کیرالہ حکومت نے ایک بار پھر بلوں کی منظوری میں گورنر کی جانب سے تاخیر کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا
نئی دہلی، نومبر 9: کیرالہ حکومت نے بدھ کے روز دوسری بار گورنر عارف محمد خان کے خلاف اسمبلی کے ذریعے منظور کیے گئے بلوں پر غور کرنے میں تاخیر کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
بدھ کو دائر کی گئی عرضی گذشتہ سال کے کیرالہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرتی ہے جس میں مقننہ کے منظور کردہ بلوں پر عمل کرنے کے لیے گورنر کے لیے وقت کی حد مقرر کرنے سے انکار کیا گیا تھا۔
مقننہ سے منظور شدہ بل گورنر کے دستخط کے بعد ہی قانون بن پاتے ہیں۔
ریاستی حکومت نے بدھ کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ گورنر کا بلوں پر غور کرنے میں بے وجہ تاخیر کرنا کیرالہ کے لوگوں کی زندگی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔
ریاست نے عدالت کو بتایا کہ ’’بہت سے بلوں میں بہت زیادہ عوامی مفادات شامل ہیں اور ایسے فلاحی اقدامات پر مبنی ہیں۔ گورنر کی طرف سے بلوں کو لمبے عرصے تک زیر التواء رکھ کر شدید ناانصافی کی جا رہی ہے، بشمول ایسے تین بلوں کے جو دو سال سے زیادہ عرصے سے زیر التوا ہیں۔‘‘
ریاستی حکومت نے کہا کہ ’’یہ آئین کی مکمل خلاف ورزی ہے۔‘‘
پچھلے ہفتے سپریم کورٹ کے سامنے اسی طرح کی ایک درخواست میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی قیادت میں ریاستی حکومت نے دلیل دی کہ خان آٹھ بلوں پر غور کرنے میں غیر معقول تاخیر کرکے اپنے آئینی فرائض میں ناکام رہے ہیں۔
کیرالہ کے علاوہ تمل ناڈو حکومت نے بھی اپنے گورنر آر این روی پر قانون ساز اسمبلی کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ریاستوں کے گورنروں کو اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ منتخب حکام نہیں ہیں۔