تبدیلی مذہب کے بارے میں کیا کہتا ہے ہمارا قانون؟
افروز عالم ساحل
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں ایڈوکیٹ آشمہ عزت کہتی ہیں کہ جس چیز کا حق ہمارا آئین دے رہا ہے وہ ہر حال میں ہمارا حق ہے۔ ہمیں نہ صرف کوئی بھی مذہب اپنانے کی آزادی ہے بلکہ ہم اس کی تشہیر و تبلیغ بھی پوری آزادی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ تبدیلی مذہب کوئی کراتا نہیں ہے، بلکہ یہ کام خود وہ شخص کرتا ہے جو کرنا چاہتا ہے۔ جیسے میں نے کسی مذہب کے بارے میں پڑھا اور مجھے وہ مذہب بہتر لگا، اور میں خود مذہب تبدیل کرنا چاہتی ہوں تو آپ اگر دھرم گرو یا مبلغ ہیں تو آپ صرف مدد کرسکتے ہیں۔ اس معاملے میں کسی کی مدد کرنا کسی بھی صورت میں غیر قانونی نہیں ہے۔ ہمارا آئین صاف طور پر کہتا ہے کہ اسٹیٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوگا، لیکن آج ملک کو ’ہندو اسٹیٹ‘ بنانے کی پوری کوشش ضرور ہورہی ہے، جو پوری طرح سے غیر قانونی ہے۔
واضح رہے کہ ہمارے ملک میں ہر شہری کو اپنی مرضی کا مذہب چننے اور اس کی تشہیر کرنے کی پوری اجازت ہے، یعنی وہ جس مذہب کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اس کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ اور یہ اجازت اسے ملک کا آئین دیتا ہے۔ آئین کی تمہید (Preamble) میں ہی اس بات کو واضح کردیا گیا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو خیال، اظہار، عقیدہ، مذہب اور عبادت کی آزادی ہوگی۔
یہی نہیں، ہندوستانی آئین کا آرٹیکل ۲۵-۲۸ بھی مذہب کی آزادی کا حق فراہم کرتا ہے۔
آرٹیکل ۲۵ ۔آزادئ ضمیر اور مذہب کو قبول کرنے اور اس کی پیروی و تبلیغ کی آزادی
(۱) تمام اشخاص کو آزادئ ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے بشرطیکہ امن عامہ، اخلاق عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیعات متاثر نہ ہوں۔
(۲) اس دفعہ کا کوئی امر کسی ایسے موجودہ قانون کے نفاذ کو متاثر نہ کرے گا اور نہ وہ ایسے قانون کے بنانے میں مملکت کا مانع ہوگا جو۔۔۔
(الف) کسی معاشی، مالیاتی، سیاسی یا دیگر غیر مذہبی سرگرمی کو جس کا تعلق مذہبی عمل سے ہوسکتا ہو منضبط کرے یا اس پر پابندی لگائے۔
(ب) سماجی بہبودی اور سدھار کے لیے یا ہندوؤں کے تمام طبقوں اور فرقوں کے لئے کھول دینے کے بارے میں توضیع کرے۔
آرٹیکل ۲۶ ۔ مذہبی امور کے انتظام کی آزادی
اس شرط کے ساتھ کہ امن عامہ، اخلاق عامہ اور صحت عامہ متاثر نہ ہوں، ہر ایک مذہبی فرقے یا اس کے کسی طبقے کو حق ہوگا :
(الف) مذہبی اور خیراتی اغراض کے لئے ادارے قائم کرنے اور چلانے کا
(ب) اپنے مذہبی امور کا انتظام خود کرنے کا،
(ج) منقولہ اور غیر منقولہ جائداد کے مالک ہونے اور اس کو حاصل کرنے کا، اور
(د) ایسی جائداد کا قانون کے بموجب انتظام کرنے کاآرٹیکل ۲۷ ۔ سی خاص مذہب کے فروغ کے لئے ٹیکس ادا کرنے کے بارے میںآزادی
کسی شخص کو ایسے ٹیکسوں کے ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جن کی آمدنی کسی خاص مذہب یا مذہبی فرقہ کی ترقی یا اس کو قائم رکھنے کے مصارف ادا کرنے کے لئے صراحتاً صرف کی جائے۔
آرٹیکل ۲۸ ۔ بعض تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم پانے یا مذہبی عبادت میں حاضر رہنے کے بارے میں آزادی
(۱) کسی ایسے تعلیمی ادارہ میں جو مکمل طور پر مملکتی فنڈ سے چلایا جاتا ہو، کوئی مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی۔
(۲) فقرہ (۱) کے کسی امر کا اطلاق ایسے تعلیمی ادارہ پر نہیں ہوگا جس کا انتظام مملکت کرتی ہو لیکن جو کسی ایسے وقف یا ٹرسٹ کے تحت قائم کیا گیا ہو، جو ایسے ادارہ میں مذہبی تعلیم دینا لازم قرار دے۔
(۳) کسی ایسے شخص پر جو کسی ایسے تعلیمی ادارہ میں پڑھتا ہو جو مملکت کا مسلمہ ہو یا جس کو مملکتی فنڈ سے امداد ملتی ہو، یہ لازم نہ ہوگا کہ وہ کسی ایسی مذہبی تعلیم میں حصہ لےجو ایسے ادارے میں دی جائے یا ایسی مذہبی عبادت میں شریک ہو جو ایسے ادارہ میں یا اس کی ملحقہ عمارت و اراضی میں کی جائے بجز اس کے کہ ایسے شخص نے یا اگر وہ نابالغ ہوتو اس کے ولی نے اس کے لئے اپنی رضامندی دی ہو۔
تبدیلی مذہب کو لے کر کیا کہتا ہے عالمی قانون؟
انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہوا تھا۔ یہ اعلامیہ بھی دنیا کے تمام انسان کو اپنی مرضی سے مذہب چننے و اپنانے اور اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق دیتا ہے۔
— اس اعلامیہ کی دفعہ ۱۸ کے مطابق، ہر شخص کو آزادئ خیال، آزادئ ضمیر اور آزادئ مذہب کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں اپنا مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنے اور انفرادی اور اجتماعی طور پر علیحدگی میں یا سب کے سامنے اپنے مذہب یا عقیدے کی تعلیم، اس پر عمل، اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی پابندی کرنے کی آزادی کا حق شامل ہے۔
— اس اعلامیہ کی دفعہ ۱۶ کے مطابق، پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تجدید کے بغیر، باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دوران شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلے میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔
اسی طرح ’بین الاقوامی منشور برائے شہری اور سیاسی حقوق‘ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۶ دسمبر ۱۹۶۶ کو منظوری دی تھی اور اسے برائے دستخط، توثیق اور منظوری عام کیا گیا تھا، اور اس کا نفاذ ۲۳ مارچ ۱۹۷۶ کو ہوا۔ ہندوستان نے بھی اس بین الاقوامی منشور کو 10 اپریل 1979 کو منظور کیا تھا۔
اس بین الاقوامی منشور کی دفعہ ۱۸ کے مطابق :
(۱) ہر شخص کو آزادئ خیال، ضمیر اور مذہب کی آزادی ہوگی، اس حق میں اپنی پسند کا مذہب یا عقیدہ اختیار کرنے یا اپنانے کی آزادی اور انفرادی طور پر یا دوسروں کے ساتھ شریک ہوکر یا سب کے سامنے یا نجی طور پر عبادت، عمل، ریاضت اور تعلیم میں اپنے مذہب یا عقیدے کو ظاہر کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔
(۲) کسی بھی شخص پر کوئی ایسا دباؤ نہیں ڈالا جائے گا جس سے اسے اپنی پسند کا مذہب یا عقیدہ اختیار کرنے یا اپنانے کی آزادی میں کمی آئے۔
(۳) مذہب یا عقیدے کے اظہار کی آزادی پر صرف ایسی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں جو قانون کے ذریعہ مقرر کی گئی ہوں اور جو حفظ عامہ، امن عامہ، صحت عامہ یا اخلاق یا دیگر لوگوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کی حفاظت کرنے کے لئے ضروری ہوں۔
(۴) اس منشور کی فریقین مملکتیں اس بات کا عہد کرتی ہیں کہ وہ والدین اور جہاں اس کا اطلاق ہو، وہاں قانونی ولیوں کی آزادی کا احترام کریں گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان بچوں کی مذہبی اور اخلاقی تعلیم، ان کے اپنے عقیدے کے مطابق ہو۔
اسی طرح مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر سبھی طرح کی عدم برادشت اور امتیاز کے خاتمے سے متعلق اعلامیہ یعنی Declaration on the Elimination of all forms of intolerance and of Discrimination based on Religion or Belief-1981 بھی ہر دنیا کے ہر انسان کو اپنی پسند کا مذہب چننے اور اس کی تشہیر کا پورا حق دیتا ہے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021