اصل مجرموں اور ان کے حامیوں کو سخت سزا دی جائےاور متاثرین کے خاندانوں کو معاوضہ دیا جائے

 جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر کی قیادت میں ایک وفد نے بھرت پور راجستھان کا دورہ کر کے مقتول ناصر اور جنید کے اہل خانہ سے ملاقات کی

نئی دہلی،23فروری :۔

راجستھان کے بھرت پور ضلع کے گھاٹیما گاؤں میں ناصر اور جنید کے اہل خانہ سے اظہار ہمدرد ی کے لئے متعدد سماجی ،سیاسی اور ملی تنظیموں کے وفود دورہ کر رہے ہیں ۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر کی قیادت میں بھی  ایک وفد نے جنید اور ناصر کے اہل خانہ سے ملاقات کی،اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ۔اس موقع پر پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ اس معاملے میں اصل مجرموں اور ان کے حامیوں کو سخت سزا ملنی چاہئے ۔

یاد رہے کہ ان دونوں نوجوانوں کو اغوا کر کے بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا اور ان کی لاشوں کو مہندرا بولیر و کار میں رکھ کر آگ لگا دی گئی تھی۔یہ واقعہ پندرہ فروری کو پیش آیا تھا۔

جماعت اسلامی کے وفد نے دونوں مقتولین کے بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد سے ملاقات کی اور متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ وفد نے گاوں کی عیدگاہ کا بھی دورہ کیا جہاں گاؤں کے لوگ 15 فروری سے ہی احتجااجی دھرنا دے رہے ہیں۔گاؤں والوں کا مطالبہ ہے کہ تمام ملزمان کی فوری گرفتاری اور جنید اور ناصر کے خاندانوں کو ایک ایک کروڑ روپے معاوضہ دیا جائے۔

Junaid and Nasir Janaza

اس موقع پر پروفیسر سلیم نے کہا کہ ”ہم گاو ں والوں کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں اور متاثرین کے خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دونوں خاندانوں کو ایک ایک کروڑ روپے راجستھان حکومت کی جانب سے ادا کئے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جماعت پوری مضبوطی کے ساتھ انصاف کے لئے ان کے ساتھ کھڑی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے گی کہ متاثرین کے اہل خانہ کو انصاف ملے اور مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو“۔ پروفیسر سلیم نے کہا کہ ”حیران کن بات یہ ہے کہ ہریانہ پولیس کے ہی کچھ افراد میوات خطے کے مسلمانوں کے خلاف اس قسم کی سرگرمیوں اور جرائم میں براہ راست ملوث ہیں۔ اگر چہ راجستھان پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کرکے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا ہے لیکن ابھی بھی بقیہ ملزمین گرفتاری سے بچے ہوئے ہیں۔ اس لئے گاؤں والے پولیس کی کارروائی سے مطمئن نہیں ہیں۔گاؤں والوں کا مطالبہ ہے کہ تمام ملزمان کو گرفتار کرکے سزا دی جائے۔“پروفیسر سلیم نے خاطی پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جن پولیس والوں نے مجرموں کو زخمی متاثرین کے ساتھ جانے کی اجازت دی اور بعد میں ان کو کار میں بند کرکے آگ لگادی گئی گئی تھی، ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے“۔

پروفیسر سلیم نے ان لوگوں کی بھی مذمت کی جو دونوں نوجوانوں کے قتل میں ملوث ملزمان کے حق میں احتجاج کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ”راجستھان اور ہریانہ کی ریاستی حکومتیں اس معاملے میں ہونے والی تحقیقات میں مکمل تعاون کریں اور اصل مجرموں کو قانون اور آئین کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لائیں“۔ وفد کو گاوں والوں نے بتایا کہ ہریانہ اور راجستھان کے میوات علاقے میں کئی سالوں سے ایک گروہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ہریانہ پولیس کا کردار مایوس کن ہے۔وہ مجرموں کی حمایت کررہی ہے۔ گاؤں والوں نے یہ بھی بتایا کہ ہجومی تشدد کا شکار ہونے والوں کو مجرم خود ہی فیروز پور جھرکا تھانے لے گئے۔ اس کے باجود پولیس نے مجرموں کو گرفتار نہیں کیا۔ ہریانہ پولیس نے مجرموں کو متاثرین کے ساتھ سنگین حالت میں جانے کی اجازت دی تھی۔