اسرائیل: اپوزیشن پارٹیوں نے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کو اقتدار سے بےدخل کرنے کے لیے اتحادی معاہدے کو حتمی شکل دے دی
نئی دہلی، 3 جون: بی بی سی کی خبر کے مطابق اسرائیل میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کی حکومت ختم کرنے کے لیے نئی حکومت تشکیل دینے کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ نتن یاہو 12 سال سے اس عہدے پر فائز ہے۔
مرکزی تنظیم یش اتید کے لیڈر یائر لیپڈ نے کہا کہ مجوزہ نئی حکومت اسرائیل کے سیاسی دائرہ کار میں پھیلی ہوئی آٹھ جماعتوں کے اتحاد پر مبنی ہوگی، جن میں نتن یاہو کے سابق ساتھی نفتالی بینیٹ کی پارٹی یمینہ بھی شامل ہے۔
یہ اتحاد ایک روٹیشنل سمجھوتہ کر چکا ہے، جس کے تحت بینیٹ اگست 2023 تک وزیر اعظم ہوگا، جس کے بعد لیپڈ اپنا اقتدار سنبھالے گا۔
مجوزہ نئی حکومت کو حلف اٹھانے سے پہلے پارلیمانی ووٹنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر وہ 120 رکنی ایوان میں اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی تو اسرائیل کو پچھلے دو سالوں میں اپنا پانچواں انتخاب کرنا پڑے گا۔ اسرائیلی صدر ریون ریولن نے کہا کہ ٹرسٹ ووٹنگ جلد سے جلد کی جائے گی۔
لیپڈ نے کہا کہ یہ مخلوط حکومت تمام اسرائیلی شہریوں کے لیے کام کرے گی، چاہے وہ اس کو ووٹ دیں یا نہیں۔ لیپڈ نے مزید کہا ’’یہ (حکومت) اپنے مخالفین کا احترام کرے گی اور اسرائیلی معاشرے کے تمام حصوں کو متحد اور مربوط کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔‘‘
اسرائیل کے وزیر دفاع اور کہول لاوان کے لیڈر بینی گانز نے کہا ’’یہ بڑی امید کی رات ہے۔‘‘ گانز مخلوط حکومت کے تحت بھی اپنے اس عہدے پر فائز رہیں گے۔
گذشتہ ہفتے نتن یاہو نے اس اتحاد پر تنقید کرتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ یہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور نتن یاہو نے سیاست دانوں سے اس میں شامل نہ ہونے کی اپیل کی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بدعنوانی کے الزامات کے تنازعہ میں الجھا ہوا ہے۔ سن 2019 میں اس پر الگ الگ مقدمات میں رشوت، دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کا باقاعدہ الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ دولت مند کاروباری افراد کی طرف سے تحائف قبول کرتا ہے اور مزید مثبت میڈیا کوریج حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نیتن یاہو نے بار بار ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے اپنے خلاف من گھڑت سازش کا حصہ قرار دیا ہے۔