ڈاکٹر محمد حنیف شباب
ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی سےگفتگو
ملک کے معروف ادیب، نقاد، محقق اور انجمن ڈگری کالج بھٹکل کے وظیفہ یاب اسوسی ایٹ پروفیسر صدر شعبہ اردو، ادارہ ادب اسلامی ہند کے سابق صدر اور معروف ادبی ماہنامہ پیش رفت نئی دلی کے سابق مدیر ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی کی مختلف ادبی موضوعات پر ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ دور طالب علمی سے ہی ’اردو کی نعتیہ شاعری‘ آپ کے مطالعہ کا خصوصی عنوان رہا ہے۔ اسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر انہوں نے 1987 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور یہ مقالہ کتاب کی شکل میں 1991 میں پہلی بار زیور طبع سے آراستہ ہو کر مقبول ہوچکا ہے۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن طباعت کے مرحلہ میں ہے اور توقع ہے کہ جلد منظر عام پر آجائے گا۔ چنانچہ جدید نعتیہ شاعری کی سمت و رفتار کے موضوع پر ان سے علمی گفتگو کے اہم نکات قارئین دعوت کے استفادے کے لیے پیش ہیں:
سوال: آپ نے اپنے تحقیقی مقالے کا موضوع نعت کیوں منتخب کیا اور اس کے اسباب کیا تھے؟
جواب: ہمارا خاندانی پس منظر مذہبی اور علمی رہا ہے۔ ہماری ابتدائی نشوونما صوفیانہ ماحول میں ہوئی، چھ سات سال کی عمر میں ہی گھر کی خانقاہ کے عرس اور مجلس سماع میں بیٹھتا رہا ہوں اور اسی وقت سے ہمارے کان اردو وفارسی کے نعتیہ اشعار اور صوفیانہ کلام سے آشنا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انسان کی شخصیت اور اس کے فکر و کردار کی تعمیر میں اس کے ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے، شاید یہی وہ اثرات تھے جس کی وجہ سے نعتیہ شاعری میری دلچسپی اور مطالعہ کا خصوصی موضوع بنا۔
سوال: تحقیقی کام کا یہ پراجیکٹ آپ نے کب اور کہاں مکمل کیا؟
جواب: اردو شاعری میں نعت گوئی ایک تنقیدی مطالعہ ریسرچ کا موضوع تھا، پرفیسر سید عبدالوہاب اشرفی مرحوم صدر شعبہ اردو، رانچی یونیورسٹی (جھارکھنڈ) کی نگرانی میں یہ کام 1987 میں الحمدللہ مکمل ہوا، جس پر مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔
سوال: نعت کا فن کیا ہے؟ آپ نے بنیادی طور پر اپنی تحقیق میں کیا ثابت کیا ہے؟
جواب: نعت کے فن پر میں نے تفصیلی گفتگو کی ہے، اور اسے اردو شاعری کی ایک اہم صنف قرار دیا ہے، عام طور سے جدید ادب کے ادباء و ناقدین نعت کو ایک موضوع قرار دیتے ہیں ’’صنف سخن‘‘ نہیں تسلیم کرتے۔ خود ڈاکٹر وہاب اشرفی نے اس معاملے میں خاصا اختلاف کیا تھا مگر انہوں نے مجھے آزاد چھوڑا کہ میں اس معاملہ میں اپنے مخصوص ادبی رویہ اور فکر کے تحت موضوع کا مطالعہ کروں۔
دراصل نعت ایک موضوعی صنف سخن ہے جس کی ہیئت کا تعین نہیں ہے۔ نعت شاعری کی کسی بھی ہیئت اور فارم میں کہی جا سکتی ہے اور اس سے اس کی ادبی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ’’مرثیہ‘‘ ایک مذہبی موضوع ہوتے ہوئے بھی مکمل ادبی صنف سخن ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ مرثیہ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اسے علامہ شبلی نعمانی جیسا ایک عظیم نقاد میسر آیا، جس نے ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ لکھ کر مرثیہ کو اردو شاعری میں بحیثیت صنف سخن مستحکم کردیا۔
سوال: آج اردو نعت کے دیگر محققین و ناقدین کون کون لوگ ہیں؟
جواب: اردو نعت پر پہلی تنقیدی کتاب جو مختصر مگر جامع اور اہم ہے وہ ڈاکٹر سید شاہ طلحہ رضوی برق کی ہے۔ پھر ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق، ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد، اسی طرح کراچی میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر حفیظ تائب اور ڈاکٹر عزیز حسن کی نعتیہ ادب پر تحقیقات نہایت اہم ہیں۔ نئے لوگوں میں کراچی کے ایک نوجوان سید صبیح رحمانی کا ذکر خیر ضروری ہے جو خود بہترین نعت گو اور نعت خواں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وقیع نعتیہ مجلہ ’’نعت رنگ‘‘ کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔ انہوں نے ایک علمی ادارہ انٹرنیشنل نعت سنٹر بنا کر اس موضوع پر بڑا عظیم تحقیقی و تنقیدی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس ادارہ کی سیکڑوں کتابیں سوشل میڈیا پر مل جائیں گی۔ حال ہی میں صبیح رحمانی کی مرتبہ کتاب ’’اردو نعت کی شعری روایت‘‘ نعتیہ تنقیدی ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
سوال : آپ کی تحقیق کے مطابق نعت گوئی کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
جواب: نعت گوئی عہد رسالت مآب (ﷺ) میں عربی زبان میں باضابطہ طور پر شروع ہوئی۔ حضرت ابو طالب کے اشعار کو نعت گوئی کا پہلا نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ حضرت حسّان بن ثابتؓ کو منبر نبوی پر بیٹھنے اور نعت پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، دراصل نعت گوئی رسول کریم (ﷺ) سے اظہار محبت و عقیدت کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اہم مقصد مخالفین اسلام کے اعتراضات کاجواب دینا بھی تھا۔ یوں نعتیہ شاعری دراصل لفظوں کے ذریعہ جہاد تھی۔
سوال: یہ تو عربی زبان کی بات ہوئی، یہ بتائیں کہ اردو میں نعت گوئی کی روایت کیسے پہنچی؟
جواب: عربی زبان کے بعد ظاہر ہے کہ نعت گوئی فارسی میں آئی، بالخصوص پوری فارسی شاعری اسلامی اقدار و تصورات کی مظہر بنی۔ فارسی شعراء نے عقیدت و محبت اور جذبہ و فکر کو اپنی نعت گوئی میں یوں جمع کیا ہے کہ فارسی نعت اعلیٰ ترین شاعری بن گئی ہے، اور پھر وہاں سے یہ روایت اردو زبان میں منتقل ہوئی۔
سوال: آپ اردو میں پہلا نعت گو کسے مانتے ہیں؟
جواب: اردو زبان کی تاریخ میں دکن کو ہی نثر و نظم کی ہر صنف میں اولیت حاصل ہے۔ اب آپ نے پہلا نعت گو کا سوال اٹھایا ہے تو اس سلسلے میں مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب ’صوفیائے کرام کا کام‘ میں خواجہ بندہ نواز گیسودراز (م ۸۲۵ھ) کے کچھ اشعار کو اردو نعت کا اولین نمونہ قرار دیا ہے، لیکن ڈاکٹر جمیل جالبی نے فخرالدین نظامی کی مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ میں حمد کے بعد نعت کے اشعار کو اردو نعت کا پہلا نمونہ قرار دیا ہے۔ جب اردو شاعری کا مرکز دکن سے دہلی منتقل ہوا تو اردو شاعری کی طرح نعت کے اسالیب اور زبان میں نکھار پیدا ہوا۔ چنانچہ نعت گوئی اب صرف باعثِ ثواب و برکت نہیں رہی بلکہ اسے فنی اعتبار بھی حاصل ہوا ۔
سوال: آپ کی رائے میں دکن میں نعت گوئی کے لیے اہم نام کون کون سے ہیں؟
جواب: یہ ایک مشکل سوال ہے۔ ولی دکنی و سراج اورنگ آبادی سے آج تک کے تمام شعراء کا صرف نام ہی بتایا جائے تو گھنٹوں لگ جائیں گے، ایک کتاب بن جائے گی۔ دکن میں نعتیہ شاعری، کرناٹک، آندھرا پردیش، تمل ناڈو اور پھر مہاراشٹرا کے الگ الگ علاقوں اور شہروں کی نعتیہ شاعری پر مفصل تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں، جن کو دیکھا جا سکتا ہے۔ امجد حیدرآبادی، شاذ تمکنت، زیب غوری کی نعتوں نے مجھے متاثر کیا ہے۔ چند سامنے کے نام یہ ہو سکتے ہیں۔ عزیز قیسی، قاضی سلیم، بشر نواز، خورشید احمد جامی، شاہ حسین لہری، مصحف اقبال توصیفی وغیرہ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے علاوہ تحریکی شعراء میں مسعود جاوید ہاشمی، رؤف خیر، مضطر مجاز، ابوالفاروق شعور، طاہر گلشن آبادی، ریاض تنہا اور ظفر فاروقی کے نام کافی اہم ہیں۔ آج کل چنئی میں علیم صبا نویدی مختلف جدید و قدیم ہئیتوں میں اچھی نعتیہ شاعری کر رہے ہیں اور نعتیہ شاعری پرعلیم صبا نویدی نے کئی تحقیقی کتابیں بھی لکھی ہیں۔
سوال: کیا دکن میں نعت گو شاعرات کا بھی نام ملتا ہے؟
جواب: ضرور۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ہر پہلو سے دکن کو اولیت حاصل ہے۔ اس زبان کے دہلی پہنچنے سے قبل ہی خواتین نے شاعری کے جوہر دکھائے اور اپنی حیات میں دیوان مرتب کردیے۔ جبکہ شمالی ہند میں اردو کے آغاز و ارتقاء کے طویل عرصے کے بعد بھی خواتین شعراء کا وجود دکھائی نہیں دیتا۔ ابتدائی دور میں لطف النساء امتیاز، مہ لقا بائی چندا اور شرف النساء شرف یہ ایسی شاعرات ہیں جنہوں نے اپنی نعت گوئی کے ذریعہ دکن کی شاعری میں خواتین کے حصے کی نمائندگی کی ہے۔
سوال: کرناٹک میں اردو کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
جواب: کرناٹک میں نعتیہ شاعری کا ذکر ہوگا تو سر فہرست حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا نام ہی آتا ہے۔ دور حاضر میں یعنی آزادیٔ ہند کے بعد دو درجن شعراء تو وہ ہیں جن کے نعتیہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور دو درجن ایسے شعراء ہیں جن کے مجموعوں میں نعتیہ شاعری کا بڑا حصہ ہے۔ شاہ ابوالحسن ادیب، آزاد ساحری، حافظ کرناٹکی، شاہ مدار عقیل، راہی فدائی، اسد اعجاز، ریاض احمد خمار، منیر احمد جامی، اکمل آلدوری، سلام نجمی، کوثر جعفری، رزاق کوثر میسور، رزاق اثر، زین العابدین قدیر چن پٹن، حبیب صابر شاہ آبادی، وحید انجم، عبدالستار خاطر، سید شاہ خسرو حسینی وغیرہ عصر حاضر کے معروف نعت گو شعراء ہیں۔ تحریکی شعراء میں بھی کافی نام ملتے ہیں۔ مظہر محی الدین، ضیا کرناٹکی، عزیز بلگامی، الف احمد برق، گوہر تریکیروی، ڈاکٹر محمد حسین فطرت، سید احمد راحل، ساغر کرناٹکی، شاد باگلکوٹی، وغیرہ ایسے کئی نام ہیں جو ناقابل فراموش ہیں۔
سوال: بھٹکل میں گفتگو ہو رہی ہے تو بھٹکل کی نعتیہ شاعری پر بھی کوئی تبصرہ ہوجائے۔
جواب: بھٹکل کے بارے میں کیا عرض کروں، یہ تو اس پورے علاقہ میں اردو زبان و ادب کا ایک جزیرہ ہے۔ ماضی میں یہاں جو لٹریچر تخلیق ہوا وہ زیادہ تر نوائطی زبان ہی میں تھا، مگر گزشتہ چند دہائیوں سے یہاں اردو کے فروغ کا بڑا مثبت کام ہوا ہے۔ اس میں ایک طرف تو مقامی آبادی کا اردو کے تئیں جذبہ و شوق ہے دوسری طرف درس و تدریس کے لیے دوسرے علاقوں سے آنے والے افراد اور علمائے کرام کا بڑا حصہ رہا ہے۔
یہاں کے شعرا کا کلام اپنے شعری محاسن، فنی خصوصیات، اپنی بے ساختگی، شگفتگی اور سادگی کے لیے قابل تحسین ہے۔ کبھی کبھی تو واقعی حیرت ہوتی ہے، مراکز ادب سے دور ہونے کے باوجود تخلیقی اور فنی سطح پر بعض چیزیں یہاں معرکہ کی وجود میں آئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے شعرائے بھٹکل کی نعتیہ شاعری کے عنوان سے پوری ایک کتاب لکھ دی جس میں تقریباً ۳۵ شعراء کا تذکرہ ہے۔
سوال: غیر مسلم شعراء کی نعتیہ شاعری کے تعلق سے آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟
جواب: یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ اردو شاعری کا آغاز ارض دکن سے ہوا ہے اور شاید اسی لیے اردو میں نعت گوئی کا آغاز دکن سے ہوا۔ اردو میں خواتین کی نعتیہ شاعری کے آغاز کا سراغ بھی دکن میں ملتا ہے اور غیر مسلم شعرا کی نعت گوئی کے نمونے بھی دکن میں ملتے ہیں۔ پوری نعتیہ شاعری کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ غیر مسلم شعراء کے قلم سے ایسی عمدہ نعتیں نکلی ہیں کہ جن کو پڑھ کر یقین نہیں ہوتا یہ غیر مسلم شعراء کی لکھی ہوئی ہیں۔ یہ ایک طویل موضوع ہے جس پر کئی تحقیقی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ابھی حال میں کراچی سے شائع شدہ نور احمد میرٹھی مرحوم کی 650 صفحات کی کتاب ’’بحر زماں، بہر زباں‘‘ کا خاص طور سے ذکر کرنا چاہوں گا، جس میں 350 سے زائد ہندو، سکھ، جین اور عیسائی مذہب کے ماننے والے اُردو شعراء کا منتخب نعتیہ کلام ان کے تعارف کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
سوال: کیا جدید ادبی نظریات و تحریکات کے تناظر میں بھی نعتیہ شاعری کی گئی ہے؟ اس پہلو سے کوئی خاص بات؟
جواب: ادب کی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ہر دور میں نئی سوچ، موضوعات و مسائل اور تھیوریز جنم لیتے رہے ہیں، جن سے تخلیقی رویوں کی نئی نئی کونپلیں پھوٹتی رہی ہیں، جن سے ادب کے جمالیات اور شعریات میں ایک شادابی ضرور رہتی ہے، مگر ان تخلیقی رویوں کی کمی اور کجی کو ہم کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں۔ بیسویں صدی میں مجموعی طور پر اردو ادب میں تین ادبی تحریکات و رجحانات ترقی پسندی، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے نام سے متحرک رہے ہیں۔
نعتیہ ادب کا اعجاز یہ ہے کہ جس طرح مختلف مذاہب کے ماننے والے ڈوب کر اور محبت و عقیدت کے ساتھ نعتیہ شاعری کرتے رہے ہیں، ٹھیک اسی طرح مختلف مکتبۂ فکر اور ادبی نظریات کے ماننے والے شعراء بھی جب نعتیہ شاعری کرتے ہیں پوری فنی بصیرت اور قلبی کیفیت کے ساتھ اظہار کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر احمد ندیم قاسمی اپنی ایک نعتیہ غزل میں یوں عقیدت کا اظہار کرتے ہیں: ؎
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا یہ سہارا تیرا
مجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
سوال: ایک اہم سوال چھوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، وہ یہ کہ جدید اردو نعت کی تشکیل کب اور کیسے ہوئی؟
جواب: نعت کو باضابطہ فن بنانے میں مولانا کفایت علی کانی اور مولانا غلام امام شہید کا نام نمایاں ہے۔ مولانا کافی کی شہادت۱۲۷۴ھ میں ہوئی۔ آپ کا لہو نعت کی روایت کو رنگین بنا گیا۔ مولانا غلام امام شہید نے اپنی تمام شاعرانہ تخلیقی قوتوں کو نعت گوئی کے لیے وقف کر دیا۔ حافظ لطف علی خاں لطف بریلوی ۱۲۹۸ھ غزل میں نعت گوئی کی روایت کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ لطف بریلوی پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اپنے مسلسل تخلیقی عمل سے نعت کو مستقل فن بنانے کی شعوری کوشش کی۔ نعت گوئی کے دور تشکیل کی یہی روایت امیر مینائی اور محسن کاکوروی تک پہنچ کر تکمیل فن کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔
دور جدید میں نعت گوئی کی داغ بیل 1857ء کے بعد پڑی، جس کے امام مولانا الطاف حسین حالی تھے۔ حالی کے ساتھ شبلی نعمانی، نظم طباطبائی، ظفر علی خاں اور علامہ اقبال کی آواز نے اردو شاعری میں ایک نئی گونج پیدا کی۔ ان بزرگ شعراء کے افکار کی روشنی سے نعت گوئی میں مزید تابانی آئی اور نعت کے فن میں وسعت و ارتقاء کے کچھ نئے امکانات اجاگر ہوئے۔ پرانی روش اور رسمی انداز سے ہٹ کر نعت گوئی میں ذکر رسول اور حب رسول کے ذریعہ اتباع رسول کے جذبہ کو بیدار کرنے کی کوشش کی گئی۔ نعتیہ شاعری کے دور جدید میں ایک نام مولانا احمد رضا خاں بریلوی (۱۳۴۰ھ) کا بھی آتا ہے۔ وہ اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے۔ ان کی شخصیت ایک مقبول دبستان نعت کی حیثیت رکھتی ہے۔
۱۹۴۷ کے بعد اردو نعت کا دوسرا دور جدید ایک الگ اور منفرد مقام رکھتا ہے۔ ان میں ایسے شعراء پیدا ہوئے جنہوں نے اس فن کو اپنے نعتیہ کلام سے بام عروج تک پہنچایا۔ ان میں خاص طور سے اقبال سہیل، سیماب اکبر آبادی، امجد حیدرآبادی، بہزاد لکھنوی، حمید صدیقی، ضیاء القادری، ماہر القادری، شفیق جونپوری، حفیظ جالندھری جیسے باقاعدہ نعت نگاروں کے علاوہ بیدم شاہ وارثی، اختر شیرانی، احسان دانش، شورش کاشمیری اور مولانا عبدالباری معینی اجمیری وغیرہ نے عہد آفریں نعتیں لکھی ہیں۔
عصر حاضر کے شعراء میں نعت نگاری کا عام رجحان پیدا ہوا۔ خصوصاً تحریک ادب اسلامی سے وابستہ شعراء نے باضابطگی کے ساتھ نعتیہ شاعری کی ہے۔ صرف ہندوستان کے ان شعراء کی بھی فہرست طویل ہے۔ بطور نمونہ چند نام یہ ہیں۔ عامر عثمانی، عروج قادری، ابوالمجاہد زاہد، حفیظ بنارسی، حفیظ میرٹھی، عزیز بگھروی، کلیم عاجز، عمیق حنفی، بیکل اتساہی، ساجد صدیقی، والی آسی، طلحہ رضوی برق، ابوالبیان حماد عمری، مسعود جاوید ہاشمی، رؤف خیر، تابش مہدی، علیم صبا نویدی، راہی فدائی وغیرہ نمایاں نعت گو شعراء ہیں۔ جن سے مستقبل میں نعتیہ شاعری کے روشن امکانات ہیں۔
جواب: اردو کی نعتیہ شاعری کا مستقبل در اصل اس کی بے پناہ مقبولیت سے ظاہر ہے۔ اور یہ مقبولیت دراصل رسول کریم (ﷺ) کی شخصیت کا اعجاز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج شاید ہی اردو کا کوئی ایسا شاعر ہوگا جس نے دو چار نعتیہ شعر نہیں کہے ہوں۔ خواہ وہ غیر مسلم شعراء ہوں یا ترقی پسندی اور جدیدیت سے وابستہ مغربی نظریات کے ماننے والے شعراء ہوں۔ خصوصاً اکیسویں صدی کے ساتھ بر صغیر ہند و پاک میں جس بڑے پیمانے پر نعتیہ شاعری ہو رہی ہے، نعتیہ مشاعرے منعقد کیے جا رہے ہیں کثرت سے نعتیہ دواوین اور مجموعہ ہائے کلام کی اشاعت ہو رہی ہے، ساتھ ہی پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا میں نعت پر گفتگو ہو رہی ہے، نعت خوانی کی محفلیں منعقد کی جارہی ہیں، جس طرح آج نعت پر یونیورسٹیوں پر تنقیدی و تحقیقی کام ہو رہا ہے ان سب باتوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج اردو ادب میں ایک نعتیہ تحریک برپا ہو چکی ہے جس کے ذریعہ آج سیرت کے پیغام کو گھر گھر پہنچانے کا فریضہ انجام دیا جا رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ نعت گوئی کے مستقبل کا جائزہ اس کے ماضی اور حال کے آئینے میں ہی لیا جا سکتا ہے اور یہ ایک وسیع و عریض موضوع ہے جس پر مسلسل کام ہو رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا آج نعت گوئی اور نعت خوانی کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا ہے۔ نعتیہ انتخابات، نعت سے متعلق رسائل و مجلات اور تحقیقی و تنقیدی مقالات کی کثرت اردو نعت گوئی کے روشن امکانات کا اشاریہ ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 اکتوبر تا 07 اکتوبر 2023