جماعت اسلامی ہند نے نپور شرما کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، کہا کہ صرف معافی کافی نہیں
نئی دہلی، جولائی 2: سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز ایک زبانی مشاہدے میں تجویز دی کہ معطل شدہ بی جے پی ترجمان نپور شرما کو، جنھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انتہائی توہین آمیز ریمارکس کیے تھے، جس نے ملک بھر میں جذبات کو مشتعل کیا تھا، قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ وہیں ہندوستان کی سب سے بڑی اسلامی تنظیموں میں سے ایک اسلامی ہند (جے آئی ایچ) نے ہفتہ کو ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
یہ مطالبہ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی اور ان کے نائب پروفیسر انجینئر محمد سلیم نے نئی دہلی میں JIH ہیڈکوارٹر میں مشترکہ طور پر ایک پریس کانفرسن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ایک صحافی کے سوال کے جواب میں مسٹر حسینی نے کہا کہ اگر سزا کی جگہ معافی مانگ لینا ہی کافی ہو تو پھر ملک میں عدالتوں اور جیلوں کی ضرورت نہیں۔
جے آئی ایچ نے ان سیاست دانوں، ٹی وی چینلز اور میڈیا ہاؤسز کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا جو ملک میں نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔
جے آئی ایچ کے دونوں رہنماؤں نے کہا کہ ادے پور قتل اور ملک کے مختلف حصوں میں ہجومی تشدد کے واقعات کا سلسلہ، بشمول مدھیہ پردیش کے رتلام میں حال ہی میں غلط شناخت کی بنیاد پر ایک بزرگ ہندو کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے کا واقعہ، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور سیاست دان اور نفرت پھیلانے میں ملوث میڈیا اس کے ذمہ دار ہیں۔
جناب حسینی نے سپریم کورٹ کے ان مشاہدات کا خیرمقدم کیا کہ گستاخانہ بیانات دینے والی سیاست دان ملک کی اس سنگین صورت حال کے لیے تنہا ذمہ دار ہے اور ٹی وی مباحثوں کے نام پر ایسی نفرت انگیز تقاریر کو فروغ دینے والا میڈیا بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے۔ انھوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اتنی تباہی مچانے کے بعد بھی ملزم ترجمان اور ٹی وی اینکر آزاد گھوم رہے ہیں۔
جناب حسینی نے مختلف مذاہب کی مذہبی شخصیات کی توہین کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے توہین کے قانون کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا۔
جے آئی ایچ کے دونوں رہنماؤں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک کا سیاسی ماحول جارحیت اور نفرت کو فروغ دے رہا ہے اور ہمدردی اور رواداری کو کم کر رہا ہے اور میڈیا کا ایک حصہ ایسی غیر ذمہ دار سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ انھوں نے ملک کے تمام امن اور انصاف پسند شہریوں سے ہاتھ ملانے اور نفرت اور تشدد کے خلاف لڑنے کی اپیل کی۔
ایک سوال کے جواب میں جناب حسینی نے کہا کہ ملزمان کے ساتھ ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر نمٹنے کے لیے کوئی دوہرا رویہ نہیں ہونا چاہیے۔
جناب حسینی نے آلٹ نیوز ویب سائٹ کے شریک بانی محمد زبیر کی گرفتاری اور بی جے پی کی سابق لیڈر نپور شرما کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’نفرت کو فروغ دینے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں کوئی دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
پروفیسر سلیم نے کہا کہ یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ ایک ٹی وی چینل پر اس کے نفرت انگیز ریمارکس کے ایک ماہ بعد بھی نپور کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے بیرون ملک ہندوستان کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔
انھوں نے معروف انسانی حقوق کی کارکن تیستا سیتلواڑ اور گجرات کے سابق ڈی جی پی آر بی سری کمار کی گرفتاری پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
پروفیسر سلیم نے کہا کہ محمد زبیر کو صرف اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کیوں کہ اس نے سوشل میڈیا پر نپور شرما کے تضحیک آمیز تبصرے شیئر کیے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کس سمت جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ہندوستان کی جمہوری اقدار اور آزادیٔ اظہار پر حملہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ نپور شرما کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کے گھروں کو بلڈوز کرنا جمہوریت کی توہین کے مترادف ہے۔
مہاراشٹر کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے پروفیسر سلیم نے کہا کہ ہر قیمت پر اقتدار کی ہوس جمہوریت کو کمزور کرنے اور ہماری سیاست اور طرز حکمرانی میں عدم استحکام کا باعث بنے گی جس کی قوم کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند نے سبکدوش ہونے والی ایم وی اے حکومت کے اورنگ آباد اور عثمان آباد شہروں کے نام تبدیل کرنے کے آخری لمحات کے فیصلے کی بھی مخالفت کی ہے۔
پروفیسر سلیم نے اگنی پتھ اسکیم کو واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔