اداریہ

ازدواجی تعلقات اور خاندانی نظام کا ڈی این اے ٹیسٹ

انفرادی و سماجی اخلاق و کردار، ازدواجی تعلقات اور خاندانی نظام کی مضبوطی، یہ وہ عوامل ہیں جو کسی بھی سماج میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک کو امن و سکون اور قوت و طاقت عطا کرتے ہیں۔ ان خصوصیات سے عاری سماج مادی ترقی و خو ش حالی کے باوجود امن و سکون، ذہنی و قلبی اطمینان اور حقیقی مسرت سے محروم رہتا ہے۔مغربی تہذیب آج اسی کیفیت سے دوچار ہے ۔مغرب کے برعکس مشرق میں ہمیشہ شرم و حیا،عفت وعصمت کا تحفظ اور پاکیزہ ازدواجی تعلقات کو اہمیت حاصل رہی ہے۔لیکن مادی ترقی کی ہوڑ میں مشرقی ممالک بھی مغربی تہذیب کی نقالی میں انہی اقدار و روایات کو اختیار کرتے چلے گئے چنانچہ ہمارا ملک بھی بہت تیزی کے ساتھ اسی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔یہاں خواتین پر ظلم و ستم، زیادتی و زبردستی اور دیگر برائیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں بعض ایسے چونکا دینے والے واقعات، شرمناک معاشرتی رویے، عدالتی فیصلے اور قوانین میں تبدیلیاں سامنے آئی ہیں جو ملک کے خاندانی نظام اور اخلاقی اقدار کے زوال کو نمایاں کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں مدراس ہائی کورٹ میں پیش ہونے والے ایک مقدمے میں شوہر نے اپنی بیوی کی جانب سے بے وفائی کی شکایت کی اور ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ پیش کر کے یہ ثابت کیا کہ اس کے گھر میں پرورش پانے والا بچہ اس کا نہیں بلکہ کسی اور مرد کا ہے۔ بیوی پر لگایا گیا یہ الزام ثابت ہونے پر عدالت نے مرد کی جانب سے دائر کی گئی طلاق کی درخواست کو منظور کر لیا۔ جب کہ اس سے قبل فیملی کورٹ نے اسی مقدمے کو محض اس لیے خارج کر دیا تھا کہ شوہر نے اس شخص کی نشان دہی نہیں کی تھی جس کے ساتھ اس کی بیوی کے تعلقات تھے۔
ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں آج سے کچھ برس پہلے اسی طرح ایک شخص نے اپنے اور اپنے بیٹے کا ڈی این ٹسٹ کروایا جس سے یہ پتہ چلا کہ اس کا حیاتیاتی باپ وہ نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔ اس سلسلے کا چونکا دینے والا انکشاف یہ ہے کہ ڈائریکٹوریٹ آف فارنسک سائنسز کے مطابق 2016 اور 2017 میں ولدیت کے تعین کے لیے سالانہ 160 یعنی ہر ہفتہ تین معاملات ان سے رجوع ہوتے تھے اور ان پدرانہ ٹیسٹ کے نتائج نے ثابت کیا کہ 90 فیصد کیسوں میں بچے کا باپ وہ نہیں ہے جو اس کی ماں کا شوہر تھا۔ اس کے بعد تو اس طرح کے ٹسٹوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا گیا اور ہر ہفتہ پانچ سے زائد لوگ جانچ کے لیے فارنسک لیب کو رجوع ہونے لگے اور ان میں بھی بیویوں کی بے وفائی کا تناسب 90 فیصد سے زیادہ رہا۔ یہ تمام واقعات خاندانی نظام میں بگاڑ اور معاشرتی اقدار کے زوال کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اس صورت حال کو ہمارے ملک میں قانونی پشت پناہی بھی حاصل ہے کیوں کہ یہاں کے قوانین کے مطابق شادی شدہ افراد کا غیر ازدواجی تعلق قانوناً جرم نہیں ہے بلکہ اسے فرد کی آزادی کا حق قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں دفعہ 497 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ازدواجی تعلقات میں بے وفائی کو جرم کی فہرست سے خارج کر دیا۔ اس فیصلے نے معاشرتی رویے میں تبدیلی پیدا کی اور ازدواجی زندگی میں اعتماد کی کمی کو فروغ دیا۔ نتیجتاً اس رویے نے ازدواجی تعلقات کے تقدس اور خاندانی نظام کی بنیادوں کو کمزور کر دیا۔
ملک کی موجودہ حکومت اور یہاں کے سیاسی قائدین کو اس صورت حال کی نہ تو کوئی فکر ہے اور نہ ان کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت ہے بلکہ اب تو حکومت اور سیاسی لیڈروں کے نزدیک اخلاق و عفت کی حفاظت کے بجائے ملک میں نفرت و تعصب کو فروغ دینا ہی ترجیح اول بن گئی ہے۔ سیاسی لیڈر معاشرتی ہم آہنگی کو مستحکم کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم اور نفرت کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ اور ایسے ماحول میں تمام اخلاقی اصولوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور نئی نسل کی تربیت میں اخلاقی اقدار کو پوری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال نے خاندانی نظام کی بنیادوں کو مزید کمزور کر دیا ہے اور معاشرتی انتشار کو جنم دیا ہے۔ حالاں کہ خاندانی نظام کا بکھرنا معاشرتی بگاڑ کی ایک بڑی وجہ ہے، جس کے نتیجے میں متعدد سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں:
خاندانی نظام کی کمزوری بچوں کی نفسیاتی صحت پر براہ راست اثر ڈالتی ہے۔ والدین کے باہمی جھگڑے، طلاق اور بے وفائی کے واقعات بچوں کو ذہنی دباؤ کا شکار بناتے ہیں جو آگے چل کر عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی تعلیمی اور سماجی کارکردگی متاثر ہو جاتی ہے۔
جب غیر ازدواجی تعلقات کو قانونی تحفظ حاصل ہو تو معاشرے میں اخلاقی انحطاط تو بڑھے گا ہی۔ افراد کے درمیان اعتماد کا فقدان ہو جاتا ہے۔ ازدواجی رشتوں کی کمزوری اور طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح معاشرتی انتشار کو جنم دیتی ہیں اور خاندانی تعلقات کو اہمیت نہ دینے کا رجحان فروغ پاتا ہے۔ خاندانی نظام کی کمزوری آئندہ نسلوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ بچے اپنے والدین کی زندگی سے سبق لیتے ہیں اور انہی کے رویے کو اپناتے ہیں۔ جب بچے طلاق یا غیر ازدواجی تعلقات جیسی صورت حال کا سامنا کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں خاندانی تعلقات کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ یہ رویہ ان کے مستقبل کے رشتوں اور معاشرتی ذمہ داریوں پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں آہستہ آہستہ یہ سارے اثرات نمودار ہونے لگے ہیں۔اگر وقت رہتے ان پر قابو نہ پایا گیا تو سماج کو پوری طرح تباہ و برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔اس صورت حال کو بدلنے اور سماج کی اصلاح کرنے میں یہاں بسنے والے مسلمان بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں خاندانی نظام کی مضبوطی، عفت و پاکیزگی اور ازدواجی تعلقات میں وفاداری پر غیر معمولی زور دیا گیا ہے۔ قرآن اور احادیث میں واضح طور پر کسی بھی قسم کے ناجائز تعلقات کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ نکاح کو محض ایک سماجی معاہدہ نہیں بلکہ عبادت قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دینا، ان کے باہمی اعتماد، محبت اور احترام کی علامت ہے۔اسلام نے زنا کو ایک سنگین جرم قرار دیا اور اس کے مرتکبین کے لیے سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔ اس کا مقصد نہ صرف فرد کی اخلاقی حفاظت ہے بلکہ معاشرتی امن و سکون کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ غیر ازدواجی تعلقات کے اثرات معاشرتی بگاڑ، بے راہ روی اور خاندانی نظام کی کمزوری کی صورت میں سامنے آتے ہیں، جنہیں اسلام نے سختی سے روکا ہے۔
اسلام کے خاندانی نظام میں محبت، باہمی اعتماد اور اخلاقی ذمہ داریوں کی پاسداری کا حکم دیا گیا ہے۔ شوہر اور بیوی کے تعلقات میں وفاداری کو لازمی قرار دیتے ہوئے معاشرتی امن کی بنیاد فراہم کی گئی ہے۔ان سب امور کو باشندگانِ ملک کے سامنے لانا اور ایک صالح معاشرے کی تشکیل کے عملی جدوجہد کرنا مسلمانوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ یہاں کے عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ملک کو ایک ایسے معاشرتی نظام کی ضرورت ہے جس میں خاندان باہمی محبت، اعتماد اور عفت مآبی کے اصولوں پر ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کریں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان اصولوں کو اپنانا، معاشرتی اصلاح اور امن و سکون کے لیے ایک مثالی نمونہ ثابت ہو گا جو ملک کو موجودہ نفرت و تعصب کی ناپاک فضا سے نکال کر مثبت رویوں کی سمت میں لے جا سکتا ہے۔