اخلاقی محاسن انسانی معاشرت کی وہ اساس ہیں جن پر ہماری تہذیب، ہمارے معاشرتی ڈھانچے اور انفرادی کردار کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ان محاسن کے بغیر نہ صرف ہماری ذاتی زندگی بلکہ اجتماعی زندگی بھی مختلف فتنوں اور برائیوں کا شکار ہوجاتی ہے۔ اخلاقی اقدار اور اصول انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو سنوارتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آزادی کی حقیقی روح کو بھی پروان چڑھاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں نے جب بھی اخلاقی قدروں کو بالائے طاق رکھ کر بے محابا آزادی کا استعمال کیا تو پورا معاشرہ بدترین قسم کی برائیوں میں مبتلا ہو کر تباہ و برباد ہوگیا۔ اور جب اسی آزادی کو لازمی اخلاقی بندشوں کے ساتھ استعمال کیا گیا تو وہ معاشرہ ایک پاکیزہ معاشرے کی حیثیت سے سکون و اطمینان کی دولت سے مالامال ہوا۔
آج جب کہ دنیا بھر میں سیاسی، سماجی، اور اقتصادی تبدیلیوں کا دور دورہ ہے، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں انسان نے حیرت انگیز ترقی کی ہے، وہیں انسانی سماج میں آزادی، عدل و انصاف اور مساوات جیسی قدروں کو بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آزادی کی اس مثبت قدر کے معاملے میں انسان نے اعتدال کی روش باقی نہیں رکھی اور آزادی کے اس تصور نے رفتہ رفتہ ہر قسم کی اخلاقی بندشوں کو توڑ پھینکا۔حالاں کہ یہ آزادی محض ایک حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے جس کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں انسانی معاشرہ بدترین اخلاقی زوال سے دوچار ہوگیا۔ اخلاقی زوال کے اس پورے منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے شعبہ خواتین نے یہ طے کیا کہ ماہ ستمبر 2024 کے دوران "اخلاقی محاسن: آزادی کے ضامن” کے مرکزی موضوع ہر ایک ملک گیر مہم منائی جائے اور وطن کے تمام انسانوں کے سامنے اس بات کو واضح کیا جائے کہ اخلاقی قدروں کے بغیر حقیقی آزادی کا تصور محض ایک سراب ہے۔
ہفت روزہ دعوت کا زیر نظر شمارہ جماعت اسلامی ہند کے شعبہ خواتین کی جانب سے منائی جانے والی اس مہم کی مناسبت سے اسی موضوع پر محیط ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے اس خاص شمارے کا مقصد "اخلاقی محاسن: آزادی کے ضامن” کے موضوع پر گہرائی میں جا کر بحث کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے جن موضوعات کا انتخاب کیا ہے وہ ہمارے قارئین کو سوچنے پر مجبور کریں گے اور انہیں موجودہ معاشرتی مسائل کے حل کے بارے میں غور و فکر کرنے کی ترغیب دیں گے۔
"اخلاقی محاسن: آزادی کے ضامن” کے عنوان پر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے آزادی کے فلسفیانہ اور اخلاقی پہلوؤں پر گفتگو کی ہے۔ آزادی کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ اور اخلاقی محاسن کس طرح اس کی بنیاد بنتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے ان سوالات پر انتہائی اہم باتیں بیان کی ہیں۔ یہ مضمون آزادی کے بنیادی اصولوں اور اخلاقیات کے مابین گہرے تعلق کو واضح کرے گا۔
دعوت کے مستقل کالم نگار ڈاکٹر ساجد عباسی نے اسلامی اخلاقیات کی بنیادوں کو اپنے مضمون کا موضوع بنایا ہے۔
یہ مضمون اسلامی تعلیمات کے تناظر میں اخلاقی محاسن کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں آزادی کے تصور کو سمجھنا اور اسلامی معاشرت میں اخلاقی محاسن کی عملی شکل کو بیان کرنا اس مضمون کا مرکزی موضوع ہے۔
افہام و تفہیم: اخلاقی محاسن کے تحت بزرگ مضمون نگار محترمہ جاویدہ بیگم ورنگلی نے ایک مکالمہ کے ذریعہ آسان زبان میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اخلاقی محاسن کیسے آزادی ضامن ہوسکتے ہیں۔
خصوصی شمارے کے اگلے مضمون کا عنوان ‘فطرت سے بغاوت اخلاقی زوال کاذریعہ’ ہوگا۔ جناب آصف اقبال نے اس مضمون میں جدید دور کی بعض ایسی برائیوں اور ان کے نتائج پر سیر حال بحث کی ہے جنہیں ہندوستانی سماج اور بھارت کے قانون میں بتدریج قبولیت حاصل ہوتی جارہی ہے۔
حسب معمول پروفیسر ظفیر احمد نے معیشت ہی کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے اور تجارت میں اخلاقی محاسن کی اہمیت اور ان کے اطلاق پر بحث کی ہے ۔حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف کی زندگی کو بطور نمونہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح ایمانداری، دیانتداری اور منصفانہ تجارت کے اصول ایک کامیاب اور پائیدار تجارتی نظام کے ضامن بن سکتے ہیں۔
محترمہ عمارہ فردوس نے انسانی تہذیب پر ماحول کے اثرات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے ایک پاکیزہ و صالح معاشرے تعمیر کے لیےجہاں عفت و حیا کا نمایاں کردار ہوتا ہے وہیں ایک متبادل پاکیزہ ماحول بھی ضروری ہے۔
جناب انور حسین صاحب کے مضمون کا عنوان ماس میڈیا، عورت اور اخلاق ہے۔ اس مضمون میں میڈیا کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے اور خاص طور پر نسائیت کی نمائندگی کے حوالے سے میڈیا کی اخلاقی ذمہ داریوں پر بحث کی گئی ہے۔ یہ مضمون ہمارے قارئین کو میڈیا کی اخلاقیات کے حوالے سے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرے گا۔ صحافت میں اخلاقیات ہی کے موضوع پر ایک اور مضمون میڈیا اور اخلاقیات کے کچھ دوسرے پہلووں پر روشنی ڈالتا ہے۔
تعلیم اور اخلاقی محاسن کے عنوان پر یہ مضمون تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت کی اہمیت اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالتا ہے۔ جناب شہاب فضل نے اپنے اس مضمون میں یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح تعلیم کے ذریعے اخلاقی اقدار کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور طالب علموں کی شخصیت سازی میں ان کا کردار کیا ہے۔
جدید ٹکنالوجی اور اخلاقیات کے عنوان سے یہ مضمون ٹکنالوجی کے دور میں اخلاقیات کی ضرورت اور چیلنجوں سے قارئین کو واقف کرواتا ہے اور ساتھ ہی ڈیجیٹل اخلاقیات کے موضوع پر ایک گہرا اور معروضی جائزہ پیش کرتا ہے۔یہ مضمون جواں سال اسکالر ڈاکٹر ابو مظہر صدیقی نے تحریر کیا ہے۔
ادب اور اخلاقی محاسن کے موضوع کے تحت اس شمارے میں دو مضامین شامل ہیں، ایک مضمون ادارہ ادب اسلامی کے سینئر رہنما ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی کا تحریر کردہ ہے جس کا عنوان اردو فکشن میں آزادی نسواں اور اصلاح معاشرہ کا تصور ہے۔ اس میں موصوف نے آزادی نسواں کے حوالے سے اردو فکشن کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ جب کہ ادب میں اخلاقی اقدار کی نمائندگی اور ان کے معاشرتی اثرات پر مبنی دوسرا مضمون ڈاکٹر فاطمہ تنویر نے لکھا ہے۔ یہ مضمون ادبی تخلیقات میں اخلاقیات کے کردار کو اجاگر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کیسے ادب نے معاشرتی شعور کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس شمارے کا ایک خاص حصہ اس ملک گیر مہم کی کنوینر محترمہ آسیہ تسنیم کے انٹرویو پر مشتمل ہے۔اس گفتگو میں انہوں نے مہم کے مقاصد، مرکزی موضوع سے متعلق بنیادی تصورات اور اس مہم کے متوقع نتائج پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
ہم نے اس شمارے میں ان تمام اہم موضوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے جو ہماری زندگی کے مختلف پہلووں سے متعلق ہے اور جو حقیقی آزادی کے حصول، پاکیزہ معاشرے کی تعمیر اور انسانی سماج کی متوازن ترقی کے لیے اخلاقی محاسن کے کردار کو بیان کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ مضامین ہمارے قارئین کو نہ صرف متعلقہ موضوع پر گہری بصیرت فراہم کریں گے بلکہ انہیں اخلاقیات کی اہمیت کو سمجھنے، ان کی تبلیغ و تلقین کرنے اور انہیں اپنی زندگی میں اپنانے کی ترغیب دیں گے۔
ڈاکٹر فہیم الدین احمد
گذشتہ اسٹوری