جنوبی بھارت میں انتخابات کے نتائج کا اجمالی جائزہ
کُل 129 میں سے این ڈی اے 49، انڈیا الائنس 75 اور دیگرکو 5 سیٹوں کا حصول
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
کرناٹکا اور آندھرا پردیش میں انڈیا الائنس کو مایوسی ۔ کیرلا میں بی جے پی نے اپنا کھاتہ کھولا
بھارت کی اٹھارویں لوک سبھا کے انتخابات جو سات مرحلوں 19 اپریل 2024 سے شروع ہوکر یکم جون 2024 کو اختتام پذیر ہوئے، کئی اعتبار سے پچھلے عام انتخابات سے الگ اور منفرد رہے۔ ایک تو اس کا 44 دن کا دورانیہ جو اپنی طوالت کی وجہ سے 52-1951 کے عام انتخابات کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، دوسرا 968 ملین رائے دہندگان میں 642 ملین ووٹروں نے ووٹ دیا اور ان میں بھی 312 ملین خواتین تھیں جو اپنی جگہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔
اس کے علاوہ اس بار کے انتخابات میں ملک کے دونوں بڑی پارٹیاں بی جے پی اور کانگریس کا زیادہ زور جنوب کی طرف رہا۔ جہاں کانگریس کی پوری کوشش رہی کہ کسی بھی طرح جنوب کے تمام ریاستوں میں اس کے اور اس کے ساتھ گٹھ بندھن میں بندھے پارٹیوں کے نمائندے معقول تعداد میں کامیاب ہوں وہیں بی جے پی نے بھی اس بات پر بہت زیادہ زور لگایا کہ کسی بھی طرح جنوب میں اس کی بنیاد مضبوط ہو اور وہ زیادہ سیٹوں پر جیت درج کر واسکے۔
جنوب ہند کی پانچوں ریاستیں، تمل ناڈو، کیرالا، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کرناٹک ملکی سیاست میں ابتدا سے ہی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔ جہاں ووٹروں کو بہ نسبت دوسری ریاستوں کے زیادہ معاملہ فہم، سیکولر ذہنیت کے حامل اور دور اندیش سمجھا جاتا ہے۔ مذہبی سیاست یہاں کبھی اس بری طرح حاوی نہیں ہوئی کہ ریاست کے اصل مسائل حاشیے پر چلے جائیں۔ گزشتہ دونوں 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں سوائے کرناٹک کے کسی بھی ریاست میں بی جے پی قابل ذکر جیت نہیں درج کراسکی۔ کرناٹک میں بھی اس کی گزشتہ بڑی جیت دوسرے مسائل کے مرہون منت رہی نہ کہ مذہبی سیاست؟ جس کے ثبوت حالیہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شاندار جیت سے عیاں ہوگئے۔
جنوب کی ان پانچوں ریاستوں میں سے تلنگانہ اور کرناٹک میں کانگریس کی سرکار ہے، تمل ناڈو میں کانگریس کے اتحادی ڈی ایم کے حکومت میں ہے، کیرالا میں بائیں بازو کی سرکار ہے جو ملکی سطح پر کانگریس کے ساتھ انڈیا الائنس میں شامل ہے اور آندھرا پردیش میں کانگریس سے الگ ہونے والے ایک دھڑے وائی ایس آر کانگریس کی حکومت تھی جہاں حالیہ ہونے والے اسمبلی انتخابات میں تلگو دیشم پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے۔ ان پانچوں ریاستوں میں سے صرف کرناٹک میں ہی بی جے پی کو براہ راست ریاستی حکومت بنانے کا تجربہ ہے باقی چاروں جگہ اس کی نمائندگی بہت محدود ہے۔
حالیہ نتائج کے ضمن میں جنوب ہند کی مذکورہ ریاستوں کا اجمالی جائزہ ملاحظہ کریں :
تمل ناڈو:
ریاستِ ٹمل ناڈو میں لوک سبھا کے کل 39 نشستیں ہیں۔ اس بار ڈی ایم کے جو انڈیا اتحاد کا حصہ ہے 22 سیٹوں پر اور اس کے حلیف، کانگریس 9 پر، سی پی آئی ایم 2 پر، سی پی آئی 2 پر، مسلم لیگ، وی سی کے، ایم ڈی ایم کے اور کے ایم ڈی کے ایک ایک سیٹوں پر انتخاب لڑی تھیں۔
ان کے مقابلے میں اے آئی اے ڈی ایم کے نے ایک ریاستی اتحاد بنا کر الیکشن کا سامنا کیا تھا جس میں 34 پر اے آئی اے ڈی ایم کے اور 5 پر ڈی ایم ڈی کے امیدوار تھے اور ان میں دو امیدوار جو پدیا ٹملاگم اور ایس ڈی پی آئی کے تھے وہ اے آئی اے ڈی ایم کے کے نشان پر مقابلے میں شامل تھے۔
بی جے پی نے ایک الگ اتحاد بنا کر یہاں مقابلے میں ان دونوں گٹھ بندھنوں کا سامنا کیا تھا، خود بی جے پی 22 نشستوں پر، پی ایم کے 10 پر، ٹی ایم سی 3 پر، اے ایم ایم کے 2 پر، سابق وزیر اعلیٰ او پنیرسیلوم بحیثیت آزاد امیدوار، تین اور علاقائی پارٹیوں کے امیدوار بی جے پی کے نشان پر انتخابی میدان میں اترے تھے۔
انتخابات میں اہم موضوع کے طور پر جہاں بی جے پی نے کانگریس اور ڈی ایم کے کی اقرباء پروری کو اچھالا اور ریاست میں بڑھتی ہوئی رشوت، نشہ کے کاروبار اور بجلی کی شرح پر انہیں گھیرنے کی کوشش کی وہیں انڈیا اتحاد نے بی جے پی کو اقلیتوں اور دلتوں کے لیے بطور خطرہ پیش کیا اور نیٹ امتحان کو اہم موضوع بنایا۔ وزیر اعظم مودی نے گزشتہ چار مہینے میں 8 بار ریاست کا دورہ کیا اور کئی ریلیوں اور روڈ شوز میں حصہ لے کر ریاست میں اپنی حصہ داری بڑھانے کی بھر پور کوشش کی۔
گزشتہ 2019 کے الیکشن میں 38 نشستوں پر ڈی ایم کے اتحاد نے کامیابی درج کی تھی اور صرف ایک سیٹ پر اے آئی اے ڈی ایم کے جیت سکی تھی۔ اس بار ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 69.72 فیصد رہا جو گزشتہ سے 2.72 فیصد کم ہے۔
بی جے پی اپنی لگاتار طوفانی کوشش کے باوجود بھی اس بار ریاست میں اپنا کھاتا کھولنے میں ناکام رہی۔ انڈیا الائنس سے ڈی ایم کے 22 پر، کانگریس 9 پر، وی سی کے، سی پی آئی اور سی پی ایم دو دو پر، ایم ڈی ایم کے اور مسلم لیگ نے ایک ایک پر یعنی کل 39 سیٹوں پر جیت درج کی ہے۔ ریاست میں بی جے پی کی بڑھتی ہوئی ووٹوں کی شرح یہاں کے سیکولر عوام کے لیے قابل تشویش ہے، انڈیا الائنس اور دوسری سیکولر پارٹیوں کو اس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
کیرالا:
کیرالا جنوب کی ایک واحد ایسی ریاست ہے جہاں بی جے پی آج تک اپنا کھاتا نہیں کھول سکی تھی۔ موجودہ ایل ڈی ایف کی ریاستی حکومت جو ملکی سطح پر انڈیا اتحاد کا حصہ ہے لیکن ریاستی سطح پر کانگریس اور بی جے پی سے بر سرپیکار ہے۔ کل 20 نشستوں والی اس ریاست میں حکم راں ایل ڈی ایف اتحاد سے سی پی آئی ایم 15 پر سی پی آئی 4 پر اور کیرالا کانگریس ایک پر مقابلہ میں حصہ لیا تھا۔ کانگریس 16 نشستوں پر مسلم لیگ 2 پر آر ایس پی اور کیرالا کانگریس ایک پر یو ڈی ایف الائنس کے نام سے انتخابی میدان میں تھے۔ جبکہ بی جے پی 16 سیٹوں پر اور اس کی حلیف پارٹی بھارت دھرما جنا سینا 4 پر اپنی قسمت آزما رہی تھی۔
ریاست میں اس بار پول شدہ ووٹوں کا شرح تناسب 71.27 فیصد رہا جو گزشتہ سے6.57 فیصد کم ہے۔ بی جے پی نے جہاں کانگریس ایل ڈی ایف کی اقلیت نوازی کو یہاں بڑا موضوع بنایا وہیں کانگریس ایل ڈی ایف نے سیکولرازم، ایلکٹورل بانڈ اور آئین کے حوالے سے بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کی، اس کے علاوہ ریاستی سطح پر لیفٹ اور کانگریس نے ایک دوسرے پر بی جے پی کے ساتھ ساز باز کا بھی الزام لگایا۔
کانگریس کے بڑے نیتاؤں میں راہل گاندھی دوسری بار یہاں وایناڈ سے اور ششی تھرور تروننتاپورم سے انتخاب کے دنگل میں تھے جس کی وجہ سے ریاست کے انتخابات شروع سے ہی سرخیوں میں رہے۔ کانگریس اتحاد نے 20 نشستوں میں سے 18 پر جیت درج کرائی ہے، جس میں کانگریس کے 14 انڈین یونین مسلم لیگ کے 2 اور آر ایس پی کا ایک امیدوار شامل ہے۔ راہل گاندھی نے وایناڈ سے تین لاکھ سے زائد ووٹوں سے اپنی جیت درج کرائی ہے۔ ششی تھرور نے ایک سخت مقابلے میں بی جے پی امیدوار کو شکست دی ہے۔ ریاست میں پہلی مرتبہ بی جے پی کے اداکار سے سیاست دان بننے والے امیدوار سریش گوپی نے حلقہ تھروسور سے اپنی جیت درج کرواکے کانگریس اور بائیں بازو دونوں کو حیران کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں بی جے پی کا ووٹ شئیر بھی 17 فیصد سے زیادہ بتایا جا رہا ہے جو اپنی جگہ کانگریس اور بائیں بازو کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
کرناٹک:
ریاست کرناٹک جنوب کی واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی ایک اہم سیاسی رول نبھاتی اور حکومت بناتی آرہی ہے۔ لیکن یہاں گزشتہ سال کے ریاستی انتخابات میں کانگریس نے بی جے پی کو بری طرح سے ہرا کر اپنی سرکار بنائی تھی۔ اس پس منظر میں دونوں پارٹیوں کے لیے یہاں کی نشستیں انا کا سوال بنی ہوئی تھیں۔
کل 28 نشستوں والی اس ریاست میں بی جے پی 25 پر اور اس کی حلیف جنتا دل سیکولر 3 سیٹوں پر انتخابی میدان میں تھیں۔ کانگریس تمام 28 سیٹوں پر ان کے مقابل کھڑی تھی۔ ان کے علاوہ بہوجن سماج پارٹی 21 سیٹوں پر کرناٹک راشٹرا سمیٹی 28 سیٹوں پر اور کئی علاقائی اور ملکی چھوٹی پارٹیاں انتخابات میں اپنی قسمت آزمائی کر رہی تھیں۔
بی جے پی نے جہاں کانگریس کو بڑھتی ہوئی رشوت ستانی کے معاملات اور لاپروا حکم رانی کے نام پر گھیرنے کی کوشش کی وہیں کانگریس نے اس لڑائی کو دو نظریات کے درمیان کی لڑائی قرار دیا۔ ریاست میں ایک بڑا تنازعہ جس نے پولنگ کی مدت کے دوران سرخیوں میں جگہ بنائی وہ مبینہ جنسی استحصال کا معاملہ تھا جس میں ہاسن سے موجودہ جے ڈی (ایس) ایم پی پراجول ریوانا کا نام شامل تھا۔ اس معاملے کی تحقیقات کرناٹک کی حکومت کی طرف سے تشکیل کردہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کر رہی ہے۔
گزشتہ 2019 کے انتخابات میں یہاں بی جے پی نے 25 سیٹیں جیتی تھیں، جبکہ کانگریس، جنتا دل اور آزاد امیدوار ایک ایک سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔اس بار ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 70.64 فیصد رہا جو گزشتہ سے 1.83 فیصد سے زائد ہے۔ بی جے پی جہاں گزشتہ سے گھٹ کر صرف 16 سیٹوں پر اور اس کی حلیف جنتا دل (ایس) دو سیٹوں پر ایک سیٹ کے اضافے کے ساتھ جیت درج کی ہے وہیں کانگریس پارٹی اپنے ووٹوں کی شرح میں اضافے کے باوجود صرف 9 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر سکی ہے۔ ہاسن سے جنتا دل سیکولر کے امیدوار پراجول ریوانا جس نے مبینہ جنسی استحصال کے معاملہ میں گزشتہ دنوں ہندوستان واپس لوٹ کر خود سپردگی کی تھی انتخاب ہار گیا ہے۔
آندھرا پردیش:
پچیس نسشتوں والی ریاست آندھرا پردیش میں مقابلہ سہ رخی رہا۔ ایک طرف حکم راں وائی ایس آر کانگریس پارٹی دوسری طرف ریاستی پارٹی ٹی ڈی پی اور بی جے پی اور ان کے مقابل کانگریس پارٹی رہی۔
وزیر اعلیٰ وائی ایس جگن موہن ریڈی کی پارٹی وائی ایس آر کانگریس پارٹی تمام 25 سیٹوں پر انتخابی دنگل میں تھی۔ این ڈی اے الائنس میں سابق وزیر اعلیٰ این چندر بابو نائیڈو 17 پر بی جے پی 6 پر اور جنا سینا پارٹی 2 نشستوں پر مقابلہ میں تھیں۔ انڈیا الائنس سے کانگریس 23 پر سی پی آئی ایم اور سی پی آئی ایک ایک نشستوں پر انتخابات لڑ رہے تھے۔ ان کے علاوہ بہوجن سماج پارٹی تمام 25 نشستوں پر اپنی قسمت آزمائی کے لیے میدان میں تھی۔ چونکہ لوک سبھا انتخابات کے ساتھ یہاں ریاستی انتخابات بھی منعقد ہوئے اس زاویے سے ریاستی حزب اختلاف ٹی ڈی پی کا پلڑا شروع سے ہی بھاری محسوس کیا گیا۔ ریاست بھر میں حکومت مخالف لہر نمایاں طور پر دیکھی گئی جہاں ووٹر ٹرن آؤٹ 81.86 فیصد ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ سے 2.12 فیصد زائد تھا۔ سابق وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے (جنہیں کئی الزاما ت کے تحت جیل بھیجا گیا تھا جو آج کل ضمانت پر ہیں) اپنی گرفتاری کو بھی ان انتخابات میں ایک اہم موضوع بنایا۔ اس کے علاوہ وائی ایس ویویکانندا ریڈی کے قتل اور موجودہ وزیر اعلیٰ پر حملے کا موضوع بھی انتخابی منظر پر چھایا رہا۔ جیسا کہ غالب گمان رہا ٹی ڈی پی ریاستی اسمبلی انتخابات میں بڑی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی ہے۔ جون 9 تاریخ کو ٹی ڈی پی کے چندرا بابو نائیڈو نے بطور وزیر اعلیٰ حلف لینے کا اعلان بھی کردیا ہے۔
لوک سبھا کے لیے ٹی ڈی پی نے جن 17 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے ان میں 16 پر اور اس کی حلیف بی جے پی 3 پر، جنا سینا پارٹی نے 2 پر جیت کر ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے 4 نشستوں پر اپنی جیت درج کرائی ہے۔ کانگریس پارٹی اور انڈیا الائنس یہاں اپنا کھاتا کھولنے میں پوری طرح ناکام رہے۔
تلنگانہ:
تلنگانہ اور آندھرا پردیش قریب قریب ایک ہی قسم کا منظر نامہ رکھتے ہیں۔ یہاں بھی مقابلہ سہ رخی رہا لیکن فرق یہ ہے کہ یہاں کانگریس کی سرکار ہے جو اس نے حال ہی میں بی آر ایس کو شکست دے کر بنائی ہے۔ گزشتہ لوک سبھا میں یہاں سے ٹی آر ایس کے 9، بی جے پی کے 4، کانگریس کے 3 اور اے آئی ایم آئی ایم کے ایک ممبر نے انتخابات جیتے تھے۔ 17 سیٹوں والی اس ریاست میں 2024 کے لیے کانگریس، بی آر ایس اور بی جے پی نے تمام سیٹوں پر اپنے امیداوار کھڑے کیے تھے۔ ان کے علاوہ اے آئی ایم آئی ایم اور سی پی آئی ایم سے ایک ایک امیدوار بھی میدان میں تھے۔
اس بار بی جے پی نے اپنی تعداد بڑھانے کی بھر پور کوشش کی۔ بی آر ایس اپنی ایک بڑی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ کی بیٹی، کے کویتا کی دہلی شراب گھوٹالے میں گرفتار ہوکر جیل میں ہونے کی وجہ سے انتخابات میں زیادہ توجہ نہیں دے سکی ہیں۔کانگریس نے جہاں کاسٹ سنسکس، آئین کو در پیش خطرات، بے روزگاری وغیرہ کو موضوع بنایا وہیں بی جے پی نے کانگریس کی اقلیت نوزای کو اصل موضوع بتاکر اسے گھیرنے اور اے آئی ایم آئی ایم کے واحد امیدوار اسدالدین اویسی کو بھی حیدرآباد کی سیٹ پر سخت ٹکر دینے کی کوشش کی۔
ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب اس بار 66.30 فیصد رہا۔ بی جے پی کی لاکھ کوشش کے باوجود اے آئی ایم آئی ایم کے واحد امیدوار بیرسٹر اسدالدین اویسی تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار ووٹوں کے فرق سے اپنی قریبی حریف مادھوی لتا کو ہرانے میں کامیاب رہے۔ کانگریس نے جہاں اپنی سابقہ تعداد تین سے بڑھا کرآٹھ کرلی وہیں بی جے پی نے بھی اپنی تعداد چار سے بڑھا کر آٹھ کر لی ہے۔ مقامی پارٹی بی آر ایس اس بار اپنا کھاتا کھولنے میں پوری طرح ناکام رہی۔
کل ملا کر جنوب کے پانچوں ریاستوں میں 129 سیٹوں پر ہونے والے انتخابات کے نتائج کچھ اس طرح رہے:
این ڈی اے 49، انڈیا الائنس 75، دیگر 05
کرناٹک اور آندھرا پردیش میں انڈیا الائنس اپنے حلقہء اثر کو توسیع دینے میں ناکام رہا اور خاص کر کرناٹک میں اقتدار میں ہونے کے باوجود اچھے نتائج نہیں لاسکا جو قابل غور و فکر ہے۔ کیرالا میں بی جے پی کا داخلہ اور ریاست تمل ناڈو میں اس کے ووٹوں کی شرح میں اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کی اکثریت پرست سیاست پورے ہندوستان میں اپنے پیر پھیلانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
ملکی سطح پر جس طرح کے نتائج آئے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ جو بھی حکومت بنے گی وہ من مانی کرسکے گی کیونکہ کسی بھی پارٹی کو خود کے بل بوتے پر اکثریت حا صل نہیں ہوسکی ہے اور یہ ملک کے لیے اور ملک کے مستقبل کے لئے جہاں ایک طرف تشویش ناک ہے وہیں خوش آئند بھی ہے۔ خاص کر مسلمانوں کے لیے اس بار کے نتائج میں بظاہر راحت نظر آرہی ہے کیونکہ جس طرح کی مہم بی جے پی اور خاص کر وزیر اعظم نے دوران الیکشن چلائی اس نے سیکولر اورانصاف پسند رہنماؤں اور دانشوروں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024