اسرائیل: نفتالی بینیٹ نے بنجامن نتن یاہو کا تختہ پلٹنے کے ساتھ ہی اسرائیل کے نئے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا
نئی دہلی، جون 14: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق نفتالی بینیٹ نے اتوار کو اسرائیل کے نئے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا، جب ملک میں 12 سالہ سے حکمرانی کرنے والے بنجامن نتن یاہو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے آٹھ پارٹیوں نے اتحاد کر لیا۔
دائیں بازو کی یمینہ پارٹی کے 49 سالہ لیڈر بینیٹ نے 120 رکنی ایوان کے ذریعے 60-59 کی قریبی اکثریت کے ساتھ ملک کا 13 واں وزیر اعظم منتخب کیے جانے کے بعد اس عہدے کا حلف اٹھایا۔ قانون سازوں میں سے ایک نے ووٹنگ سے پرہیز کیا۔
ایک روٹیشنل سمجھوتے کے تحت بینیٹ دو سال تک وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گے، جس کے بعد ان کی جگہ مرکز پسند لیڈر یائر لیپڈ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالیں گے۔ بنیٹ کے زیرقیادت اتحاد بائیں بازو، مرکز پسند اور دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کی نمائندگی کرنے والی پارٹی کے ساتھ غیر فطری اتحاد کے طور پر سامنے آیا ہے۔ دراصل نئے وزیر اعظم بینیٹ کی یمینہ پارٹی کے ایوان میں صرف چھ ممبر ہیں۔
اس سے قبل بینیٹ نے 71 سالہ نتن یاہو کے حامیوں کی طرف سے مسلسل مداخلت کے درمیان اپنی تقریر میں اپنی نئی حکومت کے وزرا کو پیش کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’’ایک فیصلہ کن لمحے میں ہم نے ذمہ داری قبول کی۔ نتن یاہو حکومت کا مطلب زیادہ انتخابات اور زیادہ نفرت تھی، جس سے ملک ٹوٹ جاتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم کے مختلف حصوں کے ذمہ دار قائدین اس جنون کو روکیں۔‘‘
نتن یاہو کے حامیوں نے بینیٹ کی تقریر کے دوران مستقل طور پر ان کی مخالفت کی اور بینیٹ کو ایک ’’مجرم‘‘ اور ’’جھوٹا‘‘ قرار دیا۔ وہیں سابق وزیر اعظم نتن یاہو نے اپنی تقریر میں کہا ’’اگر اپوزیشن میں جانا ہماری قسمت ہے تو ہم سر اٹھا کر یہ کریں گے، جب تک کہ ہم اسے بدل نہیں سکتے۔‘‘
بینیٹ نے ایک بار نتن یاہو کے چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں اور وزیر دفاع کی حیثیت سے نتن یاہو کے ساتھ ان کے تلخ تعلقات تھے۔
اس نئی حکومت کے قیام سے اسرائیل میں جاری سیاسی تعطل ختم ہوگیا جس نے دو سال سے بھی کم عرصے میں چار بے نتیجہ انتخابات دیکھے۔ لیکن رائے شماری سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلیوں کی اکثریت آٹھ جماعتوں کے اس اتحاد کی لمبی عمر کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں دکھائی دیتی ہے۔