کیا دلتوں کا جھکاؤ ہندتوا کی طرف ہے؟

فرقہ پرستوں کی منظم سازش :’معصوم لوگوں کو گم راہ کرو اور سیاسی فائدے اٹھاؤ‘

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

عمومی طور پر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ دلتوں کی اکثریت کا جھکاؤ ہندتوا کی طرف زیادہ ہے، وہ اپنے آپ کو ہندتوادی گروپوں میں شامل کرنے کو زیادہ پسند کرتے ہیں لیکن حقیقت قدرے مختلف ہے۔ مسلمانوں میں یہ ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ملک میں بنیادی طور پر صرف چار مذہبی اکائیاں ہیں، ان چاروں اکائیوں کو غیر شعوری طور پر بچپن ہی سے ہمارے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی یعنی ایک مذہبی اکائی ہے سکھوں کی، دوسری ہے عیسائیوں کی، تیسری ہے مسلمانوں کی اور باقی ساری آبادی ہندو ہے، ہم یہی سمجھتے بھی ہیں، اسی نقطۂ نظر کو آر ایس ایس اور ہندتوادی نظریات کے حامل پیش بھی کرتے رہتے ہیں، تب ہی تو اسی فیصد بنام بیس فیصد کے دعوے کرتے ہیں۔
آر ایس ایس کے بانیوں کا نظریہ یہی تھا کہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے یہاں صرف ہندوؤں کو رہنا چاہیے، دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ اسی نظریے پر وہ شروع سے کام کرتے رہےہیں، اسی نظریے کو عوام کے اندر کمال عیاری کے ساتھ پہنچایا بھی گیا اور بے چارے مسلمان بھی اسی کو صحیح سمجھنے بھی لگے۔ یہ تین مذہبی اقلیتوں کے علاوہ جو آبادی ہے وہ ساری ہندو آبادی ہے۔ ننانوے فیصد مسلمان بھائی دلتوں کو ہندو ہی سمجھتے ہیں، کیونکہ دلت ایک الگ قوم ہے اس کا تصور کرنا بھی محال لگتاہے۔
مسلم قوم کی اس سوچ کے پس پردہ ان کی ظاہری مذہبی رسومات ہیں جو ہندو رسومات ہی کی طرح نظر آتی ہیں۔ شادی بیاہ اور دیگر جو رسومات دلت ادا کرتے ہیں وہ ہندو مذہب سے مماثلت رکھتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو ہندو دھرم ہے اس میں تو ان دلتوں کا کوئی مقام ہی نہیں ہے، منو واد میں ان کا کوئی ذکر سرے سے ہے ہی نہیں، منو میں جو چار طبقوں کا ذکر ہے برہمن، شتری، ویش اور شودر اس میں دلت ہیں ہی نہیں۔ ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ یہ شودر ہیں حالانکہ شودر یعنی او بی سی یا بیک ورڈ کلاسیس کو کہا جاتا ہے، جیسے سنار، کمار، کرمی، دھوبی، نائی، لوہار، درزی وغیرہ جو سیکڑوں ذاتوں پر مشتمل ہیں، ان کو شودر مانا جاتا ہے، جنہیں ’ایس سی یعنی شیڈول کاسٹس‘ کہتے ہیں وہ شودر میں شامل نہیں ہیں۔ منواسمرتی کے مطابق ان کو انسان ہی نہیں مانا جاتا۔ یہ منو وادی ان بے چارے دلتوں پر ہزاروں سال سے ظلم ڈھاتے آ رہے ہیں۔ یہ ایک لمبی تاریخ ہے اسے ہم کو ہر پہلو سے پڑھنے کی ضرورت ہے اور سماج کے اس بڑے طبقے کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ سرِ دست ان دلتوں بھائیوں کو مسلمانوں کے خلاف ہندتوادی کس طرح استعمال کر رہے ہیں یہ جاننا زیادہ اہم ہے۔
کئی دہائیوں سے دلت طبقہ ہندو قوم پرست گروپوں کا نرم چارہ یا لقمہ تر بنا ہوا ہے، اس ہندو قوم پرستی کی قیادت آر ایس ایس اور اس سے ملحقہ متعدد تنظیمیں کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ تحریک تمام کو ہندوؤں میں شمار کرتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ دلت بھی ہمارے ہندو بھائی ہیں، لیکن اس کی اونچی ذات والے دلتوں کو سماجی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی مساوات دینے کے یکسر مخالف ہیں، وہ انہیں برابر سمجھتے ہی نہیں ہیں بلکہ یہ انہیں اچھوت سمجھتے ہیں۔ لیکن آر ایس ایس، اس کا سیاسی بازو بی جے پی اور ان کے اتحادی اس طبقے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے قریب رکھتے ہیں، ان کو قریب کرنے کے لیے ان کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہیں، مسلمانوں کو ان کا دشمن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ہندو قوم پرستوں کا ایجنڈا کچھ اس انداز میں تیار کیا گیا ہے کہ غیر محسوس طریقے سے اس مذہبی اقلیت پر غلبہ حاصل ہوجائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مقام پر دلتوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، اس بارے میں جب دلتوں سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی مسلمان تمہارے دشمن ہیں؟ تو ان کے جوابات جاننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں پر یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کس طرح سنگھ کا ایجنڈا کام کرتا ہے۔
1980 کی دہائی میں رام جنم بھومی مہم شروع ہوئی، یہ مہم بابری مسجد کے خلاف شروع ہوئی۔ بیانیہ یہ بنایا گیا کہ اس مسجد کو مندر توڑ کر بنایا گیا، مندر کو مغل بادشاہ بابر نے تڑوایا اور اس کی جگہ بابری مسجد بنائی۔ مسجد ایک ایسی مندر پر تعمیر کی گئی جو ان کے عقیدے کے مطابق رام کی جائے پیدائش تھی، یہ پورا مطالبہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات کی عکاسی کرتا ہے، اور مسجد تو مسلمانوں کے لیے توحید کی علامت ہے۔ اس پورے بیانیے کو ہندو بنام مسلم بنا دیا گیا، جس پر دلتوں نے مکمل یقین کرلیا، ان میں سے اکثر رام مندر کی تعمیر کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین نے اس کی افتتاحی تقریبات میں شرکت کی اور اپنے گھروں میں 22 جنوری کو وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق دیے روشن کیے۔ گو کہ بعض دلت خواتین نے رام مندر کی مخالفت بھی کی لیکن اکثر اس کی تائید میں نظر آئیں۔
جب یہ پوچھا گیا کہ گائے کشی کیسا ہے؟ رام مندر کی تعمیر میں تو بعض نے مخالفت کی لیکن گائے کشی کے معاملے میں سو فیصد گاؤ کشی کے خلاف تھے، ان کا کہنا تھا کہ مسلمان گائے کو مارتا ہے اور اسے کھاتا ہے، جب کہ گائے ہمارے لیے مقدس ہے، گاؤ ہتھیا کو بند ہونا چاہیے۔
جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے والے دستور کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنا ہندو قوم پرستوں کا ایک اور دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ اسے ملک کی سالمیت کو محفوظ بنانے کے ایک نمایاں اقدام کے طور پر پیش کیا گیا، یہ ہوَّا کھڑا کیا گیا کہ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کی خود مختاری ختم کردی گئی ہے۔ بی جے پی حکومت کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے والے فیصلے سے واقف تمام دلتوں نے بغیر کسی تحفظ کے اس کی تعریف کی۔ انہیں غلط معلومات فراہم کی گئیں اور یہ کہا گیا کہ بھارت نے اس اقدام کے ذریعے کشمیر کا کنٹرول پاکستان سے واپس لے لیا ہے۔ کسی نے کہا کہ 2019 کے بعد سے اس ریاست میں شورش ختم ہوگئی ہے، کسی نے کہا کہ باقی ملک کے لوگ بھی اب کشمیر کے پھلوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور وہاں سفر کرسکتے ہیں۔ یہ دلت طبقے کے خیالات تھے۔ دراصل یہ وہ سوالات ہیں جن کا ان کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، مثلاً مندر بننے سے ان کا کیا تعلق ہے جب کہ ان کو اس کے اندر جانے کی اجازت ہی نہیں ہےم اسی طرح گاؤ کشی سے کیا تعلق ہے، الٹا چھٹے سانڈوں نے تو کسانوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ اور آرٹیکل 370 سے ان کا کیا تعلق؟ کیا ان معاملات سے ان کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثر پڑا ہے؟ جواب نفی میں ہوگا۔ یہ سوالات آرایس ایس، بھاجپا یا ہندتوادی گروپوں کے ہیں، ان کی سیاست انہی سے چلتی ہے، ان کے ہونے سے نہ دلتوں کی سماجی حیثیت میں کوئی تبدیلی آئے گی اور نہ ہی ان کی زندگی معاشی طور پر بہتر ہوگی۔ لیکن بہر حال ہندتوادی گروپوں نے اسے ان کی زندگی کا سب سے اہم معاملہ بنا کر پیش کیا ہے۔
جب ان سے ہندو قوم پرست ایشوز سے ہٹ کر مسلم دشمنی کے متعلق یا مسلمانوں کے ذریعے کسی تعصب آمیز رویے کے اظہار سے متعلق پوچھا گیا تو جواب ملا کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کے تعصب کا اظہار نہیں کیا۔ اور جب ان سے فرقہ وارانہ کشیدگی اور ان کی دیش بھکتی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ نام نہاد اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ذریعہ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے، جس کی انہوں نے مثالیں بھی پیش کیں، لیکن مسلمانوں کے ذریعہ کبھی بھی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔ یہ خیالات ان دلتوں کے بھی تھے، جو اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں اور ہندو ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
دلتوں میں مسلمانوں کے تئیں تھوڑی ہی سہی رواداری پائی جاتی ہے جس کا مظاہرہ بھی جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگرچہ کہ وہ آرٹیکل 370 کی منسوخی، گائے کے ذبیحہ پر پابندی اور رام مندر کی تعمیر کی وجہ سے بھاجپا کی تعریف کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ بی جے پی حکومت کی ملازمتوں کی عدم فراہمی، معیاری تعلیم کی عدم دستیابی یا مہنگائی سے نجات دلانے میں ناکامی پر سخت نالاں نظر آتے ہیں اور سماجی حیثیت میں عدم برابری کا شکوہ بھی کرتے ہیں، ان معاملات میں بھاجپا کا ہندتوا ایجنڈا ناکام ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھاجپا کی ان مادی ناکامیوں نے اپوزیشن پارٹیوں کو یہ موقع دیا کہ دلت طبقے کو اپنی طرف متوجہ کریں، اس طبقے کو اپنی طرف راغب کرنے میں بے روزگاری، مہنگائی معیاری تعلیم، ناقص صحت اور عدم مساوات جیسے مسائل کام آئے، جس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بی جے پی، یو پی میں اس طبقے کے صرف 26 فیصد ووٹ ہی حاصل کر پائی۔ اگر مستقبل میں بی جے پی حکومت دلتوں کی ان مادی ضروریات کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کو انتخابی منافع حاصل ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ وہیں دلت طبقے کو بی جے پی سے دور رکھنے کے لیے، سیکولر پارٹیوں کو ہندو قوم پرستی یا ہندتوا پر ایک اعلانیہ اور واضح موقف اختیار کرنا ضروری ہے ورنہ صورت حال پھر وہی ہوگی جو سابق میں ہوئی تھی، لیکن بدقسمتی سے فی الحال ان سیکولر پارٹیوں میں اس کا فقدان نظر آتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024