جامعہ تشدد: سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ سے درخواستوں کی سماعت میں تیزی لانے کو کہا
نئی دہلی، اکتوبر 19: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز دہلی ہائی کورٹ سے کہا کہ وہ 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں پولیس کی مبینہ بربریت کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ طلب کرنے والی عرضیوں کی سماعت میں تیزی لائے۔
15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف طلبا کے احتجاج کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ دہلی پولیس پر یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے اور مظاہروں کو روکنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے کا الزام ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی کارروائی جائز تھی کیوں کہ مظاہرین نے مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا تھا اور بسوں کو آگ لگا دی تھی۔
دہلی ہائی کورٹ 2019 سے وکلا، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبا اور جنوبی دہلی کے اوکھلا کے رہائشیوں کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ تاہم ابھی تک طلبا پر حملہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کی گئی ہے۔
بدھ کو جسٹس انیرودھا بوس اور وکرم ناتھ کی سپریم کورٹ کی بنچ نے تشدد کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی خصوصی اجازت کی درخواست پر سماعت کی۔
سینئر وکیل کولن گونسالویز نے درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے ججوں سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے میں پولیس کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ داخل کریں جو دہلی ہائی کورٹ کے سامنے تقریباً تین سال سے زیر التوا ہے۔
تاہم سپریم کورٹ نے کہا کہ اسے اس معاملے میں اپنے دائرۂ اختیار کو استعمال کرنے کے بارے میں کچھ ’’شکوک‘‘ ہیں۔ اس کے بعد گونسالویز نے ڈویژن بنچ سے درخواست کی کہ وہ دہلی ہائی کورٹ سے تین ہفتوں کے اندر سماعت ختم کرنے کو کہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ’’ہم ہائی کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس معاملے کی جلد سے جلد سماعت کرے۔‘‘
تاہم عدالت نے درخواستوں کو نمٹانے کے لیے وقت مقرر سے انکار کردیا۔