کیا صاف پینے کا پانی اور قلت آب کو انتخابی موضوع نہیں بننا چاہیے؟

بھارت دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت تیزی سے زیر زمین آبی زخائر کا استحصال کررہا ہے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

سال در سال صورتحال دگرگوں۔عوام کو جھوٹے نعروں کے فریب سے باہر نکلنے کی ضرورت
ہمارا ملک دریاؤں، سمندروں اور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے ۔ ہمارے ملک کی سرحدوں کے مغرب میں بحیرہ عرب ہے تو مشرق میں خلیج بنگال اور جنوب میں چنئی کے قریب ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر۔ ملک کے شمال میں ہمالیہ سے نکلنے والی ندیوں کا جال۔ مگر ہمارے ملک کے 485 شہروں میں سے محض46 میں پینے کے قابل صاف پانی میسر ہے۔ اس کے علاوہ شہروں کے ہر گھر میں واٹر پیوری فائر کا استعمال بھی بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ اب تو یہ لوگوں کی ضرورت بن گئی ہے جو نہیں خرید پاتے وہ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں پانچ سال کی عمر کے تین لاکھ سے زائد بچے ہیضہ (ڈائریا) سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ ڈائیریا اصلاً آلودہ پانی پینے سے ہی ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پانی کے سلسلے میں کچھ بیداری ضرور آئی ہے۔ ہر گھر میں نل سے جل جیسے منصوبوں کے اثرات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ نل سے جل (پانی) کی خالصیت (Purity) پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔
امریکہ دنیا کا امیر ترین اور معاشی طور سے طاقت ور ترین ملک ہے۔ وہاں کی تمام عالی شان ہوٹلوں میں غسل خانے کے پانی کو ہی پینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارا ملک وشو گرو ہوکر کب فخر سے کہہ پائے گا کہ ہمارے غسل خانے میں استعمال کیا جانے والا پانی برتنے کے قابل ہے؟ یاد رہے کہ ہمارے جملہ باز وزیر اعظم کے ذریعہ دس سال قبل دریائے گنگا کو خالص اور صاف بنانے والا نمامی گنگا پراجکٹ انتخابی موضوع بنایا گیا تھا۔ مگر اس پراجیکٹ پر اب کوئی بات نہیں کر رہا ہے۔ کوئی سوال نہیں کرتا کہ کروڑوں انسانوں کے عقیدے کی نشانی گنگا کا پانی اب تک خالص ہوکر برتنے کے قابل کیوں نہیں ہو پایا؟ اب ملک میں انتخابی ماحول گرم ہونے کو ہے۔ وزیر اعظم مودی چھوٹے چھوٹے مسائل پر نئے نئے نعرے بہترین لفاظی کے ذریعے عوام کے سامنے لا رہے ہیں لیکن نہ وہ خالص پانی پر بولتے ہیں نہ حزب مخالف پینے کے پانی کی قلّت اور آئندہ سالوں میں ملک کو درپیش آبی مصائب کا ذکر کرتا ہے۔
2020 کے ورلڈ وائڈ فنڈ کے ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلی کو کم کرنے اور حالات کو موافق بنانے کے لیے فوری اور مناسب اقدام نہ کیے جاتے ہیں تو دنیا بھر کے ایک سو شہروں کو 2050 تک سخت آبی مصائب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سے کروڑوں لوگوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ان 100 شہروں کی فہرست میں جکارتہ، جوہانسبرگ، استنبول، ہانگ کانگ، مکہ، ریوڈی جینیرو کے علاوہ بیجنگ کے ساتھ چین کے آدھے درجن شہر شامل ہیں۔ ہمارے ملک کے شہروں میں جے پور، پونے، امرتسر، اندور، کوزی کوڈ اور وشاکھاپٹنم کے ساتھ 30 شہروں کی شناخت ایسے شہروں کی شکل میں کی گئی ہے جہاں آئندہ چند دہائیوں میں بڑے پیمانے پر آبی مصائب کو جھیلنا پڑ سکتا ہے۔ آبی مصائب پر بین الاقوامی سطح پر کیے گئے ایک مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آبی ذخائر کے بڑھتے ہوئے استحصال کی وجہ سے 2040 سے 2080 کے درمیان زیر زمین پانی کے ذخیرے میں گراوٹ کی شرحیں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ اس تحقیق کا خلاصہ یکم ستمبر 2023 کے بین الاقوامی جنرل سائنس ایڈوائسیز میں شائع ہوا ہے۔
یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں ہمارا ملک دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی سے زیر زمین آبی ذخائر کا استحصال کر رہا ہے۔ ایک مطالعہ کے ڈیٹا سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں سالانہ 2030 کیوبک کیلو میٹر زمینی آبی ذخیرہ کو استعمال کیا جا رہا ہے جو عالمی زمینی آبی ذخیرے کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔ اس پانی کا استعمال زیادہ تر زراعت کے لیے ہو رہا ہے کیونکہ گیہوں، چاول اور مکئی کی فصلوں کی سیچنائی کے لیے ہمارا ملک بڑے پیمانے پر زمینی آبی ذخائر پر منحصر ہے مگر درجہ حرارت میں روز بروز اضافہ سے کھیت تیزی سے سوکھے کے زد میں آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ زمین میں نمی کو جذب کرنے کی صلاحیت بھی کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ملک کے زیر زمین آبی ذخائر سے کلی طور پر پانی نہیں مل رہا ہے۔ نتیجتاً سال در سال زیر زمین پانی کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرح کے حالات میں مزید اضافہ ہی ہوگا اور ایک تہائی لوگوں کی زندگی خطرے میں آجائے گی جس سے ملک کی غذائی سلامتی پر بھی اثر ہوگا۔
جہاں تک عالمی سطح پر فی کس تازہ پانی کی حصولیابی کا معاملہ ہے اس پر قومی آفت انتظامی ادارے (این آئی ڈی ایم) کی رپورٹ کے مطابق 2005 میں دنیا کی 35 فیصد آبادی شدید پانی کی قلت والے علاقے میں رہائش پذیر تھی۔ 2025 میں مزید 30 ممالک کو پانی کی قلت کا سامنا ہوگا اور دنیا کی دو تہائی آبادی آبی مصائب کا سامنا کرے گی۔ 2030 میں پانی کے موجودہ استعمال کے رجحان کے مطابق عالمی پانی کی ضروریات کا محض 60 فیصد ہی دستیاب ہوگا۔ جبکہ 2050 میں پانی کی طلب میں 65 فیصد کے اضافہ کا امکان ہے۔ پانچ میں سے ایک ترقی پذیر ملک کو پانی کی کمی درپیش رہے گی۔ ایسے قومی اور بین الاقوامی حالات کے مد نظر پانی کے تحفظ کے لیے بھی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔ ملک میں پانی کی دستیابی، تحفظ اور تقسیم کو متعین کرنے کے لیے حکومت نے کئی منصوبوں کی شروعات کی ہے۔ جنہیں ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر کامیاب بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ حکومت 2015-16 سے پردھان منتری کرشی سیچنائی یوجنا (پی ایم کے ایس وائی) کو نافذ کر رہی ہے جس کا مقصد کھیتوں میں پانی کی رسائی کو اور زیادہ بڑھانا ہے۔ جس سے سینچائی کے ضروری نظم کے ذریعہ زراعت کے قابل رقبوں کی وسعت، زراعت کے لیے پانی کے بہتر استعمال کی صلاحیت میں اصلاح اور مستقل آبی تحفظ کے روایات کو بحال کرنا وغیرہ پیش نظر ہے۔ اس کے علاوہ جل شکتی ابھیان (جے ایس اے) کے ذریعے جل شکتی منترالیہ 2019-2023، پانی کا تحفظ (CATCH THE RAIN) کا پروگرام تمام اضلاع میں (دیہی اور شہری) میں شروع کیا جائے گا۔ زیر زمین پانی کو بناوٹی طور پر جمع کرنے کا ماسٹر پلان تیار کیا گیا ہے، اس کے تحت 185 بلین کیوبک میٹر (بی سی ایم) مانسون کے بارش کے پانی کو اکٹھا کرنے کے لیے ملک میں تقریباً 1.42 کروڑ بارش کے پانی کو محفوظ کرکے مصنوعی (Artificial) جھیلیں تعمیر کا منصوبہ ہے۔ اس کے ساتھ تمام گھروں میں پانی کو جل جیون مشن کے تحت مرکزی حکومت اور ریاستوں کے تعاون سے اگست 2019 سے نافذ کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ 2024 تک ہر دیہی کنبہ کو نل جل کنکشن کے ذریعہ متعین خصوصیات کے ساتھ مناسب مقدار میں پینے کا پانی مسلسل اور زیادہ وقت تک کے لیے حصول یابی کو ممکن بنانا ہے۔
انتخابی میٹنگوں میں ہمارے سیاسی رہنما ملک کو تیسری سب سے بڑی معیشت بنانے کے دعوے کرتے ہیں، مگر اس معیشت سے عام لوگوں کی زندگی میں کیسے تبدیلی آئے گی؟ اس تعلق سے کسی طرح کی بات نہیں ہوتی۔ حزب مخالف، مفلسی، بدعنوانی، بے روزگاری، مہنگائی کی بات ضرور کرتی ہے مگر سنگھی لوگ اس پر خاموش ہیں۔ حکم راں جماعت بھی عام لوگوں کی تکلیف سے آنکھیں چرا لیتی ہے۔ ایسا ہی ایک مسئلہ تعلیم کا بھی ہے۔ آزاد بھارت میں تعلیم کے فروغ سے کسی کو انکار نہیں ہے مگر تعلیم کے شعبے میں گھٹیا سطح قابل تشویش ہے۔ رپورٹ کے مطابق پانچویں جماعت کا طالب علم تیسری جماعت کی کتاب بھی نہیں پڑھ سکتا۔ آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے بڑے تعلیمی اداروں کے بارے میں جھوٹے سچے اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں مگر بنیادی تعلیم کی بہتری پر کوئی بات نہیں کرتا۔ یہی حال شعبہ صحت ودیگر فلاحی اداروں کا ہے۔ انتخابات کے پیش نظر بڑے بڑے گیارنٹیوں کی بھرمار ہی سے لوگوں کا پیٹ بھرا جاتا ہے۔ کوئی ان جھوٹے سیاست دانوں سے پوچھے کہ ہمارے بچوں کو روزگار کب ملے گا؟ مہنگائی کب کم ہوگی؟ پرائمری اسکولوں میں لائق استاد کب دستیاب ہوں گے؟ ہمارے نل میں صاف پانی کب آئے گا؟ ان سوالات کا جواب عوام کو ایسے نام نہاد رہنماوں سے مانگنا ہوگا۔

 

***

 ہمارے ملک کے شہروں میں جے پور، پونے، امرتسر، اندور، کوزی کوڈ اور وشاکھاپٹنم کے ساتھ 30شہروں کی شناخت ایسے شہروں کی شکل میں کی گئی ہے جہاں آئندہ چند دہائیوں میں بڑے پیمانے پرآبی مصائب کو جھیلنا پڑسکتا ہے۔ آبی مصائب پر بین الاقوامی سطح پر کیے گئے ایک مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آبی ذخائر کے بڑھتے ہوئے استحصال کی وجہ سے 2040سے 2080کے درمیان زیر زمین پانی کے ذخیرے میں گراوٹ کی شرحیں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 مارچ تا 06 اپریل 2024