خبر و نظر
پرواز رحمانی
جوش اور ہوش
اس بار لوک سبھا کے انتخابات سات مرحلوں میں ہورہے ہیں۔ یہ فیصلہ حکومت وقت کا ہے۔ بڑے انتخابات حکومت ہی کی مرضی اور سہولت کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ہر حکومت اس میں اپنی جیت کے آثار دیکھتی ہے۔ کہیں کم کہیں زیادہ۔ اس حکومت نے کچھ زیادہ ہی سہولتیں دیکھی ہیں۔ ایک سال پہلے تک تو پورے اعتماد کے ساتھ کہا جارہا تھا کہ مودی کو کوئی نہیں ہراسکتا۔ ان کے مقابلے میں دور دور تک کوئی نہیں ہے۔ لیکن چھ سات ماہ قبل صورت حال ایسی بدلی کہ وہ راہل گاندھی جسے پپو کہہ کر مذاق اڑایا جاتا تھا، وہی راہل گاندھی 2023 کے آخر میں مقابلہ پر مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ چار ہزار کلو میٹر کے پیدل سفر نے اسے ملک کا مضبوط لیڈر بنا دیا۔ اب حالت یہ ہے کہ مودی کو اپنا مقام بچانے کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ ان کا سب سے بڑا آسرا ووٹنگ مشین ہے اور دوسرا انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اول فول بکنا شروع کر دیا ہے، لیکن صورت حال یہ ہے کہ مودی کی بد زبانی جس شدت سے بڑھ رہی ہے اسی شدت سے انڈیا اتحاد کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ راہل گاندھی ملک ارجن کھرگے اور دیگر لیڈروں کے جارحانہ انداز میں تیزی آرہی ہے۔ کھرگے اور سماج وادی لیڈر اکھلیش یادو نے لکھنو میں حال ہی میں پریس کانفرنس کرکے مودی کو چیلنج کیا کہ اپنا ایجنڈا سنجیدگی کے ساتھ پیش کریں اور اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دیں۔ دونوں لیڈروں نے کہا کہ مودی تیسری بار پی ایم بننے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ اسی دوران راہل گاندھی نے ایک تیز و تند بیان میں کہا کہ مودی اب پرائم منسٹر نہیں بن سکتے میں لکھ کر دے سکتا ہوں، ان کی زبان بتا رہی ہے کہ اب پی ایم بننے کا یقین انہیں بھی نہیں رہا۔ جنتا ان سے بے زار ہوچکی ہے۔ سول سوسائٹی کے کچھ منتخب افراد نے جن میں جرنلسٹ بھی شامل ہیں مودی اور راہل سے کہا ہے کہ دونوں ایک مشترک پلیٹ فارم پر بحث کریں، اپنا اپنا ایجنڈا پیش کریں اور ایک دوسرے کے سوالوں کے جواب دیں۔ راہل گاندھی نے پیش کش فی الفور قبول کرلی اور کہا کہ میں کسی سے بھی بحث کے لیے تیار ہوں۔
اپوزیشن مضبوط ہے
اس پیش کش کا کوئی جواب پی ایم کی طرف سے ابھی نہیں آیا اور شاید آئے گا بھی نہیں، اس لیے کہ مودی آزاد فرد یا افراد کے سوالوں کے جواب نہیں دیتے۔ گزشتہ دس برسوں میں انہوں نے ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی، نہ کسی آزاد جرنلسٹ کے سوال کا جواب دیا۔ وہ صرف اپنے پروردہ لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی مخالفین کو ہدف بنا رکھا ہے۔ جب مسلمانوں کے خلاف کچھ بولنا ہو تو راہل گاندھی کا نام استعمال کرتے ہیں، مثلاً ابھی ابھی انہوں نے کہا ہے کہ راہل گاندھی کی کانگریس ملک بھر کے مالی وسائل پر قبضہ کرکے انہیں مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے تاکہ ملک میں زیادہ بچے پیدا کرنے والوں اور گھس پیٹھیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے۔ کانگریس رام مندر کی مخالفت اس لیے کرتی ہے کہ ایک طبقہ اس کا مخالف ہے۔ وہ طبقہ کونسا ہے آپ جانتے ہیں۔ کانگریس ہندو اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتی ہے۔ ادھر اپوزیشن کی جانب سے بھی سرکاری فریق پر لگا تار حملے ہو رہے ہیں۔ دگ وجئے سنگھ ای وی ایم کا معاملہ لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔ کچھ وکیل پہلے ہی سے سپریم کورٹ پہنچے ہوئے ہیں۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن لیڈر بھی الیکشن کے چوتھے مرحلہ میں بہت فعال دیکھے گئے۔ بی جے پی حالات سے بہت گھبرائی ہوئی ہے اس لیے اس کے لیڈر الیکشن جیتنے کے لیے نئے نئے شوشے چھوڑ رہے ہیں۔ مودی اور امیت شاہ دونوں نے اب چار سو پار کا معاملہ نئے سرے سے اٹھایا ہے۔ ان کی حاشیہ برداری کرنے والے چینل تین چار دن سے خوب ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ ادھر راہل گاندھی اور اروند کیجریوال کہ رہے ہیں کہ مودی اب اقتدار پر نہیں آسکتے۔ کیجریوال نے کہا کہ مودی دسمبر میں پچھتر سال کے ہوجائیں گے۔ اور خود ان کے اپنے بنائے ہوئے ضابطے کے مطابق پچھتر سال کی عمر بی جے پی کے لیے آخری حد ہے، اس عمر میں لیڈروں کو ریٹائر کر دیا جاتا ہے۔ مودی کو بھی کر دیا جائے گا جیسا اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو کیا گیا۔
اب کیا ہو گا؟
سات مرحلوں کے انتخابات کے چار مرحلے پورے ہوچکے ہیں۔ اب تین مرحلے باقی ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بی جے پی پہلے چار مراحل ہار چکی ہے اور باقی تین بھی ہارنے والی ہے۔ ادھر بی جے پی والے اپنا ٹیپ ریکارڈ مسلسل بجا رہے ہیں کہ وہی جیت رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن خاموشی کے ساتھ بی جے پی کی مدد کیے جا رہا ہے۔ ای وی ایم کے بارے میں ابھی کوئی حتمی فیصلہ سپریم کورٹ سے نہیں آیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں ای وی ایم میں کوئی دلچسپی لے بھی نہیں رہی ہیں۔ شاید اس لیے کہ اگر انہیں موقع ملا تو وہ بھی اس کا استعمال اسی طرح کریں گے۔ ای وی ایم کے لیے پریشان کچھ وکیل اور سیول سوسائٹی کے کچھ ممبر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آزادی اور جمہوریت کی بقا کے لیے ای وی ایم کا خاتمہ ضروری ہے۔ آثار یہ ہیں کہ 2024 کے انتخابات ای وی ایم کے ذریعے ہی ہوں گے۔ تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ای وی ایم کو بچانے کے لیے مودی نے اپنی حکومت کی پوری قوت جھونک دی ہے۔ چار مرحلے گزرچکے ہیں اب باقی تین بھی مشین ہی سے ہوں گے۔ گویا 2024 بھی گزر گیا۔ لیکن جو لوگ پورے خلوص کے ساتھ مشین بدلنا چاہتے ہیں وہ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ جن عام شہریوں کو آزادی اور جمہوریت سے دلچسپی ہے وہ اپنے اپنے طور پر کوششیں کررہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کی کوشش اب یہ ہوگی کہ حکومت کی مشینری گنتی میں کوئی گڑبڑ نہ کرنے پائے لیکن جب مشین موجود ہے تو کسی کی کوئی ترکیب کام نہیں آئے گی۔ ترکیب سرکار کی ہی چلے گی۔ لیکن راہل گاندھی، اکھلیش یادو اور کیجریوال جس زور دار طریقے سے مودی کی شکست کی پیشن گوئی رہے ہیں ان سے اندازہ ہے کہ انہوں نے بھی اپنی گوٹیاں فٹ کر رکھی ہیں۔ اس لیے حتمی نتائج چونکا دینے والے ہو سکتے ہیں۔ انتخابات کے بعد ہندوستان میں سیاست کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوگا۔ صورت حال بالکل بدل جائے گی۔ مفروضہ شکست کی صورت میں مخالف پارٹیاں چین سے بیٹھیں گی۔ آزاد خیال سیول سوسائٹی کے حق میں یہ بہت اہم مرحلہ ہوگا۔