نور اللہ جاوید، کولکاتا
فرقہ پرستی کے خلاف اب بھی طویل جنگ باقی ہے
لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے ساتھ ہی منظر نامہ صاف ہوگیا ہے۔ یہ انتخابی نتائج مایوسی، گھٹن، آمریت، فرقہ پرستی اور مسلمانوں کو مطعون کرنے والی سیاست کا خاتمہ ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ خود ساختہ خدائی اور خود کے ناقابل تسخیر طاقت ہونے کے گھمنڈ کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ آج یہ بحث بیکار ہوگئی ہے کہ ملک میں کونسی جماعت اقتدار میں آئے گی اور کون وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوگا۔ یہ اس لیے ہے کہ کیوں کہ آج ایک ایسے شخص کا غرور خاک میں مل گیا ہے جو ملک اور عوام سے بڑا ہوگیا تھا۔ اس کو گمان ہوگیا تھا کہ وہ جو کہے گا وہی حرف آخر ہوگا۔ اگر وہ جھوٹ بولے گا تو ملک کے عوام سچ مان لیں گے۔ آج بھارت کے عوام نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اس اعتبار سے اس نتیجے نے بھارت کی سیاست کو ایک نئے رخ کی طرف موڑ دیا ہے ۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مائیکرو سطح پر انتخابی نتائج کا تجزیہ کیا جائے اور اس میں چھپے ہوئے پیغام کو سمجھا جائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اہم ہوگیا ہے کہ اس پورے سیاسی منظر نامے میں ملک کی اقلیت بالخصوص مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اگر اترپردیش سے بنگال تک انتخابات کا تجزیہ کیا جائے تو بی جے پی کی شکست میں اہم کردار مسلم ووٹروں کی سیاسی بصیرت کا ہی رہا ہے۔ مسلمانوں نے اپنی نمائندگی کے سوال کو نظر انداز کردیا اور پوری قوت کے ساتھ فرقہ پرست قوتوں کو شکست دینے کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بن گئے۔
اگلے چند دنوں میں واضح ہوگا کہ ملک کا وزیر اعظم کون ہوگا؟ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ چند دن قبل تک یہ سوال بے معنی تھا۔ سبھوں کو یقین تھا کہ مودی ہی ملک کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے مگر آج این ڈی اے کو واضح اکثریت ملنے کے بعد بھی ہم وزیر اعظم کے نام پر غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہیں تو اس کے پیچھے بی جے پی کی گروپ بندی اور آر ایس ایس کے مستقبل کی فکر مندی ہے۔ بی جے پی کی سرپرست آر ایس ایس نے اشارہ دے دیا ہے کہ بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ کی خفیہ رائے لی جائے گی اور اس کے بعد وزیر اعظم کا انتخاب کیا جائے گا۔ آر ایس ایس کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ نریندر مودی کی جادوئی شخصیت کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ اگر اس نے ایک بار پھر ان پر بھروسا کیا تو اس کی مقبولیت اور عوام کے رجحانات متاثر ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سارے اندازے، قیاس آرائیاں، دعوے اور نیوز چینلوں کے دھما چوکڑیاں ناکام کیوں ہو گئیں۔ رام مندر کی سیاست کے مقابلے میں سماجی انصاف کی تحریک کامیاب کیوں ہوئی؟ خوف کی سیاست پر امن اور محبت کی دکان کیسے فاتح ہوگئی؟ اگرچہ چند ریاستوں میں انڈیا اتحاد کو ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اور چند ریاستوں میں امیدوں کے مطابق کانگریس نے بہتر کارکردگی نہیں دکھائی اس کے باوجود ملک کی سب سے بڑی ریاست جہاں سے مودی نے 2014 میں مقبولیت کے عروج کا سفر شروع کیا تھا آخر اسی ریاست میں مودی کے اس سفر پر بریک کیوں لگ گیا؟ ایک طرف دس لاکھ ووٹوں سے جیت کی پیش گوئی کی جارہی تھی لیکن حالت یہ ہو گئی کہ مودی اپنی ہی سیٹ پر جیت حاصل کرنے کے لیے جدو جہد کرتے ہوئے نظر آئے۔
ان سوالوں پر مہینوں بحث ہوتی رہے گی مگر اترپردیش، ہریانہ، راجستھان، پنجاب، تمل ناڈو، کیرالا اور مغربی بنگال کے عوام کا واضح پیغام ہے کہ اس ملک میں فرقہ پرستی کی سیاست زیادہ دنوں تک نہیں چلے گی۔ بنگال اور اتر پردیش میں بی جے پی مسلسل مذہب کی بنیاد پر ووٹروں کی صف بندی کی کوشش میں سرگرداں رہی۔ یوگی آدتیہ ناتھ خوف و دہشت کی علامت بن کر ابھر رہے تھے اور اس کو وہ اپنی طاقت کے طور پر پیش کررہے تھے اور اپنے اس ماڈل کو پنجاب میں پیش کر رہے تھے۔ ملک کی دوسری ریاستوں میں نافذ کرنے کی بات کر رہے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ مسلمان بھول جائیں گے کہ اذان کیا ہوتی ہے؟ نفرت کی اس سیاست کے مقابلے میں اکھلیش یادو اور راہل گاندھی سماج واد، حقوق، آئین کے تحفظ اور دیگر عوامی مسائل بلند کر رہے تھے اس لیے فیض آباد کی وہ سیٹ جہاں اجودھیا ہے اس کو ملک کی سیاست کا مرکزی نقطہ بنایا جا رہا تھا مگر وہاں کے عوام نے سماجی حقوق، یکساں مواقع اور آئین کے نام پر ووٹ دے کر بی جے پی کو واضح پیغام دیا ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان سے بڑھ کر کوئی اور سیاست نہیں ہوسکتی ہے۔
جمہوریت میں لیڈر عوام کے ذریعہ منتخب ہوتا ہے، عوام کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ مگر مودی نے اپنی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ عام انسان نہیں ہیں بلکہ عجیب الخلقت ہیں۔ خدا کی طرف سے اس ملک میں بھیجے گئے ہیں ۔مودی کے اس بیان کو سگرچہ میڈیا الگ انداز سے پیش کر رہا تھا مگر مودی کا واضح پیغام تھا کہ وہ ملک کے عوام کو جواب دہ نہیں ہیں۔ چوں کہ وہ خدا کے فرستادہ ہیں تو جواب دہی بھی بھگوان کے پاس ہی ہوگی۔ اگر مودی کی انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقریروں اور پھر اس آخری بیان کو جوڑ کر دیکھا جائے تو وہ یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اس ملک سے اقلیتوں کا خاتمہ، نئی آئین سازی اور ملک کے تنوع کا قلع قمع کرنے کے لیے آئے ہیں۔ مگر ملک کے عوام نے مودی کو بتا دیا کہ وہ محض ایک سیاست داں ہیں اور کچھ نہیں۔ چنانچہ عوام نے ان کے قد کو ہی گھٹا دیا ہے۔
یہ نتائج کئی جہتوں سے بھارت کی سیاست میں تبدیلیوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مودی اپوزیشن کے خاتمے کے مشن پر گامزن تھے۔ گزشتہ چند مہینوں میں انہوں نے اپوزیشن کو ختم کرنے کے لیے ایجنسیوں کا بے دریغ استعمال کیا۔ملک کے دو وزرائے اعلیٰ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا۔انڈیا اتحاد کے اتحادیوں کو خوفزدہ کرکے اپنے اتحاد میں شامل ہونے پر مجبور کیا ۔مگر الٹا اس نتیجے نے سیاسی جماعتوں کے درمیان تواز ن کو بحال کردیا ہے۔اگر مودی وزیر اعظم بن بھی جاتے ہیں تو انہیں جنتا دل یو، اور تلگو دیشم کی منت وسماجت جاری رکھنا پڑے گا۔ کیا کسی نے یہ تصور کیا ہوگا کہ انہیں رام ولاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان کو فون کرنا پڑے گا یا پھر ایک سیٹ جیتنے والی اپنا دل، بیجو جنتا دل، ہم پارٹی کی منت وسماجت کرنی پڑے گی اور وہ بھی پانچ سالوں تک کرنی پڑے گی؟ بھارت کی سیاست پر بی جے پی کا تسلط قائم ہو گیا تھا۔اس کی وجہ سے مخالفین کی سیاست کا خاتمہ ہوگیا تھا۔بی جے پی ملک کی نوآبادیات میں تبدیل ہوگئی تھی مگر اس نتیجے نے ایک بار پھر مسابقتی سیاسی نظام کو واپس لا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چیک اینڈ بیلنس اور احتساب کے امکان کو بھی روشن کر دیا ہے۔ یقیناً یہ توازن، بی جے پی کے تسلط کا خاتمہ اور سیول سوسائٹی کو نگلنے کی کوشش کی ناکامی کسی معجزانہ طور پر ظہور پذیر نہیں ہوئی ہے بلکہ انڈیا اتحاد بالخصوص راہل گاندھی کی یکسوئی اور جدوجہد کا نتیجہ ہے ۔
مرکزی ایجنسیوں بالخصوص الیکشن کمیشن (جس کی کارکردگی پر ہفت روزہ دعوت کے انہی صفحات میں تفصیل سے ذکر آچکا ہے) اور بھارت کے قومی دھارے کے میڈیا نے جو طریقہ کار اختیار کیا تھا وہ ایک طریقے سے بھارت کی جمہوریت کا مذاق تھا۔ انتخابات میں اگر تمام سیاسی جماعتوں کو برابر کے مواقع نہیں ملیں گے اور ان کے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں برتا جائے گا تو وہ انتخاب نہیں بلکہ مذاق ہی کہا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے اس پور ے انتخابی عمل کو مذاق بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی اس کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے جو استقامت کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف اور لائق تحسین ہے۔ جس طریقے سے راہل گاندھی اور اکھلیش یادو نے اتر پردیش میں باہمی تعاون، اتحاد اور یکجہتی کی مثال قائم کی اگر اسی تجربے کو بہار، بنگال، آندھرا پردیش اور آسام میں دہرایا جاتا تو بی جے پی اقتدار کے قریب تو دور منظر نامے سے ہی غائب ہوسکتی تھی
سوال یہ ہے کہ ان انتخابات کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
مشہور سیاسی مفکر پرتاب بھانو مہتا کہتے ہیں کہ لوک سبھا انتخاب جزوی طور پر جمہوریت کے تحفظ، ادارہ جاتی تنزلی اور آئین کو درپیش خطرات کے موضوع پر اپوزیشن نے لڑا تھا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان انتخاب کے نتائج ایک سے زائد متوازن سیاست ادارہ جاتی تخلیق نو کے امکان کی اجازت دیتے ہیں۔ سیاسی مقابلہ آرائی باقی رہتی ہے تو آزاد ادارے اور سیول سوسائٹیاں بھی اپنے آپ کو زیادہ با اختیار محسوس کرتی ہیں۔
بی جے پی کو اتر پردیش میں نصف سے زائد سیٹوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی وجہ سے بی جے پی میں اندرونی تصادم اور اختلافات کے امکانات کھل جائیں گے۔ بی جے پی کو اب خود ایک مذاکراتی ادارہ بننا پڑے گا۔ اہم سوال یہ ہے کہ نریندر مودی جو پارٹی اور ملک سے اوپر اٹھ گئے تھے، کیا وہ ان مذاکرات کے لیے تیار ہیں؟ پرتاب بھانو مہتا کہتے ہیں کہ ہم نے 1989 سے 2014 کے درمیان اتحاد سازی اور اتفاق رائے کی سیاست دیکھی تھی۔2014 کے بعد اس سیاست کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اتحادی حکومت تو تھی مگر بی جے پی کا تسلط تھا اس لیے بڑے بڑے اقدامات کے لیے اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی تھی بلکہ یک طرفہ فیصلے کیے جا رہے تھے۔ اس انتخاب نے اس سیاست کو دوبارہ واپس لا دیا ہے۔ بی جے پی نے ہندتو کی سیاست کے ذریعہ سماجی انصاف کی جدوجہد کی سیاست کے معانی کو ہی تبدیل کر دیا تھا، اقلیتی ووٹوں کو غیر متعلق بنادیا گیا تھا۔چنانچہ 2014 کے بعد او بی سی اور دلتوں کی فلاح و بہود کا ایجنڈا غائب ہو گیا تھا۔ ان انتخابات سے ہندوستانی سیاست کے سماجی تخیل کی تشکیل نو ہوئی ہے۔ لیکن یہ حکمت عملی اب اپنا راستہ اپنا چکی ہے۔ اس بات کے کچھ ثبوت موجود ہیں کہ دلت بی جے پی سے دور ہو گئے ہیں اور ناممکن طور پر انڈیا اتحاد میں چلے گئے ہیں۔ اقلیتوں کو آخر کار کانگریس اور ایس پی میں کافی پختگی مل گئی ہے۔
بی جے پی اور مودی معاشی اصلاحات کو اپنی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرتے تھے، وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ معاشی اصلاحات اسی وقت ممکن ہیں جب ان کی طاقت مضبوط ہوگی، اگرچہ یہ دعوے حقائق کے برخلاف تھے۔1991 سے 2014 تک جن حکومتوں نے اصلاحات لائی ہیں وہ کمزور اور اتحادیوں پر بھروسا کرنے والی حکومتیں ہی تھیں۔ منموہن سنگھ نے 1991 میں بھارت میں معیشت کے سلسلے میں سب سے بڑے اصلاحات کیے تھے تو اس وقت نرسمہا راؤ کی حکومت اقلیت میں تھی۔اتحادیوں پر انحصار تھا مگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ اتفاق سازی کے ذریعہ منڈی سے حکومت کا کنٹرول ختم کر دیا گیا جس کے نتیجے میں بھارت میں سرمایہ کاری کے دروازے کھلےتھے۔ اسی طرح دیوے گوڑا کے دور حکومت میں پی چدمبرم نے ٹیکس اصلاحات نافذ کیے۔ دیوے گوڑا مخلوط حکومت کے سربراہ تھے۔ واجپائی حکومت نے سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے نج کاری کی کوشش کی تو وہ بھی مخلوط حکومت کے سربراہ تھے۔ یو پی اے دور میں منریگا، لازمی حق تعلیم، رائٹ ٹو انفارمیشن جیسی اصلاحات نافذ کی گئی تھیں تو وہ بھی اتفاق سازی کے ذریعہ بنی تھیں۔ مگر مودی نے اصلاحات کو طاقت کے ذریعہ لانے کی کوشش کی اس لیے ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔اراضی اصلاحات بل واپس لینے پڑے۔ راہل گاندھی نے سوٹ بوٹ کی سرکار بول کر مجبور کر دیا۔ زرعی اصلاحات کے نام پر جو بل لائے گئے تھے ان کو واپس لینا پڑا۔ نوٹ بندی جیسی اصلاحات بھارت کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ دراصل مودی نے معاشی اصلاحات کے لیے اتفاق سازی اور عوامی رائے کی اہمت کو ختم کر دیا تھا۔ ایک طرف وہ بڑے بڑے سیٹھوں کے قرضے معاف کر رہے تھے تو دوسری طرف درمیانہ درجے کی صنعتیں سخت قوانین اور جانچ ایجنسیوں کے جبر سے پریشان ہوگئی تھیں۔کانگریس نے اس حقیقت کا ادارک کئی دہائی قبل کرلیا تھا کہ صرف صنعت کاری پر توجہ دینے سے ملک ترقی نہیں کر سکتا، اس کے لیے ضروری ہے کہ عوامی فلاح و بہبود اور عوامی معیشت کو بہتر کرنے پر زور دیا جائے۔ اس حقیقت کو مودی سمجھنے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں معاشی عدم تفاوت کے سوال کو انہوں نے مذاق بنا دیا۔انہوں نے الٹا صحافی سے ہی سوال کر دیا کہ کیا ملک کے تمام افراد کو غریب بنا دیا جائے؟ معاشی عدم توازن کا سوال کا تعلق غربت اور امیری سے نہیں ہے بلکہ سوال ملک کی معیشت کو چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کے نقصانات کا تھا۔ المیہ یہ تھا کہ معاشی عدم تفاوت کی وجہ سے عام شہریوں کو درپیش مسائل و مشکلات کو سمجھے بغیر مودی نے اس سوال کو ہندو خواتین کے منگل سوتر سے جوڑ دیا۔
بی جے پی کے 272 کے جادوئی ہندسے تک نہ پہنچنے کا دعویٰ چہ معنیٰ دارد؟۔
اس کے جواب میں سیاسی تجزیہ نگار اور سماجی کارکن یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ میرے لیے اہم مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پردھان منتری کون بنے گا؟ اصل مسئلہ مینڈیٹ کا پیغام ہے۔ 400 پار کے ہائپ کے تناظر میں، پیسے اور میڈیا پر بی جے پی کی گرفت اور الیکشن کمیشن جیسے اداروں کی ریڑھ کی ہڈی کی کمزوری ہے۔ 400 کے پار کا دعوی کرنا اور 300 سے نیچے اتر آنا حکومت کی اخلاقی شکست ہے۔ وہ مزید جنا دیش (مینڈیٹ) کا دعویٰ نہیں کر سکیں گے۔ ممکن ہے کہ مودی ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں مگر حکومت نے اپنا اقبال کھو دیا ہے۔ یہ وزیر اعظم کے لیے ذاتی شکست ہے۔
2014 اور 2019 کے برعکس، روزمرہ کے مسائل اور روزی روٹی کے خدشات کو مزید ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہر کوئی مہنگائی، بے روزگاری، عوامی خدمات کی حالت، کسانوں کی حالت زار اور مزدوروں کی جدوجہد کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ ہاں، ان میں سے بہت سے لوگ اب بھی یہ مانتے ہیں کہ مودی نے دنیا میں ملک کا مقام بلند کیا ہے، وہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی حمایت کرتے ہیں اور رام مندر کا سہرا حکومت کو دیتے ہیں، لیکن یہ تحفظات روزمرہ کے مقامی مسائل پر نہیں اترتے۔ ووٹر اپنے نمائندوں سے جواب دہی کا مطالبہ کرتے ہیں اور امیدواروں کی ذات، برادری اور علاقے کو نوٹ کرتے ہیں۔ یہ تحفظات ہمیشہ بی جے پی کے خلاف کام نہیں کرتے تھے۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ جمہوری سیاست کے یہ کوٹیڈین معمولات جمہوریت کا بہتر دفاع ہیں۔
وزیر اعظم مودی یقیناً جزوی طور پر کمزور ہوئے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمام خدشات جن کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ ختم ہوگئے ہیں۔ فرقہ پرستی اور ہندتو کے نام پر ہندوؤں کو شدت پسند اور جنونی بنانے کی جو کوششیں کی گئی ہیں وہ آسانی سے ختم نہیں ہوں گی۔ یہ انتخاب اس بات کا ثبوت ہے کہ طاقت کا ارتکاز ہندوستان کے لیے کوئی علاج نہیں ہے۔ راہل گاندھی کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں شاید اس کا احساس انہیں ہوگا۔ انہیں ابھی منزل نہیں ملی ہے اگر وہ محبت کی دکان کو آگے بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے آپ کو کانگریس کے دفتر اور چند سیاسی تجزیہ نگاروں کے درمیان محصور رکھنے کے بجائے عوام کے درمیان سفر کرنے کے سلسلے کو باقی رکھنا ہوگا۔
اسدالدین اویسی اگرچہ کامیاب ہوگئے ہیں مگر ان کی جماعت کو مہاراشٹر، بہار میں جھٹکا لگا ہے۔ بہار میں راشٹریہ جنتا دل بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی ہے تو اس کے پیچھے مسلم ووٹوں میں ناراضگی اور یادو وٹووں کا مفاد اور موقع پرستی بھی شامل ہے۔اس انتخاب کا پیغام اویسی اور اجمل جیسے سیاست دانوں کے لیے بھی ہے کہ انہیں علیحدگی پسندی کی سیاست کرنے کے بجائے قومی دھارے کی سیاست کا حصہ بننا پڑے گا ۔ ان کے خلاف جو بیانیہ بنایا گیا ہے اس کے خاتمے کے لیے انہیں کوشش کرنی ہو گی اور آر جے ڈی اور دیگر سیکولر جماعت کے لیے یہ ایک سبق ہے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندگی کے سوال کو زیادہ دنوں تک نظر انداز نہیں کر سکتے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024