راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے اپنی سوانح عمری میں کیا ہے۔

پروفیسر ابرار علی نے علی گڑھ میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر یونیورسٹی بنائے جانے کے اعلان کا خیر مقدم کیا، وہ کہتے ہیں، ’ایم اے او کالج کے طالب علم کے نام پر اسی علی گڑھ میں یونیورسٹی بن رہی ہے، اے ایم یو کےلیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوگی۔‘

اے ایم یو کے مولانا آزاد لائبریری کے مرکزی ہال میں جہاں یونیورسٹی کے لیے نمایاں کردار ادا کرنے والی شخصیتوں کی تصاویر ہیں، راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ کی تصویر بھی تفصیلات کے ساتھ موجود ہے۔ یہ تصویر لائبریری کے ریسرچ بلاک کے دروازے کے ٹھیک اوپر لگی ہوئی ہے۔

اے ایم یو لائبریری کے مین ہال میں ریسرچ بلاک کے دروازے کے ٹھیک اوپر لگی راجہ مہندر پرتاپ کی تصویر

اےایم یو کے سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈی ان ہسٹری کے پروفیسر محمد سجاد کہتے ہیں کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے والد راجہ گھنشیام سنگھ اےایم یو کے بانی سرسید احمد خان کے اچھے دوست تھے اسی ناطے راجہ گھنشیام سنگھ نے 250 روپے چندہ دیا تھا جس سے ہاسٹل کے ایک کمرے کی تعمیر کی گئی تھی۔ یہ کمرہ سر سید ہال (ساؤتھ) کا کمرہ نمبر 31 ہے، جہاں آج بھی ان کا نام لکھا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہاسٹل کے کمروں پر زیادہ تر ان ہی لوگوں کے نام درج ہیں جنہوں نے کم سے کم چندہ 500 روپے دیا تھا۔ مرسان اسٹیٹ کے راجہ گھنشیام سنگھ یوپی کے سب سے بڑے زمینداروں میں سے ایک تھے۔

سر سید ہال (ساؤتھ) کا کمرہ نمبر 31 ہے، جہاں آج بھی راجہ مہندر پرتاپ کے والد کا نام لکھا ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی جس زمین کو راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی عطیہ کردہ بتا رہی ہے وہ آج اے ایم یو کیمپس سے چار کلو میٹر دور پرانے علی گڑھ کے جی ٹی روڈ پر سٹی ہائی اسکول کے کھیل میدان کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ مثلث سائز کی 1.22 ایکڑ زمین 1929 میں 90 سالوں کے لیے لیز پر اے ایم یو کو دی گئی تھی۔ لیز کی رقم ہر سال راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی اولاد اے ایم یو سے حاصل کرتی رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس زمین پر علی گڑھ سے چار بار بی جے پی کے ایم ایل اے کرشنا کمار نومان نے بھی دعویٰ کیا تھا۔ 1984 میں یہ کیس ضلعی عدالت سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک پہنچا جہاں 2003 میں ایک عبوری حکم جاری کیا گیا تھا کہ لیز کی مدت ختم ہونے سے قبل کوئی دوسرا دعویدار اس زمین پر قبضہ نہیں کرسکتا۔

سٹی اسکول کا نام راجہ مہندر پرتاپ سنگھ سٹی اسکول رکھنے کی تجویز

لیز کے 90سال مکمل ہونے پر راجہ مہندر پرتاپ کے وارثین نے اب اے ایم یو انتظامیہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ اسکول سے متصل تیکونیا پارک کی اراضی انہیں واپس کردی جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس سٹی اسکول کا نام راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر رکھا جائے۔ اے ایم یو کی اکیڈمک کونسل کے اجلاس میں وی سی پروفیسر طارق منصور کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔

باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ اب راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے وارثین اور اے ایم یو انتظامیہ کے درمیان اس بات پر معاہدہ ہوگیا ہے کہ اسکول سے متصل پارک کی کچھ اراضی انہیں واپس کردی جائے گی۔ زمین کا جو حصہ سڑک کے کنارے ہے اس پر وارثین دُکانات وغیرہ کی تعمیر کرانا چاہتے ہیں جس کا کرایہ بھی وہی وصول کریں گے۔ اے ایم یو انتظامیہ بھی سٹی اسکول کا نام راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر رکھنے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔ انتظامیہ یہ تجویز مرکزی حکومت کو چار پانچ مہینے پہلے ہی بھیج چکی ہے لیکن مرکزی حکومت نے ابھی تک اپنی منظوری نہیں دی ہے۔ اس کے پیچھے حکومت کی یہ غرض ہو سکتی ہے کہ پہلے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے، پھر اے ایم یو انتظامیہ کو منظوری دی جائے تاکہ اس وقت بھی کچھ لوگوں کو سیاست کرنے کا موقع مل جائے۔

1928ء میں شروع ہوا تھا سٹی اسکول

آپ کو بتادیں کہ اس سٹی اسکول کے قیام میں جواہر لال نہرو کے علی گڑھ کے خاص دوست عبد المجید خواجہ کا اہم کردار رہا ہے۔ عبد المجید خواجہ کیمبرج میں جواہر لال نہرو کے ساتھ تعلیم حاصل کررہے تھے۔ سن 1889 میں مولانا بہادر علی نے انجمن اسلامیہ پرائمری اسکول کی شکل میں اس کی شروعات کی تھی۔ 1919 میں یہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی سٹی برانچ کے طور پر قائم کیا گیا۔ اس اسکول کو 6 فروری 1927 کو موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا جو آج بھی ’مسلم یونیورسٹی سٹی اسکول‘ کے نام سے موجود ہے۔ اس بلڈنگ کا سنگ بنیاد خان بہادر نواب سر محمد مزمل اللہ خان کے ہاتھوں رکھا گیا تھا۔ یہاں جو زمین راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی ہے اسے اب سے سات سال پہلے تک میونسپل کارپوریشن نے اپنا کچرا ڈمپنگ یارڈ بنا رکھا تھا۔ 7 سال پہلے اے ایم یو انتظامیہ نے لاکھوں روپے خرچ کرکے اس زمین کی حد بندی کی تھی۔ کسی زمانے میں یہاں سٹی اسکول کے بچوں کا فٹ بال گراؤنڈ تھا۔

مہندر پرتاپ کے بہانے سرسید احمد خاں کے متعلق جھوٹ پھیلایا جارہا ہے

زی نیوز پر سدھیر چودھری نے اپنے خاص پروگرام ’ڈی این اے‘ میں یہ جھوٹ کہا کہ سر سید احمد خان نے سال 1888 میں میرٹھ میں ایک تقریر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان کبھی ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اگر انگریز ہندوستان چھوڑ دیتے ہیں تو ہندو مسلمانوں کو دبانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن سرسید احمد خان پر تحقیقی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسید احمد نے کبھی ایسی بات نہیں کہی۔ وہ ایک عظیم مفکر، مسیحائے قوم و درمند مصلح ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سچے محب وطن اور گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار بھی تھے۔سرسید کے نزدیک قوم سے مراد ہندو ومسلمان دونوں ہیں۔وہ ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی رہے۔

انہوں نے کہا تھا، ’’میں نے بار بار کہا ہے اور پھر کہہ رہا ہوں کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندو اور مسلمان ہیں۔ اگر دونوں باہم نفاق رکھیں تو وہ پیاری سی دلہن بھینگی ہو جائے گی اور اگر وہ ایک دوسرے کو برباد کر دیں گے تو اندھی ہو جائے گی۔ لہٰذا ائے ہندوستان کے رہنے والے ہندوؤ اور مسلمانو! اب تم کو اختیار ہے کہ تم اس کو بھینگا بنا دو یا اندھا بنا دو یا سلامت رکھو‘‘

ایم اے او کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل نہیں کر سکے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ

’’تیسرے سال میں نے لاپروائی سے پڑھائی کی۔ مجھے اب اپنے ’اسٹیٹ‘ کا کنٹرول مل گیا تھا اور میرا آگے کی پڑھائی میں دل نہیں لگا۔ 1907 میں میں نے آخرکار کالج چھوڑ دیا۔ میں نے بی اے کی ڈگری لینے کی کوئی پروا نہیں کی۔‘‘ یہ باتیں خود راجہ مہندر پرتاپ نے اپنی کتاب ’مائی لائف اسٹوری آف فیفٹی فائیو ایئرس‘ میں لکھی ہیں۔ ان کی یہ کتاب سن 1947 میں ورلڈ فیڈریشن، دہرادون سے شائع ہوئی تھی۔ اس پوری کتاب میں خود یا اپنے والد کے ذریعہ ایم اے او کالج کو کسی بھی طرح کے عطیہ دیے جانے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ خیال رہے کہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کا داخلہ 1895-1896 میں ہوا تھا۔

سو سالہ جشن کے مہمان خصوصی تھے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ

اے ایم یو کو آج بھی اس بات پر فخر ہے کہ اس نے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جیسے لوگوں کو تعلیم دے کر انہیں اپنے ملک کے کام آنے کا حوصلہ دیا۔ مسلمان ہندو اور تمام طبقات کے انسانوں کے کام آنے کی تعلیم دی۔ یہ تعلیم راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی پوری زندگی پر حاوی رہی اور اے ایم یو کی محبت اپنے اس طالب علم کےلیے کبھی کم نہیں ہوئی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ 1977 میں جب اے ایم یو نے اپنے ایم اے او کالج کا صد سالہ جشن منایا تو اس کے مہمان خصوصی راجہ مہندر پرتاپ سنگھ تھے۔

میں ایم اے او کالج کے صدسالہ جشن میں مہمان خصوصی بنے راجہ مہندر پرتاپ 1977

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ افغانستان میں قائم ہوئی ہندوستان کی عارضی حکومت کے صدر تھے

میڈیا میں بار بار یہ بات تو دہرائی جارہی ہے کہ افغانستان میں قائم ہوئی ہندوستان کی عارضی حکومت کے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ صدر تھے، لیکن باقی ناموں کو غائب کر دیا گیا۔ حکومتی سطح پر بھی کبھی ان ناموں کو سامنے نہیں لایا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے دوستوں میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ مہندر پرتاپ سنگھ دیوبند کے علمائے کرام کی ریشمی رومال تحریک میں بھی شامل رہے۔ 1915 میں افغانستان میں قائم ہوئی ہندوستان کی عارضی حکومت میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ صدر بنے تو مولانا برکت اللہ بھوپالی اس کے وزیر اعظم بنے۔ ان کے خاص دوستوں میں مولانا عبید اللہ سندھی اور مولانا محمود حسن شامل تھے۔ وہی محمود حسن ہیں جن کی تقریر سے آج سے ٹھیک سو سال پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ قائم ہوئی۔

یاد رہے کہ 1914ء میں جب پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو مولانا محمود حسن نے اسے انگریزوں کے خلاف 1857 میں شروع کی گئی تحریک آزادی کے مشن کو آگے بڑھانے اور متحد ہونے کا بہتر موقع سمجھا اور ہندوستان کے باہر بھی انگریزوں کے خلاف ماحول بنانے پر ان کی توجہ مبذول ہونے لگی۔

انہوں نے 1915ء کے اوائل میں مولانا عبیداللہ سندھی کو افغانستان بھیج کر کابل کو اپنی تحریک کا مرکز بنایا۔ چنانچہ 15 اکتوبر 1915 کو مولانا عبیداللہ سندھی کابل پہنچے اور وہاں پہلے سے موجود حریت پسند ہندوستانیوں کی مدد سے ایک عبوری حکومت تشکیل دی۔ یہ کسی بھی غیر ملکی سر زمین پر قائم ہونے والی ہندوستان کی پہلی جلاوطن حکومت تھی۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اس حکومت کے صدر منتخب ہوئے۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی وزیر اعظم بنائے گئے اور خود مولانا عبیداللہ سندھی وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔ اسی درمیان جنودربانیہ کے نام سے ایک فوجی تنظیم کا خاکہ تیار کیا گیا جس میں ڈپٹی کمانڈر کے لیے مولانا حسرت موہانی اور مولانا آزادشامل تھے۔

مولانا محمود حسن کی یہی تحریک بعد میں ’ریشمی رومال تحریک‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ مولانا عسکری بنیادوں پر مسلمانوں کو منظم کر کے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہتے تھے۔ منصوبہ ترکی کی فوج کی مدد سے افغانستان کے راستے ہندوستان میں انگریزوں پر حملہ کر کے ملک کو آزاد کرانا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے خود مکہ پہنچ کر حجاز میں مقیم ترک گورنر غالب پاشا سے ملاقات کی، انہیں ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کیا اور آزادی ہند کے لیے اپنا منصوبہ ان کے سامنے رکھا۔ غالب پاشا نے شیخ الہند کے اس منصوبے کی حمایت کی۔ اسی دوران ترکی کے وزیر جنگ انور پاشا سے بھی مولانا محمود حسن کی ملاقات ہوئی، وہ بھی ان کے اس منصوبے کی تائید و حمایت میں آ گئے لیکن اپنوں کی سازشوں سے انگریزوں کے خلاف یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ مولانا محمود حسن کو گرفتار کر کے مصر کے راستے مالٹا بھیج دیا گیا لیکن ان کی اس گرفتاری نے ہندوستان کے مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔

پریم مہاودیالیہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے قائم کیا تھا

24 مئی 1909 کو راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے اتر پردیش کے ورنداون میں نہ صرف اپنی ریاست کی عمارت میں پریم مہاودیالیہ کا قیام عمل میں لایا بلکہ اپنے پانچ گاوؤں کی سالانہ آمدنی 33 ہزار روپے بھی پریم مہاودیالیہ کو عطیہ کر دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بلا معاوضہ بطور سکریٹری اور گورنر خدمات بھی انجام دیں۔ اور کچھ عرصے تک اس مہاودیالیہ کے طلبہ کو سائنس پڑھا کر تعلیم سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کیا۔

اس مہاودیالیہ کے مقصد کا تذکرہ مصنف نند کمار دیو شرما نے اپنی کتاب ’پریم پجاری: راجہ مہندر پرتاپ سنگھ‘ میں بہت ہی خوب کیا ہے۔ یہ کتاب ہندی ساہتیہ کاریالیہ، کلکتہ سے سن 1980 میں شائع ہوئی ہے۔آج اس عظیم تاریخی مہاودیالیہ کی حالت یہ ہے کہ ورنداون سے باہر کے لوگ اسے جانتے تک نہیں۔ کاش! وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے ہاتھوں قائم کیے گئے اسی مہاودیالیہ کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیتے۔

جو لوگ اے ایم یو کیمپس میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کا مجسمہ لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں انہیں معلوم ہو کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے شہر ورنداون میں ان کا مجسمہ آج تک اتر پردیش کی حکومت نے نہیں لگایا ہے اور نہ ہی کسی گلی کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔

واضح ہو کہ یہ پریم مہاودیالیہ جسے خود راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے اپنی زمین پر قائم کیا تھا، آج خستہ حالت میں ہے جسے حکومت کی طرف سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ جبکہ یہ کالج آزادی کی لڑائی کا گواہ رہا ہے۔

1957 میں اٹل بہاری واجپئی کی ضمانت ضبط کروائی تھی

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ ہمیشہ ہی ’جن سنگھ‘ اور ہندوتوا کے خلاف رہے۔ 1957 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں جن سنگھ کے رہنما اٹل بہاری کو متھرا سے زبردست شکست دی تھی۔ اس انتخاب میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ بطور آزاد امیدوار میدان میں تھے، اس کے باوجود انہوں نے 40.68 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ 29.57 فیصد کے ساتھ کانگریس کے دگمبر سنگھ دوسرے نمبر پر تھے۔ جبکہ اٹل بہاری واجپئی 10.09 فیصد ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر تھے۔ امیدواروں کی کل تعداد 5 تھی۔

1967 میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے ایک بار پھر علی گڑھ لوک سبھا سیٹ سے انتخاب لڑا، جہاں ان کا مقصد بی جے پی کے سیاسی سرپرست جن سنگھ کی مخالفت کرنا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے خود کو ’پیٹر پیر پرتاپ‘ کہلانا زیادہ پسند کیا۔ اپنی سوانح حیات میں اپنی تصویر کے نیچے انہوں نے اپنا یہی نام لکھا ہے۔

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ ۔ محبت کے پجاری

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ خود ایک مضمون میں لکھتے ہیں’’میں ہمیشہ سے ہی پیار و محبت کا بھکت رہا ہوں۔ اپنے کالج کا نام ’پریم مہاودیالیہ‘ رکھ کر اور ’پریم‘ نام کا ایک اخبار ایڈٹ کرکے میں نے ابتدا میں ہی پریم سے اپنی عقیدت کا ثبوت دیا ہے۔ مہاتما گاندھی کا بہت پرانا بھکت ہوں…‘‘

راجہ پیٹر پیر پرتاپ نے ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا۔ انہوں نے ایک خط میں ہندو مسلمانوں کے جھگڑے پر کچھ اس طرح سوال اٹھایا۔ ’جھگڑا ہے، فساد ہے، بلکہ جنگ ہو رہی ہے لیکن کن میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں؟ ایک ہی ملت کے دو بازوؤں میں اور سرسید احمد خان کے مطابق ایک ہی چہرے کی دو آنکھوں میں؟ دیکھیے جب آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں یا اپنا فرض ادا نہیں کرتیں تو وہ اپنے ہی پیروں کو کسی پتھر سے ٹھوکر دلا دیتی ہیں اور جب بیماری کا دورہ ہوتا ہے تو بے کار چیزیں کھانے کو جی چاہتا ہے… آج ہندوستانی ملت یقیناً بیمار ہے۔ اس کے اندرون میں بیرونی بیماری گھس گئی ہے۔ ایسی حالت میں اگر ہم ٹھوکر کھائیں یا خودکشی کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو حیرت کی کیا بات ہے؟ اگر ہم اپنے ہی ہاتھ سے اپنا خون کرنا نہیں چاہتے تو ہمیں ہر وقت یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم بیمار ہیں، ہم کو ہماری بیماری دبائے ہوئے ہے اور یہ بیماری ہمیں ہر طرح سے مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے…

’ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک نئی یونیورسٹی قائم کی جارہی ہے اور اس کے لیے کوئی اسپیشل بجٹ نہیں ہے۔‘ — پروفیسر محمد سجاد

***

 بی جے پی جس زمین کو راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی عطیہ کردہ بتا رہی ہے وہ آج اے ایم یو کیمپس سے چار کلو میٹر دور پرانے علی گڑھ کے جی ٹی روڈ پر سٹی ہائی اسکول کے کھیل میدان کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ مثلث سائز کی 1.22 ایکڑ زمین 1929 میں 90 سالوں کے لیے لیز پر اے ایم یو کو دی گئی تھی۔ لیز کی رقم ہر سال راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی اولاد اے ایم یو سے حاصل کرتی رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس زمین پر علی گڑھ سے چار بار بی جے پی کے ایم ایل اے کرشنا کمار نومان نے بھی دعویٰ کیا تھا۔ 1984 میں یہ کیس ضلعی عدالت سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ تک پہنچا جہاں 2003 میں ایک عبوری حکم جاری کیا گیا تھا کہ لیز کی مدت ختم ہونے سے قبل کوئی دوسرا دعویدار اس زمین پر قبضہ نہیں کرسکتا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021