اساتذہ کے لیے رہ نمائی سیریز (قسط ۔5)

کلاسروم مینجمنٹ: سائنس بھی اور آرٹ بھی

سید تنویر احمد
ڈائریکٹر ہولسٹیک ایجوکیشن بورڈ، دلی

دیگر اوقات میں طلبہ اور سرپرستوں سے رابطہ
کلاس روم مینجمنٹ میں ٹیچروں کا اسکول سے باہر یا اسکولی اوقات کے بعد طلبہ اور ان کے سرپرستوں سے تعلق رکھنا بھی موثر کردار انجام دیتا ہے۔ مثلاً کیا آپ طلبہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات ( حدود میں رہتے ہوئے ) رکھتے ہیں۔ طلبہ کے سرپرستوں سے آپ کے تعلقات کیسے ہیں؟ کیا ان کے گھر آپ کا جانا ہوتا ہے۔ بالخصوص ایسے طلبہ جو کم زور ہیں، یا شرارت کرتے ہیں، ان کے گھر جائیں لیکن شکایت نہ کریں بلکہ بچے کی مثبت خصوصیات (Positive Qualities) پر سرپرستوں سے طالب علم کی موجودگی میں گفتگو کریں۔ اگر کچھ مشورے دینا ہوں تو بچے کی غیر موجودگی میں مشورے دیں۔ ہاں یہاں ایک اور بات عرض کرنی ہے ، وہ یہ کہ کلاس روم مینجمنٹ پر پی ٹی میٹنگ میں جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں وہ بھی اثر ڈالتے ہیں۔ کئی اسکولوں میں دیکھا یہ گیا ہے کہ ’سرپرست اور ٹیچر میٹنگ‘ (پی ٹی میٹنگ) کے دوران طالب علم اپنی ماں یا باپ کے ساتھ آتا ہے۔ اکثر پی ٹی میٹنگوں میں وہ ماں باپ خوشی خوشی لوٹتے ہیں جن کے بچے فرسٹ رینک (Rank)، سیکنڈ رینک (Rank) یا تھرڈ رینک (Rank)ہیں۔ اس کے بعد سلسلہ شروع ہوتا ہے بچوں کے خلاف کہنے سننے کا۔
پی ٹی میٹنگوں میں اکثر طلبہ اپنے سرپرستوں کے ساتھ آتے ہیں۔ سرپرستوں کی موجودگی میں بچوں کے متعلق گفتگو ہوتی ہے۔ 80 فی صد معاملات میں ٹیچر بچوں کی کم زوریاں سرپرست کو بتاتے ہیں، سرپرستوں سے ان کی شکایتیں کرتے ہیں۔ یہ انداز حکمت کے خلاف ہے۔ پی ٹی میٹنگ میں طالب علم کو سرپرستوں کے ساتھ نہیں بلانا چاہیے ۔ ٹیچر جو کچھ کہنا چاہتے ہیں ، وہ بچے کی غیر موجودگی میں کہیں اور اس نفسیات کا خیال رکھیں کہ ہر والدین کو اپنا بیٹا بہت عزیز ہوتا ہے اور وہ اپنے بیٹے و بیٹی کی شکایت سننا نہیں چاہتے ہیں۔ ٹیچر پہلے طلبہ کی تعریف کریں، ان کے بارے میں مثبت باتیں بیان کریں۔ پھر اس کے بعد ان کی کم زوریاں بتائیں۔ صرف کم زوریاں بیان نہ کریں بلکہ ان کم زوریوں کو دور کرنے کے لیے ماں باپ کا کیا کردار ہوسکتا ہے، اسے بھی بیان کریں، تو اس سے ہوگا یہ کہ ماں کہے گی کہ ’’بیٹے آپ کے ٹیچر بہت اچھے ہیں‘‘ ۔ بچہ جب اپنے والدین سے ٹیچر کی تعریف سنتا ہے تو اسے بھی احساس ہوتا ہے کہ مجھے اپنے ٹیچر سے محبت کرنا چاہیے ، ان کا احترام کرنا چاہیے ۔ اس طرح پی ٹی میٹنگ کا بڑ ا اثر کلاس روم مینجمنٹ پر پڑتا ہے۔
کلاس روم کے باہر ٹیچروں کا کردار بھی بڑا معنی رکھتا ہے۔ اگر ٹیچر کلاس روم کے باہر سگریٹ پیتے ہیں ، بدکلامی کرتے ہیں، پان اور گٹکا کھاتے ہیں تو کلاس روم میں طلبہ (Discipline Maintain) یعنی نظم و ضبط برقرار نہیں رکھتے اور ان کی عزت نہیں کرتے۔
ہمیں یاد ہے کہ ہمارے ایک انگریزی کے ٹیچر جناب اصغر حسین صاحب ہوا کرتے تھے۔ ان کا رویہ یہ تھا کہ وہ اسکول کے بعد بھی طلبہ کو اپنے گھر بلالیتے تھے۔ یہاں تک کہ کبھی اپنے گھر میں علاحدہ کمرے میں بچوں کے سونے کا بھی انتظام کرتے تھے۔ گھنٹوں بچوں کے ساتھ انگریزی میں گفتگو کرتے تھے۔ بعض طلبہ انگریزی میں بالکل ہی گفتگو نہیں کرپاتے تھے ، تاہم وہ بس یہ پوچھتے تھے Yes یاNO ۔ بچہ یس اور نو سے گفتگو کرنا شروع کردیتا تھا اور بعد میں اس کے اندر سے انگریزی بولنے کا خوف نکل جاتا تھا۔ یہ ایک مربی کا اخلاق ہے۔ اس کا بڑا اثر کلاس روم مینجمنٹ پر بھی پڑتا ہے۔
غیر حاضر طلبہ کے ساتھ رویہ
غیر حاضر طلبہ کے ساتھ رویہ بھی کلاس روم مینجمنٹ کا ایک اہم پہلو ہے۔ غیر حاضر طلبہ کے ساتھ چند ٹیچروں کا رویہ منفی ہوتا ہے ۔ اس کے بجائے مثبت رویہ ہونا چاہیے ۔ آپ وجہ دریافت کریں اور یہ تصور رکھیں کہ بچہ جو کہہ رہا ہے وہ سچ ہے۔ چند سالوں پہلے ایک ’بیسٹ ٹیچر کا قومی ایوارڈ ‘ لینے والی ٹیچر کا کردار کچھ یوں تھا کہ اگر اس کی کلاس کا کوئی طالب علم غیر حاضر رہتا تو وہ اس کے آنے کا انتظار کیے بغیر اسی دن یا دوسرے دن اس کے گھر پہنچ جاتی ۔ دریافت کرتی کہ بچہ ا سکول کیوں نہیں آیا۔ اگر اسے معلوم ہوتا کہ طالب علم صحت کی ناسازی کی وجہ سے اسکول نہیں آیا ہے تو وہ ٹیچر اس بچے کو اسپتال لے جاتی۔ اس کے علاج میں مدد کرتی اور پھر بچے کے صحت یاب ہونے کے بعد، ان اسباق کو پڑھاتی جنھیں وہ اپنی غیر حاضری کی وجہ سے پڑھ نہیں سکا تھا۔ یہ رویہ ایک مربی کا ہوتا ہے۔ اگر آج کے ٹیچر یہ رویہ اختیار کریں گے تو معاشرے میں ضرور تبدیلی آئے گی۔ لیکن عام طور پر ٹیچر اسکول کے اوقات میں قید ہوجاتے ہیں۔ اسکول کے اوقات کے بعد وہ طلبہ کی کوئی مدد نہیں کرتے۔
کلاس روم کی ہیئت و مرمت
کلاس روم کا سائز جہاں حکومت کے محکمہ تعلیم کے تجویز کردہ پیمانے پر ہونا چاہیے وہیں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ کلاس روم میں بلیک بورڈ یا وہائٹ بورڈ مناسب جگہ ہو۔ ٹیچر کے کھڑے ہونے کے لیے تھوڑی سی اونچائی والا اسٹیج بھی بنایا جائے۔ کھڑکیاں مناسب جگہ پر ہوں ، ایسی نہ لگی ہوں کہ جن سے باہر کا نظارہ آسانی سے دیکھا جاسکتا ہو۔ اس لیے کہ ایسی کھڑکیاں جب کھلی رہتی ہیں تو پھر بچوں کی توجہ منتشر اور ان کی یکسوئی متاثر ہوتی ہے اور پُر سکون ماحول پر اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح کلاس روم میں روشنی اور پنکھوں کا مناسب انتظام ہونا چاہیے۔ اگر کلاس روم کے بلب یا ٹیوب لائٹ خراب ہوجاتے ہیں ، کام نہیں کرتے ہیں تو انھیں فوری بدلا جائے۔ کبھی کبھار پنکھے خراب ہوجاتے ہیں، آواز آنے لگتی ہے تو ان کی بھی فوری طور پر مرمت کی جائے۔ بعض اوقات دروازے مناسب جگہ نہیں ہوتے جس سے بچوں کے آنے جانے پر اثر پڑتا ہے تو اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے ۔ روشنی اور ہوا کا معقول انتظام ہو۔ یہ چیزیں بھی کلاس مینجمنٹ پر اثر ڈالتی ہیں۔
تین ’ R ‘ کا خیال رکھیں
کلاس روم مینجمنٹ میں تین ’R‘ کی بھی اہمیت ہے اور ٹیچر کو چاہیے کہ ان تینوں R کا خیال رکھیں:
(الف) پہلا R ہے رولس (قوانین و ضوابط): کلاس کے کچھ قوانین و ضوابط بنائے جائیں ۔ یہ زیادہ پیچیدہ نہ ہوں۔ انھیں بناتے ہوئے منفی انداز اختیار نہ کیا جائے۔ جیسے کلاس روم میں جو طالب علم لیٹ آئے گا اسے پچاس روپے فائن دینا پڑے گا۔ اسی طرح جو طالب غیر حاضر رہے گا اسے سو روپے پنالٹی لگے گی۔ یہ منفی انداز ہے۔ مثبت انداز اختیار کیا جائے۔ ضابطے کم سے کم لکھے جائیں اور ان کی تفہیم تعلیمی سال کے آغاز میں ہی ہوجائے۔ ممکن ہو تو والدین کو بھی یہ ضابطے سنائے جائیں۔ بعض اسکولوں میں ان ضابطوں پر طالب علم اور سرپرستوں کے بھی دستخط لیے جاتے ہیں۔ مثبت ضوابط ترتیب دینے کی چند مثالیں یہ ہیں:
(1) تمام طلبہ کلاس روم میں وقت سے پانچ منٹ پہلے داخل ہوجائیں یا پھر اگر کہیں پریئر ہوتی ہے تو یہ لکھا جاسکتا ہے کہ طلبہ دوسری گھنٹی پر کلاس روم میں حاضر رہیں۔
(2) تمام طلبہ کلاس روم میں ایک دوسرے کے ساتھ بہترین دوستانہ تعلقات برقرار رکھیں اور تعلیم و تربیت میں ایک دوسرے کا تعاون کریں۔
(3) اگر کوئی طالب علم کلاس میں شرارت کرتا ہے ، خلل ڈالنے والی سرگرمیوں ( Disruptive Activities) میں ملوث ہوتا ہے تو اس کا تعاون نہ کیا جائے۔
ایک اور نکتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم ٹیچر کے وقار و احترام کا خیال رکھیں گے اور ٹیچر سے با ادب پیش آئیں گے۔ اس طرح کی مثبت باتیں لکھی جاسکتی ہیں ۔ اس طرح پانچ تا دس ضابطوں کا ایک دستاویز بنا کر طلبہ اور ان کے سرپرستوں کے دستخط لیے جاسکتے ہیں۔
( ب )دوسرا ’ R ‘ ذمہ داریوں (Responsiblity)سے متعلق ہے۔ یعنی کلاس روم میں بچوں کو مختلف ذمے داریاں باری باری سونپی جائیں۔ اس سے بچوں کے اندر صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں بالخصوص سماجی صلاحیتیں، اور وہ اپنے آپ کو مصروف رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں کلاس روم کا مینجمنٹ بہتر طور پر ہوتا ہے۔ بچوں کو مصروف رکھنے کے کئی طریقے ہیں۔ ان کے مختلف گروپ یا ہاؤس بنا دیے جائیں۔ ایک گروپ یا ایک ہاؤس جس کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا ہے روم کی صفائی کا انتظام کرے۔ ایک گروپ بچوں کے اندر نظم و نسق قائم کرنے کا اہتمام کرے ۔ کوئی ایک طالب علم کبھی حاضری لے لے۔ یہ بات عجیب لگے گی کہ حاضری لینا تو ٹیچر کا کام ہے، لیکن ہاں، یہ کام طلبہ سے بھی باری باری لیا جاسکتا ہے ۔ اس سے بچوں میں جوش و جذبہ پیدا ہوگا اور وہ اپنے اندر ہمت محسوس کریں گے۔ مثال کے طور پر کسی طالب علم سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ طلبہ کی ہوم ورک کاپیاں جمع کرے۔کسی طالب علم سے کہا جائے کہ پنسل کو شارپ کرنے کی ذمہ داری لے اور جس کو بھی پنسل تراشنا ہے، وہی تراشے۔ اس طرح چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں کلاس روم کی اور کبھی کبھی کلاس روم کے باہر کی بھی بچوں کو دی جاسکتی ہیں۔ اس سے ان کی مصروفیت اور کلاس روم سے ان کا لگاؤ بڑھے گا ۔ ان میں ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہوگا اور ان کا تناؤ بھی کم ہوگا۔
(ج) تیسرا ’ R‘ روٹین (Routine)کا ہے۔ روٹین یعنی روزمرہ کیے جانے والے کام ۔ روز مرہ کیے جانے والے کام بھی بچوں کے ذمے دیے جاسکتے ہیں ۔اس سے کلاس روم کا ایک روٹین طے ہوجاتا ہے اور کلاس روم مینجمنٹ کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ یعنی ٹیچر کلاس روم میں آتے ہی پہلے حاضری لے رہے ہیں یا اس سے پہلے بچوں کی ہلکی پھلکی تفریح کا سامان مہیا کررہے ہیں، مثلاً ورزشی عمل یا بچوں کا تناؤ دور کرنے کے لیے ہنسی کا ماحول بنایا جاسکتا ہے یا کچھ اور ۔ اسی طرح آپ نے کلاس روم میں پڑھایا ، اس کے بعد تھوڑا وقفہ دیا۔ اس وقفے میں بچے پڑھائے گئے سبق کا اعادہ کریں گے یا آپ اسے دوبارہ پڑھائیں تو یہ سب روٹین کا حصہ ہوسکتا ہے ۔ اس طرح کی کوئی بھی روٹین ہو، اگر ان کا اہتمام ہوگا تو مینجمنٹ میں آسانی ہوگی۔ غرض یہ کہ یہ تینوں ’ آر ‘ کلاس روم مینجمنٹ کو بہتر بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
طلبہ میں ادراک پیدا کیا جائے۔
کلاس روم مینجمنٹ کا یہ ایک اہم عنصر ہے۔ جب استاد سبق پڑھاتا ہے تو سبق اس طرح پڑھائے کہ طلبہ اس مضمون میں ڈوب جائیں ۔ اسے انگریزی میں امرشن اِن نالج ’’ Immersion in knowlege‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ اہم کام ہے جو ٹیچر کی جانب سے کیا جانا چاہیے ۔ سبق اس طرح سمجھائیں کہ تمام بچے اسے آسانی سے سمجھ لیں اور اس میں ڈوب جائیں۔ اس کے لیے پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کے تدریسی عمل میں آپ کی شمولیت بھی بے انتہا ضروری ہوتی ہے۔ جیسا کہ ٹیچر جانتے ہیں کہ بچے مختلف انداز سے سیکھتے ہیں، مختلف انداز سے سمجھتے ہیں ، لہٰذا ٹیچر وہ انداز اختیار کرے جس سے بچوں کے سیکھنے کا عمل بہتر ہوسکے۔ وہ اپنی ذہنی سطح سے پڑھانے کے بجائے بچوں کی ذہنی سطح کا لحاظ رکھ کر پڑھائیں گے تو کلاس روم مینجمنٹ صحیح ہوگا ورنہ بچوں کو نیند آئے گی، وہ اکتاہٹ اور بوریت محسوس کریں گے، جسمانی طور پر تو وہ کلاس روم میں موجود رہیں گے لیکن ذہنی طور پر غیر حاضر رہیں گے۔ غرض بہترین ٹیچر وہ ہے جو کلاس روم کا بہترین انداز میں انتظام کرتے ہیں۔ اس کے لیے ٹیچر کو زیادہ سے زیادہ اختراعی ( Creative) طریقے استعمال کرنے چاہئیں ۔اب تک اوپر جو طریقے بیان کیے گئے ہیں ، یہی کافی نہیں ہیں۔ یہ تو محض آپ کی رہ نمائی اور اختراعی صلاحیتوں کو تحریک دینے کے لیے تھے، اس میں آپ مزید عناصر کا اضافہ کرکے اپنے تدریسی عمل کو بہتر اور کلاس روم مینجمنٹ کو معیاری بناسکتے ہیں۔
شریر بچوں کو کیسے کنٹرول کریں؟
تقریباً دنیا کے تمام حصوں میں جہاں اسکول قائم ہیں ، وہاں کلاس روم کا یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔اسے ( Disruptive Activities )یعنی کلاس میں خلل ڈالنا کہا جاتا ہے۔یہ عمل تین طرح کے ہوتے ہیں۔اول : کلاس روم میں معمولی خلل ڈالنا (Minor Distuptive Activities ) ۔
دوم: کچھ زیادہ خلل ڈانے والا عمل (Acute Disruptive Activities) ۔ سوم : بہت زیادہ خلل ڈالنے والا عمل (Major Disruptive Activities) ۔
پہلا معمولی خلل ڈالنے والا عمل قابل معافی ہوسکتا ہے۔ یہ معمولی غلطی ہے ۔ اس میں طلبہ کبھی کوئی آواز نکالتے ہیں یا پنسل سے ٹیبل پر آواز پیدا کرنے یا پڑوس کے بچے کو چھیڑنے یا پھر اس طرح کی دوسری حرکتیں کرتے ہیں جس سے کلاس کے تمام طلبہ ان بچوں کی طرف متوجہ ہوجاتے ہے اور کلاس روم میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ خلل زیادہ سنگین نہیں ہوتا ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے لیے ٹیچر پہلے تو خلل پیدا کرنے والے بچے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معمولی خفگی کا اظہار کریں، وجہ دریافت کر یں اور کبھی کبھی نظر انداز بھی کردیں۔ اگر اس سے مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے تو یہ کلاس روم کی کمی بھی ہوسکتی ہے یعنی کہ کلاس روم میں بچوں کو پوری طرح مصروف نہیں رکھا جارہا ہے۔ اس لیے کلاس روم مینجمنٹ میں بچوں کو مصروف رکھنا ایک اہم اصول ہے۔ بچوں کو کلاس روم میں جتنا مصروف رکھا جائے گا، اتنا ہی بہتر طور پر کلاس روم کا مقصد حاصل ہوگا۔ لہٰذا ٹیچر کو چاہیے کہ وہ اس طرح کا تدریسی عمل اختیار کرے کہ پورا کلاس مصروف رہے، متوجہ رہے اور ہر بچے پر ٹیچر کی نظر رہے۔ دوسرا خلل ڈالنے کا جو معاملہ ہے ، وہ کچھ بڑا ہوتا ہے ۔ جب ایسا کچھ بڑا معاملہ ہوجاتا ہے تو طالب علم کو علاحدہ پرنسپل کی کیبن میں یا اسٹاف روم میں بلایا جائے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ ایک کرسی برائے احساس خطا ( Realization Chair) ہونی چاہیے ۔
جس پر بچے کو بٹھایا جائے اور اسے احساس دلایا جائے کہ اس نے جس حرکت کو انجام دیا ہے ، وہ کیسی ہے، اس کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور اس کی یہ حرکت کیوں ناخوش گوار ہے وغیرہ ۔ اسی گفتگو میں بچوں کو یہ وارننگ بھی دی جائے کہ اگریہ حرکت دوبارہ ہوتی ہے تو پھر والدین کو بلایا جائے گا اور والدین سے اس کی شکایت کی جائے گی۔ یاد رہے کہ بچوں کے جب منفی کردار کلاس روم میں ظاہر ہوتے ہیں تو اس پر ٹیچر فوری منفی رد عمل نہ کرے، نہ ہی بچوں کو برے القاب یا ناموں سے پکارے اور نہ ہی ڈانٹ ڈپٹ کرے۔ اس لیے کہ ٹیچر کے منفی رد عمل کے نتیجے میں طالب علم سے مزید منفی رد عمل ظاہر ہوتا ہے ۔ یہ انسانی نفسیات ہے۔ لہٰذا ٹیچر جب کلاس روم میں ہونے والی شرارتوں کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں تو وہ طلبہ کی اس نفسیات کا بھی ضرور خیال رکھیں۔ تیسری جو شرارت ہے وہ ذرا سنگین نوعیت کی ہوتی ہے جس میں طالب عالم اسکول کی کسی پراپرٹی یا ملکیت کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ مثلاً لائٹ پھوڑ دینا، کھڑکی کے شیشے توڑ دینا یا پنکھے کو خراب کردینا یا کرسیوں کی توڑ پھوڑ کرنا وغیرہ۔ ایسے معاملات میں بچوں کے خلاف مناسب کارروائی مشورے کے ساتھ ہونی چاہیے ۔ اس میں سرپرستوں(Parents) کو بھی بلایا جاسکتا ہے۔
ٹیچنگ لرننگ میڑیل کا استعمال، TLM ( Teaching Learning Materials)
’ٹیچنگ لرننگ میڑیل‘ وہ اشیاء ہوتی ہیں جن کے ذریعہ موضوعِ مضمون یا نفس مضمون کو سمجھانے میں مدد ملتی ہے۔ مثلاً کاغذ کی بنائی ہوئی ایک مصنوعی گھڑی کے ذریعہ بچوں کو وقت دیکھنا سکھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح کاغذ یا لکڑی سے بنائی گئی مختلف شکلیں جیسے مثلث، مربع اور مخمس ۔ ایسے مختلف ’ٹی ایل ایم‘ آج مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ کلاس روم کی بہتر تنظیم اور بچوں کی توجہ کو مرکوز کرانے کے لئے ’ ٹی ایل ایم ‘ معاون و مددگار ہوتے ہیں۔ اس کے ذریعہ مختلف اصول و دروس کو کم وقت میں بہترین انداز میں ذہن نشین کرایا جاسکتا ہے۔
ہم نصابی سرگرمیاں (Co-Curriculum Activities)
ان میں چند ایسی ہیں جو کلاس روم میں کرائی جاسکتی ہیں اور چند کلاس روم سے باہر۔ وہ’ ہم نصابی سرگرمیاں‘ جنہیں کلاس میں کیا جاسکتا ہے، انہیں استعمال کرنے سے تمام بچوں کی شرکت بڑھتی ہے، ان کا تناؤ کم ہوتا ہے ۔ لہٰذا ’ہم نصابی سرگرمیوں ‘کو سبق کے دوران بھی استعمال کرتے رہنا چاہیے۔
(ختم شد)
(مکمل مواد کتابچے کی شکل میں دستیاب ہے۔ اور 9844158731 پر وہاٹس ایپ مسیج بھیج کراس کتابچہ کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔)
***

 

***

 ’ٹیچنگ لرننگ میڑیل‘ وہ اشیاء ہوتی ہیں جن کے ذریعہ موضوعِ مضمون یا نفس مضمون کو سمجھانے میں مدد ملتی ہے۔ مثلاً کاغذ کی بنائی ہوئی ایک مصنوعی گھڑی کے ذریعہ بچوں کو وقت دیکھنا سکھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح کاغذ یا لکڑی سے بنائی گئی مختلف شکلیں جیسے مثلث، مربع اور مخمس ۔ ایسے مختلف ’ٹی ایل ایم‘ آج مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ کلاس روم کی بہتر تنظیم اور بچوں کی توجہ کو مرکوز کرانے کے لئے ’ ٹی ایل ایم ‘ معاون و مددگار ہوتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جنوری تا 28 جنوری 2023