عدالت نے عمر خالد اور خالد سیفی کو ہتھکڑیوں میں عدالت میں پیش کرنے کی درخواست مسترد کر دی، درخواست کو غیر ضروری اور ’’اہلیت سے عاری‘‘ قرار دیا

نئی دہلی، جون 7: دہلی کی ایک عدالت نے عمر خالد اور خالد سیفی کو اس بنیاد پر کہ وہ ’’اعلیٰ خطرہ والے قیدی ہیں‘‘، ہتھکڑیوں میں پیش کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’گینگسٹر نہیں ہیں۔‘‘ خالد اور سیفی گذشتہ سال فروری میں دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق مقدمات کے سلسلے میں جیل میں ہیں۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ملزمان پرانے مجرم یا ’’گینگسٹر‘‘ نہیں تھے۔ ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے کہا ’’ایسا لگتا ہے کہ یہ درخواستیں مکینیکل طریقے سے دائر کی گئی ہیں اور دہلی پولیس اور جیل اتھارٹی کے اعلی عہدیداروں نے سوچے سمجھے بغیر دائر کی ہیں۔‘‘

جج نے یہ بھی کہا کہ اس وقت اس التجا کی ضرورت بھی نہیں تھی کیوں کہ کووڈ 19 وبائی بیماری کے باعث ملزمان کو جسمانی طور پر عدالت میں پیش نہیں کیا جارہا ہے۔

22 اپریل کو آخری سماعت میں عدالت نے اس درخواست پر دہلی پولیس کے خصوصی سیل اور جیل سپرنٹنڈنٹ سے رپورٹ طلب کی تھی۔

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر آف پولیس (خصوصی سیل) نے 6 مئی کو دائر اپنے جواب میں کہا ہے کہ ملزموں کو ہتھکڑیوں میں پیش کرنے کے لیے ایسی کوئی درخواست کسی عدالت یا دیگر اتھارٹی کے سامنے دائر نہیں کی گئی تھی۔

تاہم تیسری بٹالین کے ڈپٹی پولیس کمشنر نے 26 اپریل کو کہا کہ مسلح حملہ آوروں کے ذریعے جی ٹی بی ہسپتال میں ایک زیر سماعت قیدی کو رہا کرنے کی کوشش کے بعد پولیس نے خالد اور سیفی کو ہتھکڑیوں میں عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولیس افسر نے بتایا کہ وہ ان خطرات سے دوچار قیدیوں کے لیے اس کی اجازت چاہتے ہیں جن کے فرار ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

ان گذارشات کے بارے میں جاننے کے بعد عدالت نے کہا کہ ان جوابات سے پتہ چلتا ہے کہ درخواستیں ’’اہلیت سے عاری‘‘ تھیں۔ عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ’’دہلی جیل کے قواعد قیدیوں کو ہتھکڑیاں لگانے اور ان کو باندھنے کے بارے میں خاموش ہیں۔‘‘