کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ افسوسناک:آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

فرقہ پرست عناصر کی مذموم حرکتوں کو نظر انداز کیا جانا پُرامن سماج کے لیے خطرناک اشاریے

نئی دلی (دعوت نیوز ڈیسک)

کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ ایک مسجد میں ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے والوں پر سے مقدمہ خارج کرنا انتہائی افسوس ناک ہے، جس سے نہ صرف فرقہ پرست عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی، بلکہ اس طرح کی مذموم کوششوں ک بھی حمایت ملے گی۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں اس بات پر انتہائی تعجب اور افسوس کا اظہار کیا کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں رات کے دس بجے مسجد میں داخل ہو کر کچھ سرپھروں کے ذریعہ موجود لوگوں کو دھمکیاں دینے اور ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے کو ایک معمولی بات قرار دیا۔ جسٹس ایم ناگاپرسنا کی سربراہی میں سنگل ڈویژن بنچ نے ملزمین کی اپیل کی درخواست پر حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگانے سے کسی بھی برادری کے مذہبی جذبات کو کیسے ٹھیس پہنچے گی۔
ملزمین پر تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 447 (مجرمانہ خلاف ورزی)، 505 (عوامی فساد پھیلانے والے بیانات)، 506 (مجرمانہ دھمکی)، 34 (مشترکہ ارادہ) اور 295 اے (مذہبی جذبات کو مجروح کرنا) کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ درخواست گزاروں کے خلاف مزید کارروائی کی اجازت دینا قانون کا غلط استعمال ہوگا۔ سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے بینچ نے کہا کہ آئی پی سی کی دفعہ 295A کے تحت ہر عمل جرم نہیں بنے گا۔
واضح رہے کہ ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ محض ایک مذہبی نعرہ نہیں ہے، بلکہ آج کل یہ فرقہ وارانہ نفرت، کشیدگی، تصادم اور سماج میں انتشار پھیلانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ گوکہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں اس طرح کا نعرہ لگانا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔
ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ عدالتوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سا عمل کس مقصد کے تحت کیا گیا ہے اور کسی دوسرے طبقے کی عبادت گاہ میں دیر رات گئے داخل ہوکر نعرے لگانے کے پس پردہ کیا مقاصد کارفرما تھے۔ مسلمان خدائے واحد کی عبادت اور بندگی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ کسی کو شریک نہیں کرتے، مساجد اسی کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی مندر یا کسی اور فرقہ کی عبادت گاہ میں داخل ہوکر نعرہ تکبیر ’’اللہ اکبر‘‘ لگائے تو کیا وہاں موجود لوگ اسے برداشت کریں گے اور کیا اس وقت بھی عدالت کا فیصلہ یہی ہوتا؟
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024