اسرائیلی فلم ساز کےتبصرےسے جھوٹ کاقدکم ہوا۔’ فلم آئینہ نہیں بےہودہ اور پروپیگنڈاہے‘

گجرات فائلس، کھوکھراجھار فائلس اورمظفر نگر فائلس نام کی فلمیں کیوں نہیں بنتیں؟۔ڈاکٹر ظفرالاسلام خان سےخاص بات چیت

سوال۔اسرائیلی فلم ساز کی ’دی کشمیر فائلس‘ پر تنقید، اور فوری طور پر اسرائیل کی بھارت سے معذرت کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
جواب: اسرائیلی فلمساز نے وہی بات کہی ہے جو اس نے اوراس کی جیوری کے دوسرے ساتھیوں نے محسوس کی اور جسے ہندوستان کے لاکھوں لوگوں نے محسوس کیا کہ ’’کشمیر فائلس‘‘ ایک سیاسی مقصد کے لیے بنائی گئی فلم تھی اور موجودہ حکومت نے اس کا بڑا پرچار کیا تھا ، اپنے سیاسی مقصد کے لیے اس کا استعمال کیا تھا اور اب بھی کر رہی ہے۔ اسرائیلی سفیر کا بیان افسوسناک ہے لیکن وہ اسرائیل کی ضرورت بھی تھا کیونکہ فلمساز کے بیان سے وہ خصوصی تعلقات خطرے میں پڑتے دکھائی دے رہے تھے جو مودی حکومت نے اسرائیل سے بنا رکھے ہیں بلکہ جس کی وجہ سے ہندوستان اسرائیلی اسلحہ کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس خصوصی تعلق کی حفاظت اسرائیل کی سخت ضرورت اور مجبوری ہے۔
سوال: کہاجاتاہے کہ فلم سماج کاآئینہ ہوتی ہےکیاآپ اس سے متفق ہیں؟
جواب: فلم سماج کا آئینہ صرف اسی وقت ہوتی ہے جب وہ حقیقت بیان کرتی ہو لیکن اگر آدھا سچ اور کافی جھوٹ کسی فلم میں بیان کیا جائے تو وہ سماج کا آئینہ نہیں ہو سکتی بلکہ وہ صرف ایک خاص سوچ کی عکاسی ہوگی۔ بدقسمتی سے اس وقت ہمارے ملک پر ایک مخصوص سوچ قابض ہے اور سرکاری طاقتوں بالخصوص سرکاری خزانے کو اپنے مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ خود جموں میں موجود کشمیری پنڈت مہاجرین نے اس فلم کی مذمت کی کیونکہ اس میں واقعات صحیح طریقے سے نہیں بیان کیے گئے ہیں۔ کشمیری پنڈت مہاجرین کے مسائل حل کرنا اس کا مقصد نہیں تھا بلکہ ایک خاص سیاسی ایجنڈے کے لیے مسلم قوم کو بدنام کرنا اس کا واحدمقصد تھا۔ اس فلم کی وجہ سے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں بہت اضافہ ہوا ہے جو شرمناک ہے اور صرف یہی بات اس فلم کی مذمت کے لیے کافی ہے۔
سوال:کسی نہ کسی بہانے سے کشمیر کے مسئلے کو زندہ رکھا جاتا ہے، اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟
جواب: موجودہ حکومت کشمیر کے مسئلے کو نہیں بلکہ کشمیر کے بارے میں ایک مخصوص سوچ کو زندہ رکھنا چاہتی ہے جس میں مسلمان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے، ان کی وطن پرستی پر سوال کیا جاتا ہے، اور آج بھی ان کو ظالم قرار دیا جاتا ہے۔ اس فلم کا بھی یہی مقصد تھا۔
سوال:کیا واقعی کشمیر میں ہونے والے قتل عام کو نسل کشی سے تعبیر کیا جانا چاہیے؟
جواب: کشمیر میں صرف پنڈتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہےجبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وہاں جاری شورش کے دوران پنڈتوں سے زیادہ مسلمان قتل بھی ہوئے اور متاثر بھی ہوئے ہیں۔ پنڈتوں کے ساتھ مسلمان بھی کشمیر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی بھی بات نہیں کرتا۔ کشمیریوں کی ہجرت کے بعدآج بھی وہاں کثیر تعداد میں پنڈت رہتے ہیں اور وہاں کے مقامی مسلمان ان کا بہت خیال رکھتے ہیں، ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھروں اور باغات کی دیکھ بھال کرتے ہیں، تنہا رہنے والے ہندوؤں کے مرنے پر ان کے کریا کرم کا انتظام کرتے ہیں، اکیلے ہندو خاندانوں کی شادیوں کا انتظام کرتے ہیں۔ کشمیر فائلس اور ہندوتوا ایجنڈا کے تحت چلنے والی حکومت اور گودی میڈیا اس کا ذکر نہیں کرتے۔
سوال: آخر ملک میں ہونے والے آسام کے نیلی خطے سمیت دیگر قتل عام کو فراموش کیوں کیا گیا ہے؟
جواب: پچھلے سات دہوں میں ہزاروں فسادات ہوئے لیکن ان کے متاثرین کو نہ تو معاوضہ دیا گیا اور نہ ہی ان کی باز آبادکاری کی گئی۔ گجرات ۲۰۰۲، کھوکھراجھار (آسام) ۲۰۱۲ اور مظفر نگر(۲۰۱۳) کے فسادات کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان اپنے گھر اور جائیدادیں چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثریت آج بھی اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکی ہے۔ ان کا دکھ اس حکومت کو بالکل نظر نہیں آتا، نہ کوئی بات ان کی کرتا ہے۔ ان کے لیے بھی گجرات فائلس، کھوکھراجھار فائلس اورمظفر نگر فائلس وغیرہ فلمیں بننی چاہئیں۔
***

 

***

 کشمیر میں صرف پنڈتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہےجبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وہاں جاری شورش کے دوران پنڈتوں سے زیادہ مسلمان قتل بھی ہوئے اور متاثر بھی ہوئے ہیں۔ پنڈتوں کے ساتھ مسلمان بھی کشمیر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی بھی بات نہیں کرتا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022