جماعت اسلامی ہندکے کل ہند اجتماعات بیک نظر

اجتماعات کی روایت: 1951 سے 2024 تک آل انڈیا اجتماعات کا جائزہ

ڈاکٹر ساجد عباسی

پندرہ تا سترہ نومبر ۲۰۲۴ جماعت اسلامی ہند کا پانچواں کل ہند اجتماع برائے ارکان، بمقام وادی ہدیٰ حیدرآباد میں منعقد ہونے والا ہے۔ اس اجتماع کا مرکزی عنوان ہے عدل وقسط کا قیام۔ اس وقت دنیا میں، بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جنگ کی آگ کو دہکایا جا رہا ہے اور صلح کے ہر امکان کو ناکام بناکر غزہ اور لبنان کے شہریوں کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے اور جنگی جنون میں شہری علاقوں کو کھنڈر بنایا جا رہا ہے۔ چنانچہ اس وقت نظام عدل و قسط کی دنیا کو شدید ضرورت ہے تاکہ درندہ صفت و سفاک حکم رانوں کے خلاف دنیا صف آرا ہوسکے۔
ماضی میں بھی کل ہند اجتماعات منعقد کیے جاتے رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد ملک میں جگہ جگہ فسادات بھڑک اٹھے تھے اور جب فرقہ واریت کی آگ بجھنے لگی تھی اور حالات معمول کی طرف آنے لگے تھے تو اس وقت پہلا کل ہند اجتماع ۱۹۵۱ء میں رامپور میں منعقد کیا گیا تھا۔ اس وقت یہ ارادہ کیا گیا تھا کہ ہر سال کل ہند اجتماع منعقد کیا جائے گا تاکہ کاموں میں تیزی لائی جا سکے۔ چنانچہ ۱۹۵۲ء میں دوسرے کل ہند اجتماع کے لیے حیدرآباد کو منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد جب محسوس ہوا کہ ہر سال کل ہند اجتماع کرنا بڑے اخرجات و انتظامات کا متقاضی ہے تو ہر سات آٹھ سال بعد کل ہند اجتماع کے انعقاد کی روایت پڑگئی۔چنانچہ ۸ سال بعد ۱۹۶۰ء میں دہلی میں تیسرے کل ہند اجتماع کا انعقاد عمل میں آیا۔اس کے سات سال بعد ۱۹۶۷ء میں چوتھا آل انڈیا اجتماع حیدرآباد میں منعقد کیا گیا۔پانچواں کل ہند اجتماع سات سال بعد ۱۹۷۴ء میں منعقد ہوا اور اس کے لیے دہلی کو منتخب کیا گیا۔چھٹا کل ہند اجتماع حیدرآباد میں وادی ھدیٰ میں منعقد ہوا جو بہت مشہور ہوا کیوں کہ اس میں بیرونِ ملک کی اسلامی تحریکات کے قائدین نے شرکت کی تھی۔ اس اجتماع میں ایران کے موجودہ مذہبی قائد آیت اللہ خامنہ ای نے بھی شرکت کی تھی۔ یہ بھارت کا آخری کل ہند عام اجتماع تھا۔ چونکہ کارکنان و متفقین کی تعداد میں قابلِ لحاظ اضافہ ہوا اس لیے لاکھوں شرکاء کے لیے کل ہند اجتماعِ عام کو منعقد کرنا دشوار محسوس ہونے لگا لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ صرف ارکان کا کل ہند اجتماع کیا جائے۔ چنانچہ پہلا کل ہند ارکان کا اجتماع حیدرآباد میں 1997ء میں منعقد ہوا۔ دوسرا کل ہند اجتماعِ ارکان دلی میں 2002 میں منعقد کیا گیا۔تیسرا کل ہند اجتماعِ ارکان دلی میں ہی 2010 میں منعقد ہوا اور چوتھا کل ہند ارکان کا اجتماع 2015 میں حیدرآباد میں منعقد ہوا۔ اور اب اگلے ماہ جو اجتماع ۱۵ تا ۱۷ نومبر کو ہونے والا ہے یہ پانچواں کل ہند ارکانِ جماعت کا اجتماع ہوگا۔
اس مضمون میں پہلے دو کل ہند اجتماعات کی رودادوں کی تلخیص پیش کی جا رہی ہے۔یہ رودادیں مکتبہ اسلامی سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
کل ہند اجتماع رامپور ۱۹۵۱:
اس اجتماع کا مقصد یہ تھا کہ تقسیم ہند کے بعد جو رفقاء فساد زدہ حالات سے متاثر ہوکر بکھرے ہوئے ہیں ان کو جمع کیا جائے اور آزاد ہند میں نئے حالات میں نئی حکمتِ عملی وضع کرکے کام کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ اجتماع ۲۰تا ۲۳ اپریل ۱۹۵۱ء کو رامپور میں منعقد ہوا۔اس اجتماع سے قبل کچھ اخبارات نے غلط خبریں شائع کرکے عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوششیں کی تھیں کہ اس اجتماع میں سیاسی لائحہ عمل طے کیا جائے گا کہ جماعت اسلامی کس سیاسی پارٹی کی تائید کرے گی۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے آزاد ہند کے پہلے امیرِ جماعت مولانا ابواللیث اصلاحیؒ نے اس طرح وضاحت کی: ’’جماعتِ اسلامی ایک اصولی جماعت ہے جس کا مقصد دین کے بنیادی اصولوں کی تبلیغ و اشاعت ہے اور جو خدا پرستانہ اخلاق کی بنیادوں پر سماج کی تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ چونکہ موجودہ سیاست کو خدا پرستانہ نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے اس میں حصہ لینا وہ اپنے اصول کے خلاف سمجھتی ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’’ہم اپنے اجتماعات میں بلا امتیازِ مذہب و ملت ہر جماعت اور ہر قوم و فرقہ کے اصحابِ فکر کو شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔چنانچہ ایک مرتبہ پٹنہ کے ایک اجتماع میں خود گاندھی جی نے شرکت کی تھی اور اس کے بعد اپنی پرارتھنا کی ایک تقریر میں اس اجتماع کی شرکت پر اپنے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا کہ یہ ایسے لوگوں کا اجتماع ہے تو میں وہاں پیدل چل کر جاتا ‘‘۔
اس اجتماع میں شرکاء کی تعداد ۱۳۰۰ تھی۔ ۲۰ اپریل کی صبح بعد نمازِ فجر اجتماع کی پہلی نشست کا آغاز ہوا۔ مولانا صدرالدین اصلاحی نے سور بقرہ کی منتخب آیات کی تفسیر پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ پچھلی امتوں نے کتمانِ حق کے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔اب امتِ مسلمہ کو شہادت علی الناس کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔اس کے بعد امیر جماعت اسلامی مولانا ابواللیث اصلاحی ہند نے افتتاحی خطاب کیا۔ اور پھر قیم جماعت مولانا محمد یوسف نے جماعت اسلامی کی تشکیل، جو اگست ۱۹۴۱ء ہوئی تھی، تب سے ۱۹۵۱ء تک جماعت کی نمایاں خدمات کو پیش کیا جن کے اہم نکات یہ ہیں: جماعت اسلامی ہند کی تشکیل،ہندو اور مسلمانوں کے درمیان قومی کشمکش کو مٹانے کے لیے کوششیں،غیر مسلمین پر دعوتِ اسلامی کا اثر،فسادات کے بعد میں جماعت کا رول، بلالحاظ مذہب و ملّت خدمت خلق، مثالی معاشرے کے قیام کی کوششیں، شہری مسلمانوں میں دعوت و اصلاح کے طریقے،دیہاتی مسلمانوں میں دعوت و اصلاح کے طریقے،ذہین طبقہ کو منظم کرنے کی کوششیں،مختلف زبانوں میں لٹریچر کی اشاعت اور بیت لمال کا استحکام وغیرہ۔اس نشست کے بعد نمازِ جمعہ اور طعام کے لیے وقفہ رکھا گیا۔نمازِ جمعہ رامپور کی جامع مسجد میں ادا کی گئی۔دوسری نشست میں حلقوں کی رپورٹیں سنائی گئیں۔ نمازِ عصر کے بعد سے عشاء تک کا وقت رفقاء کی باہم ملاقاتوں کے لیے رکھا گیا۔
دوسرا دن ۲۱ اپریل ۱۹۵۱ بروز ہفتہ، تیسری نشست: بعد نمازِ فجر مولانا صدرالدین اصلاحی نے سورۃ البقرۃ کی آیات ۲۰۷ تا ۲۱۴ سے ایمان افروز درس پیش کیا۔اس کے بعد حلقوں کی رپورٹیں سننے کا سلسلہ جاری رہا۔ساری رپورٹیں سننے کے بعد امیر جماعت نے ان رکاوٹوں کا تذکرہ فرمایا جو جماعت کے کاموں میں پیش آئیں ہیں جو یہ ہیں: رفقاء کی معاشی مشکلات،فرقہ وارانہ صورتحال،مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس،علماء کی مخالفت،عوام کی ناخواندگی اور جاہلانہ رسوم و رواج وغیرہ۔امیر جماعت نے توجہ دلائی کہ ان موانعات اور رکاوٹوں کے باوجود دعوت واصلاح کے کاموں کو ہر حال میں انجام دینا ہے۔ چوتھی نشست میں مولانا حامد علی صاحب نے تحریک اسلامی اور اس کے مقتضیات کے عنوان پر تقریر کی جس کے چند نمایاں پہلو یہ ہیں:اقامت دین کے لیے سب سے مقدم چیز اقامتِ صلوٰۃ ہے۔اقامتِ دین کی متبادل اصطلاح شہادت حق ہے جس کا عین تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی میں اسلام کی نمائندگی کریں۔تحریک اسلامی کے ساتھ دنیا میں دوسری تحریکیں بھی ہیں لیکن ہماری تحریک حق کی سربلندی کی تحریک ہے جو صالح اجتماعیت سے ہی قائم رہ سکتی ہے۔ یہ تحریک زندگی کے تمام شعبوں میں اصلاح چاہتی ہے۔آخر میں انہوں نے مسلمانوں میں سے جو جماعت کے مخالفین ہیں ان سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہ سنی سنائی باتوں کے بجائے غیر جانب دارانہ تحقیق کے بعد ہی جماعت کے بارے میں رائے قائم کریں۔ غیر مسلموں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اسلام کسی خاص قوم کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ ساری انسانیت کی فلاح کے لیے ہے۔اس تقریر کے بعد تجاویز و مشورے پیش کیے گئے اور ان پر امیرِ جماعت نے اظہارِ خیال کیا ۔
تیسرا دن ۲۲ اپریل بروز اتوار: مولانا صدرالدین اصلاحی نے سورۃ آل عمران کی منتخبہ آیات کا درس پیش کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امت کے وجود کی تین بنیادیں ہیں۔ایک ایک مسلمان کے دل میں تقویٰ ہو، دوسرا اتحاد،تیسری بنیاد ہے وہ مقصد جس کو امر بالمروف ونہی عن المنکر کہا گیا ہے جس کے لیے امت کو برپا کیا گیا ہے چنانچہ اسی مقصد کو اتحاد کی غایت بنائی جائے۔ درس قرآن کے بعد چھٹی نشست کا انعقاد عمل میں آیا جس میں امیر جماعت تجاویز اور مشوروں پر اظہارِ خیال کرتے رہے۔ ساتویں نشست رفقاء و متاثرین سے ملاقاتوں پر مشتمل رہی۔آٹھویں نشست میں دوسرے مکاتب ِ فکر کے رہنماؤں کو دعوت تقریر دی گئی ۔
چوتھا دن ۲۳ اپریل بروز پیر: مولانا صدرالدین اصلاحی نے سورۃ المائدہ کی چند آیات کا درس پیش کیا جس کا لب لباب یہ ہے کہ قرآن اللہ اور اہل ایمان کے درمیان معاہدہ کی دستاویز ہے۔ایفائے عہد کی صورت میں تم دنیا میں بھی عزت و سرخ رو ہوں گے اور آخرت میں بھی ابدی نعمتیں حاصل ہوں گی۔ناشتہ کے بعد نویں نشست منعقد ہوئی جس میں امیرِ جماعت نے اختتامی تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ اجتماع کے مقاصد الحمدللہ حاصل ہوئے ہیں اور خدشات کے باوجود اجتماع کامیابی سے اختتام کو پہنچا۔ انہوں نے ارکان پر زور دیا کہ لوگوں سے مسلسل ربط پیدا کریں اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرتے رہیں۔ انفرادی سطح پر قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور نماز کا التزام کریں۔نماز اللہ کا ذکر ہے اور تعلق باللہ کا اہم ترین ذریعہ ہے۔دوسری چیز صبر و استقامت ہے۔اپنے نفوس کا تزکیہ کریں۔ہماری ایک غلطی بڑے فتنہ کا سبب بن سکتی ہے۔
ایک علحیدہ نشست میں ارکانِ جماعت سے امیرِ جماعت نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ دوسرے شخص کو امارت کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ارکان نے یک زبان ہوکر کہا کہ اس نازک ذمہ داری کو اٹھانے والا اس وقت آپ سے بہتر کوئی ہمیں نظر نہیں آتا لہٰذا آپ ہی یہ ذمہ داری اٹھائے رہیں۔
اگلے دن یعنی ۲۴ اپریل کو ادارۂ ادب اسلامی کا اجتماع منعقد کیا گیا جس کی صدارت مولانا شفیع مونس نے کی۔اس میں مولانا سید عروج احمد قادری نے ایک افسانہ پیش کیا،حفیظ میرٹھی نے دو غزلیں پیش کیں اور ابوالمجاہد زاہد نے دو نظمیں پیش کیں۔جملہ ۱۱ حضرات (شعراءو ادیب) نے اپنی تخلیقات کو پیش کیا۔
کل ہند اجتماعِ حیدرآباد ۱۹۵۲ء:
یہ اجتماع ۲۷ نومبر تا یکم دسمبر ۱۹۵۲ء کو حیدراباد میں مکہ مسجد کے قریب ایک گراونڈ میں منعقد کیا گیا۔ اس اجتماع میں جنوبی ہند کے تمام اراکین اور شمالی ہند کے ذمہ داروں کی شرکت کو لازم کیا گیا تھا۔شرکاء کی مجموعی تعداد تقریباً دس ہزار تک تھی جن میں مقامی لوگوں کی تعداد چھ ہزار تھی۔خواتین کی خاص نشستوں میں تعداد ۲۰۰ اور عام نشستوں میں ۴۰۰ تھی۔
پہلی نشست ۲۷ نومبر جمعرات : اس نشست میں امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی نے افتتاحی تقریر کی جس میں اجتماع کے اغراض و مقاصد کو پیش کیا۔اس تقریر کے بعد قیم جماعت مولانا محمد یوسف نے پچھلے ایک سال کے کاموں کی رپورٹ پیش کی۔دوسری نشست ظہر اور عصر کے درمیان رکھی گئی جو ہمدردان اور متاثرین جماعت سے ملاقاتوں کے لیے مخصوص تھی۔ تیسری نشست بعد مغرب منعقد ہوئی جس میں خطاب عام رکھا گیا جس میں امیرِ جماعت نے کہا کہ آزادی کے بعد حالات آزادی سے پہلے سے زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔ چور بازاری،ذخیرہ اندوزی،رشوت خوری،اقربا پروری،قتل و غارتگری، لوٹ مار،شراب نوشی،زنا اور جوّے میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ایسا لگتا ہے گویا جرائم پیشہ لوگ ملک آزاد ہونے کا انتظار کررہے تھے۔مغربی تہذیب پر تنقید کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ خدا کو زندگی سے خارج کرنے کے بعد اور آخرت کی جواب دیی سے بے نیاز ہونے کے بعد انسان عدل وانصاف پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس تقریر کے بعد حیدراباد کے مشہور مقرر جناب سید حامد حسین صاحب نے ’ایک صالح نظام کی ضرورت‘ کے عنوان پر مختصر تقریرکی جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام ہی انسانی مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے تین مسائل کو انہوں نے پیش کیا :پہلا مسئلہ:مسلمانوں میں بے مقصدیت،انتشار وجمود، دوسرا مسئلہ معاشی پریشانی اور تیسرا مسئلہ مسلمانوں کی اسلامی نظریۂ تعلیم کے مطابق تعلیم وتربیت کا فقدان ہے۔
۲۸ نومبر بروز جمعہ، چوتھی نشست: ’داعیان حق کے اوصاف‘ کے عنوان سے مولانا جلیل احسن ندوی کے مقالہ کو سید حامد علی نے پڑھ کر سنایا۔اس کے بعد تجاویز و مشوروں کا پروگرام رکھا گیا۔نماز جمعہ مکہ مسجد میں ادا کی گئی۔پانچویں نشست ڈھائی بجے شروع ہوئی جس میں امیدوار رکنیت اور ہمدردان و متاثرین جماعت سے ملاقاتیں ہوئیں ۔اسی دوران خواتین کا ایک علحیدہ اجتماع ہوا جس کو مولانا محمد عزیز صائب مظاہری امیر جماعت آگرہ نے خطاب کیا جس میں انہوں نے بتلایا کہ افراط و تفریط کے درمیان اسلام نے عورت کی ذمہ داریوں اور ان کے حقوق کو عورت کی فطرت کی مناسبت سے متعین کیا ہے۔چھٹی نشست مغرب و عشاء کے درمیان رکھی گئی جس میں امیر جماعت کا خطابِ عام تھا جس میں پانچ بنیادی مسائل کو پیش کیا گیا :فکری انتشار،اخلاقی ابتری، رنگ ونسل کے امتیازات،سیاسی پیچیدگی اور معاشی ناہمواری۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کو صرف اسلام ہی حل کرسکتا ہے۔
۲۹ نومبر بروز ہفتہ،ساتویں نشست : اس نشست میں شبہات واعتراضات کے ازالوں کا پروگرام رکھا گیا جس میں ایک ایک اعتراض کا جواب امیر جماعت دے رہے تھے۔آٹھویں نشست : ظہر سے عصر تک یہ نشست رہی جس میں اختتامی تقریر کی گئی۔اسی دن عشاء اور طعام کے بعد ادبی نشست کا اہتمام محمد شفیع مونس صاحب کے تعارفی کلمات سے ہوا ۔جناب اصغر علی عابدی صاحب نے ادارۂ ادب اسلامی کے مقاصد کو بیان کیا۔
۳۰ نومبر بروز اتوار، نویں نشست : ارکان ِ جماعت کے لیے خصوصی نشست رکھی گئی۔اس نشست میں رفقاء کی باہمی شکایات کو زیرِ بحث لایا گیا جن کو امیر جماعت نے سلجھانے کی کوشش کی۔اس کے بعد مدیر الحسنات مولوی عبدالحی صاحب نے بیت المال کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں۔دسویں نشست جو بعد نمازِ عشاء منعقد ہوئی اس میں دستور میں ترمیم کی تجاویز پیش کی گئیں جس کا جواب امیر جماعت نے یہ دیا کہ ان کو نوٹ کرکے قیم جماعت کے پاس بھیج دیا جائےجس پر مجلس شوریٰ غور کرے گی ۔
یکم دسمبر بروز پیر،گیارہویں نشست :اس نشست میں مرکزی مکتبہ اور مقامی مکتبوں کے درمیان تعلق اور ان کی مالیات کو زیرِ بحث لایا گیا۔دیگر امور بھی اس نشست میں زیرِ بحث رہے۔ آخر میں امیر جماعت نے اجتماع کے انتظامات کے سلسلے میں تاثرات کے اظہار کا موقع دیا۔آخری نشست: یہ نشست بعد نمازِ ظہر ڈھائی بجے منعقد ہوئی ۔اس میں اختتامی گفتگو کرنے کے بعد امیر جماعت نے اس اجتماع میں بھی یہ کہا کہ وہ خرابی صحت کی وجہ سے امارت سے استعفیٰ دینا چاہتے ہیں لیکن رفقاء نے اصرار کیا کہ آپ ایسا نہ کریں اس لیے کہ آپ سے بہتر اب ہمیں کوئی نظر نہیں آتا۔
انشاءاللہ اگلے شمارے میں تلخیص روداد کل ہند اجتماع ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۴ء پیش کی جائے گی۔

 

***

 جماعت اسلامی ہند کا پانچواں کل ہند اجتماع 15 تا 17 نومبر 2024 کو حیدرآباد میں منعقد ہوگا، جس کا عنوان "عدل و قسط کا قیام” ہے۔ یہ اجتماع ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا خصوصاً مشرق وسطیٰ میں جنگی حالات اور ظلم و جبر عروج پر ہیں۔
جماعت کے اجتماعات کا آغاز 1951 میں رامپور سے ہوا، جس کا مقصد بکھرے ہوئے رفقاء کو جمع کر کے نئے حالات میں کام کو منظم کرنا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک جماعت کے مختلف شہروں میں اجتماعات منعقد کیے گئے ہیں، جن کا مقصد جماعت کے اصولوں کی اشاعت اور عوام کی فلاح و بہبود تھا۔1951 کے رامپور اجتماع میں جماعت نے اپنے کاموں کی بنیادوں اور چیلنجز کو پیش کیا، جبکہ 1952 کے حیدرآباد اجتماع میں اجتماعی مسائل اور اسلامی تحریک کے تقاضوں پر بات کی گئی۔ ان اجتماعات میں علماء و مفکرین نے امت کے سماجی اور اخلاقی مسائل پر روشنی ڈالی اور اسلامی اصولوں کی جانب واپسی کی ضرورت پر زور دیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024