صحت سے بے توجہی، اللہ کی نعمت کی ناشکری

تندرستی کے لیے نبوی ہدایات پر عمل کریں

صہیب احمد شکیل احمد خان

صحت خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ عبادت کی تکمیل بھی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ بدن انسانی صحت مند نہ رہے۔ اسلامی عبادات میں نماز اور حج ایک صحت مند انسان ہی صحیح طور سے ادا کرسکتا ہے۔ لہذا ارکان اسلامی کی ادائیگی کے لیے ایک صحت مند جسم کی ضرورت ہے۔ اچھی صحت پر ہی انسان کی خوشگوار زندگی کی بنیاد ہوتی ہے۔ صحت مند انسان اپنے لیے بھی بہتر ہوتا ہے، سماج کے لیے بھی مفید ہوتا ہے اوراللہ رب العالمین کو بھی پسندیدہ ہوتا ہے۔
اسلام نے اپنی تعلیمات میں بار بار صحت کی جانب توجہ دلائی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ’’تم پر تمہارے جسم کا حق ہے‘‘ (بخاری) اور قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ ’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی اچھائی عطا فرما۔ اور آخرت میں بھی اچھائی عطا فرما اور ہمیں آخرت کے عذاب سے بچا‘‘ (البقرہ:۲۰۱)
صحت کو خراب کرنے والی ایک بنیادی وجہ گندگی اور آلودگی ہوتی ہے، اسلام نے بڑی تاکید کے ساتھ ایسی ہدایت فرمائی ہے جس سے گندگی ختم ہو اور صفائی و پاکی حاصل ہو۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا: اپنے کپڑوں کو پاک و صاف رکھو‘‘۔ (مدثر :۴) بلکہ رسول عربیﷺ نے تو یہاں تک فرمادیا کہ ’’صفائی آدھا ایمان ہے‘‘ (مسلم) اسلام اپنے ماننے والوں کو صحت مند و توانا دیکھنا چاہتا ہے۔ جس کا اشارہ حدیث پاک میں کچھ یوں ملتا ہے :’’قوی مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر ہے‘‘ ( مسلم) اسلام حکم دیتا ہے کہ صحت جیسی عظیم نعمت کی ہمہ وقت قدر کی جائے اور اس کی حتیٰ الامکان حفاظت کی جائے اور اس میں لاپرواہی سے اجتناب کیا جائے۔ ارشاد نبوی ہے ’’اپنی صحت کو مرض آنے سے پہلے پہلے غنیمت جانو‘‘۔ (ترمذی)
لہذا صحت کی جانب بے توجہی اللہ کی نعمت کی ناشکری ہے اور اس کی دی ہوئی امانت میں خیانت ہے۔ صحت کی حفاظت کا سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ مرض سے بچاو کی تدبیر کی جائے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’’احتیاط علاج سے بہتر ہے‘‘۔ اسلام کے بہت سے احکام ایسے ہیں جن کا یہ مقصود ہے کہ مرض سے تحفظ ہو۔
چنانچہ صفائی اور پاکی اختیار کرنے اورگندگی کو دور کرنے کا حکم ہے۔ وضو کے ذریعہ جسم کے کھلے ہوئے حصوں کو دھونے کا حکم ہے۔ غسل کرنے کی ترغیب ہے۔ کھانا کھانے سے قبل ہاتھ دھونے کی ہدایت ہے۔ صفائی سے متعلق یہ سارے احکام مرض ہونے سے پہلے اس سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح کھانے پینے کے بارے میں ایسے طریقے بتائے گئے ہیں جن کی وجہ سے جسم کی صحت اچھی رہے۔ چنانچہ رسول عربی ﷺ نے پانی ٹھہر ٹھہر کر پینے کا حکم دیا۔ (ترمذی) پانی کے برتن میں سانس لینے سے منع کیا (بخاری) اور بھوک سے کچھ کم کھانے کی تعلیم دی۔ (ترمذی)
یہ تعلیمات بھی انسان کو امراض سے محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں سماجی زندگی میں ایسے کاموں کی سخت ممانعت فرمائی گئی جن سے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ دوسروں کو نقصان پہونچے۔ چنانچہ رسول اکرم نے دو شخصوں پر لعنت بھیجی ہے ایک وہ شخص جو راستے میں پاخانہ کرتا ہے (مسلم) آپ نے ٹھہرے ہوئے پانی میں بھی پیشاب کرنے سے سخت منع فرمایا ہے۔ (مسلم) اسی طرح راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو صدقہ قرار دیا ہے (بخاری)
یہ تعلیمات اور احکام بتاتے ہیں کہ انسان کی انفرادی اور سماجی زندگی ایسی ہو جہاں امراض پیدا ہونے کے امکانات باقی نہ رہیں اور انسانی صحت کو بہتر بنائے رکھنے کی تمام ضروری تدبیریں پہلے سے اختیار کی جائیں۔
اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ شفا اور مرض دونوں اللہ کی جانب سے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی قرآن میں کہلا گیا ’’جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اللہ ہی مجھے شفا دیتا ہے‘‘ (شعرا:۸۰) یہ بات یقینی ہے کہ نہ تو صرف مرض سے موت ہوتی ہے اورنہ صرف دو اسے شفا ہوجاتی ہے جب تک کہ اس میں اللہ کی مرضی ومشیت شامل نہ ہو۔
لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام نے بڑی وضاحت کے ساتھ بتایا کہ ہر مرض کی دوا بھی اللہ نے پیدا کی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا:’اے اللہ کے بندو! علاج کراو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی دوا بھی رکھی ہے۔ سوائے ایک بیماری کے ، صحابہ کرام نے دریافت کیا: وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: بڑھاپا (ترمذی) ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک دیہاتی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم علاج کرائیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں! علاج کراو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر ساتھ میں اس کی شفا بھی اتاری ہے۔ جو اسے جانتا ہے وہ اسے جانتا ہے اور جونہیں جانتا وہ نہیں جانتا(مسند احمد) علاج کے سلسلہ میں ایک اور اہم بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب دوا بیماری کو لگ جاتی ہے تو مریض اللہ کے حکم سے شفایاب ہوجاتا ہے (مسلم)
بیماریاں کچھ اسباب کی وجہ سے ہوتی ہیں اسلام نے حکم دیا ہے کہ اچھے اسباب اختیار کیے جائیں اور مضر اسباب سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا جائے۔ رسول اکرم نے کھانے پینے اور دوسری چیزوں میں کچھ ایسی باتوں کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے جن سے انسان کی صحت بہتر رہ سکتی ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: برتن کو ڈھانک دیا کرو، مشکیزہ کو ڈاٹ لگادو، دروازے کو (رات میں ) بند کردو اور چراغ کو (سوتے وقت) بجھادو (مسلم)
اسی طرح کھانا کھانے سے قبل ہاتھ دھونے کا حکم دیا گیا ہے اور جمائی کے وقت منہ پر ہاتھ رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے (ترمذی) اور سوکر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھونے کا حکم دیا گیا ہے (بخاری) امراض سے تحفظ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امراض کے جراثیم دوسروں تک نہ پہنچیں۔ اس سلسلہ میں رسول اکرمﷺ نے ایک اصولی رہنمائی فرمائی ہے کہ جس علاقے میں طاعون کی بیماری ہو وہاں سے کوئی باہر نہ جائے (مسلم)
قرآن و حدیث کی ان واضح تعلیمات سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ پہلے امراض سے تحفظ اوربچاو کی تدبیریں اختیار کی جائیں اور ایسے اسباب و وسائل اختیار کیے جائیں جن کی وجہ سے بیماری نہ ہو اور اگر کسی وجہ سے بیماری لاحق ہوجائے تو مکمل طور پر اس کا علاج کیا جائے اور علاج اس یقین کے ساتھ کیا جائے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر بیماری کی شفا تجویز کر رکھی ہے اور اللہ کی رحمت سے قطعاً مایوس نہ ہوں کیونکہ اللہ نے خود اس سے منع فرمایا ہے۔ (القرآن)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  30 جنوری تا 5فروری 2022