آواز دو انصاف کو ،انصاف کہا ں ہے؟
انصاف کا فریاد کرتا ہندوستان کا استحصال زدہ اور متاثر طبقہ
فادر سیڈرک پرکاش ایس جے
نئی دہلی،
ملک میں ایک بڑا طبقہ مسلسل انصاف کی فریاد کر رہا ہے اور ایک لمبے عرصے سے انصاف کا انتظار کر رہے اس مظلوم طبقے کی بے چینی اب بڑھتی جا رہی ہے ۔ یہ انصاف کے متلاشی معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور خاص طور پر ان طبقات کے افراد جو ابھی بھی استحصال کا شکار اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ملک میں انصاف کے لیے اٹھنے والی آواز اب چینخ میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ کوئی بھی عقل مند ان آوازوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا، تاہم افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ یہ چیخیں اور آوازیں اپنی موت مر رہی ہیں ۔کیونکہ جن لوگوں کو ان فریادوں کو سننا اور جواب دینا چاہیے انہوں نے اپنے کان بند کر لیے اور اپنے دل سخت کر لیے ہیں۔
جنید اور ناصر کے لیے بھی انصاف کی آواز بلند ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ ان دونوں مسلم نوجوانوں کو 16 فروری کو ہریانہ کے بھیوانی ضلع میں شدت پسند ہندوتو کے غنڈوں نے مبینہ طور پر اغوا کر کے مارا پیٹا ،انہیں زدو کوب کیا پھر انہیں آگ کے حوالے کر دیا۔ وہ راجستھان کے بھرت پور کے گاؤں گوپال گڑھ کے رہنے والے تھے ۔ یہ اندوہناک واقعہ ان کے گاؤں سے 100 کلومیٹر دور ان کے ساتھ پیش آیا،ان دونوں نوجوانوں کو گائے کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر ہندو نواز تنظیموں کے غنڈوں نے انہیں نشانہ بنایا۔ جنید اور ناصر کو پیروکہ کے جنگل سے اغوا کر کے بھیوانی کے برواس گاؤں لے جایا گیا، جہاں انہیں قتل کر کے ان کی گاڑی سمیت انہیں نذر آتش کر دیا گیا۔
جنید اور ناصر کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کا قتل شدت پسند ہندوتو تنظیم بجرنگ دل کے ارکان نے کیا ہے اور اس بہیمانہ قتل کے پیچھے بجرنگ دل لیڈر مونو مانیسر کا ہاتھ ہے۔ اگرچہ کچھ دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، لیکن سڑکوں پر ان کے حامی ان کی فوری رہائی اور ان کے گھناؤنے جرم کو جائز ٹھہرانے کے لئے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں۔
انصاف کے لئے در در بھٹک رہے ہیں درشن سولنکی ! یہ اٹھارہ سالہ دلت طالب علم ممبئی میں آئی آئی ٹی میں پڑھتا تھا۔ بنیادی طور پر اس کا تعلق احمد آباد سے ہے، اس کے والد، رمیش بھائی، پلمبر کا کام کرتے ہیں اور اس کی ماں، ترالیکا بین، گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ درشن نے 12 فروری کو خودکشی کی تھی۔ اس نے کوئی خودکشی نوٹ نہیں چھوڑا! تاہم، اس کے زیادہ تر ساتھی طلباء اور دیگر جو اس کے شناسہ تھے، نے بتایا کہ درشن کو اس کی ذات کے پس منظر کی وجہ سے امتیازی سلوک اوراستحصال کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے لوگ اسے ‘ادارتی قتل’ قرار دیتے ہیں۔ اسے ہندوستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے میں داخل ہوئے صرف تین ماہ ہوئے تھے۔ بدقسمتی سے دلت طالب علم کی موت کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس طرح کے اور بھی معاملے سامنے آ چکے ہیں اور آتے رہتے ہیں۔
آشابین (تبدیل شدہ نام) انصاف کی فریاد کر رہی ہے! وہ ابھی نابالغ ہے، جھارکھنڈ کی ایک 17 سالہ قبائلی دوشیزہ ہے۔ اسے ایک دولت مند میاں بیوی نے گھریلو ملازم کے طور پر رکھا تھا، مگر اس کے ساتھ ایسا ظلم کیا گیا جس کا تصور کر کے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ آشا بین کے ساتھ پانچ ماہ تک جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا رہا۔ آشابین خود پر ہوئے ظلم کی داستان بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’انہوں نے مجھے لاٹھیوں سے مارا… انہوں نے مجھے لوہے کے گرم چمٹے سے مارا اور میرے ہاتھوں اور ہونٹوں پر بلیڈ سے نشانات بنائے۔ وہ (گھر کی مالکن) ماچس کی تیلی جلاتی اور کاغذ جلاتی اور اس سے مجھے مارتی… ایک بار توانہوں نے میرا گلا گھونٹنے کی کوشش کی اور مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی، صرف رات کو مجھے کھانے کے لیے دیا جاتا تھا اور وہ بھی صرف چاولوں کا ایک چھوٹا سا پیالہ دیا جاتا تھا ۔ اور اکثر بچا ہوا کھاناہوتا تھا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’کئی دنوں سے بھوکے رہنے کی وجہ سے وہ کوڑے دان سے کھانا اٹھا کر کھاتی تھیں…اکثر ڈرائینگ روم میں فرش پر سونا پڑتا تھا…بغیر کپڑوں کے۔ انہوں نے وہ تمام کپڑے پھاڑ دیے تھے جو میں اپنے ساتھ لائی تھی۔ انہوں نے مجھے برہنہ کر کے میرے حساس اعضا پر ڈنڈوں سےمارا۔ آج ملک میں لاکھوں آشا بین ہیں! ان کے مالکان اپنی دولت، حیثیت، طاقت اور پہنچ کی وجہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں۔
2002 کے گجرات قتل عام کے متاثرین، زندہ بچ جانے والے انصاف کی فریاد کر رہے ہیں!آج( 27/28 فروری کو)گجرات میں ان المناک دنوں کی برسی ہے۔ بلاشبہ یہ آزاد ہندوستان کا سیاہ ترین باب ہے۔ ان افراد اور اداروں کا شکریہ جو متاثرین اور پسماندگان کو انصاف دلانے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ کچھ معاملات میں انصاف بھی ملا ہے۔ تاہم، سچائی یہ ہے کہ گجرات میں کئی ہفتوں تک مسلسل جاری رہے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود، اس گھناونے جرم میں براہ راست ملوث ہونے کے پختہ اور ناقابل تردید ثبوتوں کے باوجود، فسادات کے ماسٹر مائنڈ اور سرغنہ کو ابھی تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا ہے۔
اب بھی بہت سے ملزمان سڑکوں پر بے خوف گھوم رہے ہیں اور بڑی چالاکی سے خود کو بچائے ہوئے ہیں۔ کیا دنیا کبھی بلقیس بانو، ذکیہ جعفری، روپا مودی اور دیگر سینکڑوں لوگوں کے درد اور صدمے کو بھول سکتی ہے جنہوں نے اپنے عزیزوں کو کھو دیا؟ 2002 کا گجرات قتل عام، نازی حکومت کے دوران ہولوکاسٹ کی طرح، ہمیشہ کے لیے بنی نوع انسان کے ذہنوں میں نقش ہے، یہ ہمیشہ یادوں میں زندہ رہے گا – جب تک کہ انصاف کی فریاد نہیں سن لی جاتی ۔
بلقیس بانو بھی انصاف کی فریاد کر رہی ہے! ہاں، اپنے لیے، اپنے عزیزوں کے لیے اور ان تمام خواتین کے لیے جو ایک سنگدل، ظالم معاشرے کے ظلم کا شکار ہیں! آج وہ اس ذلت کو قبول نہیں کر پا رہی ہیں کہ اس گھناؤنے تشدد کے گیارہ مجرموں کو جیل کی سزا سے بچا لیا گیا ہے اور اب انہیں کلین چٹ دے دیا گیا ہے۔
بلقیس بانو اپنے درد کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں ، ’’میرے خاندان کے چاروں افراد کو بے دردی سے قتل کر دیاگیا۔ کئی شر پسندوں نے خواتین کو برہنہ کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے مجھے پوری طرح جکڑ لیا۔ اس وقت میری 3 سال کی بیٹی صالحہ میری گود میں تھی۔ ان بے رحم ظالموں نے اسے چھین لیا اور پوری قوت سے ہوا میں اچھال دیا۔ جب اس کا ننھا سر پتھروں سے ٹکرایا تو میرا دل دہل گیا۔ چار آدمیوں نے میرے ہاتھ پاؤں پکڑے اور ایک ایک کر کے میری عصمت دری کی۔ اپنی ہوس کی پیاس بجھانے کے بعد انہوں نے مجھے لاتوں اور گھونسوں سے مارا اور ڈنڈوں سے سر پر مارا ۔ مجھے مردہ سمجھ کر، انہوں نے جھاڑیوں میں پھینک دیا۔
بلقیس نے مزید بتایا کہ مجھے چار پانچ گھنٹے بعد ہوش آیا۔ میں نے اپنے جسم کو ڈھانپنے کے لیے کچھ چیتھڑے ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن مجھے کچھ نہیں ملا۔ میں نے ڈیڑھ دن پہاڑی کی چوٹی پر بغیر دانا پانی کے گزارے۔ میں موت کو ترستی رہی ۔ آخر کار، میں ایک قبائلی کالونی تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ وہاں میں نے خود کو ہندو کہہ کر پناہ لی۔ حملہ آوروں نے مجھے ایسی گالیاں دیں جسے میں کبھی نہیں دہرا سکتی۔
دلدوز واقعہ بیان کرتے ہوئے بلقیس نے کہا، ’’انہوں نے میری ماں، بہن اور 12 دیگر رشتہ داروں کو میرے سامنے قتل کیا۔ وہ ہمارے ساتھ زیادتی کر رہے تھے اور ہمیں مار رہے تھے۔ میں انہیں یہ بھی نہیں بتا سکی کہ میں پانچ ماہ کی حاملہ ہوں کیونکہ انہوں نے میرے منہ اور گردن کو پاؤں سے دبا رکھا تھا۔ میں ان تمام لوگوں کو جانتی ہوں جنہوں نے میری عصمت دری کی۔ ہم ان کو دودھ بیچتے تھے۔ وہ ہمارے گاہک تھے۔ اگر انہیں ذرا سی بھی شرم ہوتی تو وہ میرے ساتھ ایسا نہ کرتے۔ میں انہیں کیسے معاف کر سکتی ہوں ؟”
انصاف کی فریاد کرتے تارکین وطن مزدور ! ایک اندازے کے مطابق 400 ملین لوگ ہندوستان کے غیر منظم شعبے میں انتہائی قلیل یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور بغیر کسی معاہدے، پنشن، تنخواہ کی چھٹی، صحت سے متعلق فوائد اور انتہائی خراب حالات میں کام کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تارکین وطن مزدور ہیں۔ وہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ تارکین وطن مزدور عام طور پر اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔ جب وہ کسی دوسری ریاست میں جاتے ہیں تو مقامی زبان سے نا واقف ہوتے ہیں۔
مزدوروں کے کام کرنے کے حالات غیر معقول یا غیرمحفوظ ہیں اس کے لیے کوئی بھی ان کے ان حالات کا جائزہ نہیں لیتا ہے۔ وہ مزدور مقامی ریاستی حکومت کے ریکارڈ میں بھی نہیں درج ہیں۔ وہ تقریباً تمام ریکارڈوں سے غائب ہیں۔ جب 2020 میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا، تارکین وطن مزدوروں کی دہ دہلا دینے والی تصاویر ہمیشہ لوگوں کے ذہنوں میں نقش رہیں گی۔ مزید برآں، کووِڈ وبا کے عروج پر، حکومت نے چار لیبر قوانین منظور کیے جن کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ قوانین مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور مالکان خاص طور پر کارپوریٹ شعبے کے حق میں ہیں۔
عیسائی انصاف کے لیے فریاد کر رہے ہیں! اس چھوٹی سی اقلیتی برادری کے لیے زندگی کبھی اتنی تنگ نہیں رہی! عیسائیوں پر بدستور حملے اور ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے، گرجا گھروں اور مقدس چیزوں کی توڑ پھوڑ اور بے حرمتی کی جاتی ہے، عیسائی پادریوں اور عبادت کے لیے جمع ہونے والے لوگوں پر جھوٹا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ 19 فروری کو، 15,000 سے زیادہ عیسائی نئی دہلی کے جنتر منتر پر ایک دعائیہ اور پرامن احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔ تمام مقررین نے موجودہ حکومت کو کھلے عام عیسائیوں کو ہراساں کرنے، ڈرانے اور حملہ کرنے پر اکسانے کی تنقید کی۔
وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور سنگھ پریوار کے طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) جیسی فاشسٹ تنظیموں کو عیسائی اداروں پر حملہ کرنے کا مکمل جواز فراہم کیا جاتا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ عیسائی عبادت گاہوں میں ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں نصب کی جائیں اور ان کی پوجا کی جائے۔ ایسا ہی ایک واقعہ 20 فروری کو گجرات کے امریلی کے سینٹ میری اسکول میں پیش آیا۔ غنڈوں نے دن بھر ہیڈ ماسٹر، اسٹاف اور طلباء کو ہراساں کیا۔ نہ سرکاری تعلیمی افسر اور نہ ہی مقامی پولیس کوئی کارروائی کرکے غنڈوں کو روکنا مناسب سمجھتی ہے۔ ایسے بہت سے دوسرے معاملات ہیں جب سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں نے عیسائیوں کو ‘جبراً تبدیلی مذہب’ جیسے جھوٹے الزامات کے نام پر ڈرایا اور دھمکایا ہے۔
اقلیتیں انصاف کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں! عیسائیوں اور بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی شبیہ راکشش کے طور پرپیش کر کے بدنام کیا جاتا ہے ۔ حالیہ برسوں میں اس کی سب سے بڑی مثالیں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی)، کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی ہیں۔ متعدد ریاستوں میں نام نہاد ‘تبدیلی مذہب مخالف’ قوانین مکمل طور پر ملک میں اقلیتوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
اسی طرح اور بھی بہت سے معاملات ہیں جیسے کہ اقلیتیں اور دیگر کمزور طبقے کیا کھاتے ہیں، کیاپہنتے ہیں، کیادیکھتے ہیں اورکیا پڑھتے ہیں، اکثریتی طبقے کے بہت سے لوگوں کے لیے اعتراض کا موضوع بن گیا ہے۔ اقلیتوں کا ذریعہ معاش تباہ کیا جا رہا ہے۔ اقلیتی برادری کے کسی فرد کو سرکاری ملازمت نہیں دی جاتی – چاہے وہ شخص ضروری اہلیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔ اقلیتوں کے خلاف زہریلی نفرت انگیز تقریریں روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ جو لوگ ایسے بیانات دیتے ہیں وہ کھلم کھلا ایسا کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
انصاف کی فریاد کرتے رائے دہندگان ! کرناٹک اسمبلی انتخابات سے پہلے، ہزاروں اہل راے دہندگان، خاص طور پر عیسائی اور مسلم رائے دہندگان کے نام پراسرار طور پر فہرست سے غائب ہو گئے۔ یہ انصاف کا مذاق ہے۔ تین شمال مشرقی ریاستوں میں بھی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ تقریباً ہر حالیہ انتخابات میں دیکھا گیا ہے کہ کس طرح لوگوں کے اصل مسائل: ان کی روزی، روزگار کے مواقع، خوراک کی حفاظت، ماحولیاتی انصاف اور رہائش کو پس پشت ڈال کر مذہب، فرقہ اور ذات کے مسائل پر پولرائز کیا جاتا ہے۔
رائے دہندگان کو کسی خاص پارٹی/امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے یا انہیں ڈرایا جاتا ہے۔ گجرات کے حالیہ انتخابات جمہوریت کے نام پر محض ایک دکھاوا تھے، حکمرانوں کے مافیا نے انتخابات سے قبل بہت سے ووٹروں سے ووٹنگ آئی ڈی (ای پی آئی سی) چھین لئے اور ان کے ووٹوں کا استعمال خود کیا ۔ کچھ کو ایسا کرنے یا کسی مخصوص امیدوار/پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے پیسوں کی ادائیگی کی گئی۔ گائے کا گوشت اور شراب اور دیگر ‘تحفے’ مفت تقسیم کیے گئے۔ انتخاب سے پہلے اور بعد میں بھی ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔
انسانی حقوق کے محافظ انصاف کے لیے لڑ رہے ہیں! ان لوگوں کا شکریہ جنہوں نے غریبوں، مظلوموں اور معاشرے کے دیگر کمزور طبقوں کے لیے بے خوف ہوکر باہر آنے کی ہمت کی ہے – حقیقت ابھی سامنے آنا باقی ہے۔ انسانی حقوق کے بہت سے محافظ اب بھی اپنے دلیرانہ اور بے لوث اقدامات کی قیمت چکا رہے ہیں۔بھیما کوریگاؤں سازش معاملے میں ورنن گونسالویس، ارون فریرا اور دیگر ابھی بھی جیل میں ہیں۔ فادر اسٹین سوامی جن کا 5 جولائی 2021 کو ادارہ جاتی طور پر قتل کر دیا گیا تھا،ان کی بے گناہی ثابت کرنے کی جدو جہد ابھی تک جاری ہے۔ تیستا سیتلواڈ، آر بی سری کمار اور سنجیو بھٹ کو ہراساں کیا گیا اور ان پر بے بنیاد مقدمات قائم کئے گئے۔ یہ ان کے اور ان کے خاندانوں کے لیے آسان نہیں ہے، انصاف کا پہیہ واقعی بہت آہستہ چلتا ہے۔ تاہم، وہ آخری سانس تک انصاف کے لیے لڑنے کے لیے پرعزم ہیں!
پریس اوراظہارِ رائے کی آزادی انصاف کا مطالبہ کر رہی ہے! ‘گودی’ میڈیا کے زیر تسلط ملک میں اقتدار کے سامنے سچ بولنا مشکل ہے! 2 فروری کو صحافی صدیق کپن کو 846 دن (28 ماہ) جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت پر رہا کیا گیا۔ لکھنؤ جیل سے رہائی کے موقع پر کپن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ انہیں غلط طریقے سے ایک کیس میں کیوں پھنسایا گیا اور جیل بھیجا گیا۔ تاہم، وہ یوپی کے ہاتھرس جا رہے تھے، جہاں حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے غنڈوں نے ایک دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی تھی ۔
کوئی بھی میڈیا ہاؤس (چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک)، اگر وہ حکومت پر حملہ کرتا ہے – اسے سرکاری اشتہارات (ریونیو) سے محروم کردیا جاتا ہے اور ای ڈی، سی بی آئی، انکم ٹیکس، این آئی اے اور دیگر قانونی اداروں کے ذریعہ چھاپے مارے جاتے ہیں اور ان پر مشکلات پیدا کئے جاتے ہیں۔ ممبئی اور دہلی میں بی بی سی کے دفاتر پر حالیہ چھاپے اس کی بہترین مثال ہیں۔
جمہوریت میں آزاد پریس ایک لازمی شرط ہے، عالمی رہنماؤں اور حکومتوں نے اس معاملے پر ہندوستان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مزید برآں، مودی پر بی بی سی کی فلم پر پابندی – جو کہ تحقیق کے بعد درست، مستند اور معروضی ہے – اس بات کی واضح مثال ہے کہ حکومت کس طرح اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنا چاہتی ہے۔ ایک فاشسٹ حکومت کا کتنا ظالمانہ رویہ ہے جو سچ کا سامنا کرنے سے بھی خوفزدہ ہے!
آج ہندوستان انصاف کے لیے کراہ رہا ہے! جنید اور ناصر، درشن اور آشابین، 2002 کے گجرات قتل عام کے متاثرین- بلقیس بانو، روپا مودی اور ذکیہ جعفری، تارکین وطن مزدور، اقلیتیں- مسلمان، عیسائی اور دیگر، انسانی حقوق کے محافظ- ورنن، ارون، تیستا، سری کمار، سنجیو اور مزید دیگر; رائے دہندگان اور بہت سے لوگ جو آزادی اظہار پر یقین رکھتے ہیں انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیرالہ کے ماہی گیر، میگا پروجیکٹ ڈویلپرز اور کان کنی مافیا بے گھر ہو چکے ہیں اور ماحولیات کے بارے میں فکر مند ہیں۔ LGBTQIA کمیونٹیز، چھوٹے کسان اور چھوٹے سرمایہ کار جو ایک بدعنوان حکومت کا شکار ہو گئے ہیں، جنہیں اڈانی جیسے ساز باز والے سرمایہ داروں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔ ایسے بہت سے مظلوم ہیں جو انصاف کے منتظر ہیں؛ یہ فہرست بہت لمبی ہے! مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے ایک بار کہا تھا – "ناانصافی چاہے کہیں پر بھی ہو وہ ہر جگہ انصاف کے لئے خطرہ ہے ‘‘
آج ہندوستان میں ناانصافی ہر جگہ ہے! جب تک معاشرے کے ہر طبقے کے لیے انصاف کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا اور اسے حقیقت نہیں بنایا جاتا، انصاف کی صدا بلند ہوتی رہے گی۔
لیکن کیا کوئی سن رہا ہے ؟
(فادر سیڈرک پرکاش ایس جے۔۔۔۔ حقوق انسانی کارکن اور مصنف ہیں)