اداریہ

الیکشن کمیشن کا مکمل آزاد اور خود مختار ہونا ضروری

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں پارلیمانی و ریاستی انتخابات الیکشن کمیشن آف انڈیا کی نگرانی میں ہوتے ہیں جو ایک آزاد، خود مختار اور نیم عدالتی ادارہ ہے۔ ایک مضبوط اور مستحکم جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں انتخابات آزادانہ اور صاف ستھرے ہوں۔
الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اس وقت لگ گیا جب اس نے پہلے مر حلے کی ووٹنگ کے 11دن بعد یعنی30 اپریل کو حتمی اعداد و شمار جاری کیے۔ الیکشن کے دن شام 7 بجے جو خام اعداد شمار جاری کیے گئے اور 11 دن بعد جو اعداد و شمار جاری کیے گئے اس میں 6 فیصد کا واضح فرق تھا۔ اپوزیشن رہنماؤں نے الزام لگا یا کہ حکومتی مشنری نے خفیہ طور پر الیکشن کے بعد اس میں چھ فیصد کا ا ضافہ کیاہے۔
مودی کے دور حکومت میں آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار دو الیکشن کمشنروں نے دوران مدت اپنے منصب سے استعفیٰ دیا۔ ان کی جگہ جن الیکشن کمشنروں کا عجلت میں تقرر کیا گیا اس نے اس ادارہ کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا یا۔ ظاہر ہے ان کی تقرری میں ان کا پس منظر اور ان کی سیاسی وابستگی اس اندیشہ کو تقویت پہنچاتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر ہی ناچیں گے۔
مارچ 2023 کے فیصلے میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے وزیر اعظم، حزب اختلاف کے لیڈر اور چیف جسٹس آف انڈیا کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ الیکشن کمشنروں کا تقرر کر یں گے، تاہم حکومت نے پارلیمنٹ سے قانون بنوا کر اس ضابطہ کو بدل دیا اورچیف جسٹس آف انڈیا کی جگہ ایک مرکزی وزیر کا نام رکھ دیا یعنی اب الیکشن کمشنروں کی تقرری پوری طرح حکومت کے تابع ہوگی۔
پارٹیوں کی فنڈنگ کے لیے جب 2017 میں الیکٹورل بانڈز کی اسکیم کو لایا گیا تو انکم ٹیکس ایکٹ، عوامی نمائندگی قانون ،(Representation of People’s Act)اور کمپنی ایکٹ میں ترمیمات کی گئیں ۔یہ کہا گیا کہ سرمایہ داروں کی طرف سے سیاسی پارٹیوں کو جو نقد رقم دی جاتی ہے ،اسے کنٹرول کرنا پیش نظر ہے ۔ریزرو بینک آف انڈیا اور الیکشن کمیشن اس اسکیم سے مطمئن نہیں تھے۔ انہیں یہ کہہ کر خاموش کر دیا گیا کہ حکومت کیش فلوکو روک کر پارٹیوں کی فنڈنگ کو ضابطے کا پابند بنانا چاہتی ہے تاہم یہ اسکیم ہمیشہ اعتراضات وشکوک کے دائرے میں ہی رہی۔ نہ تو سرمایہ دار اس بات کے پابند تھے کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے کس کو اور کتنے فنڈز دیے اور نہ ہی سیاسی پارٹیوں کو بتانا تھا کہ انہیں کس نے اور کتنی رقم دی ہے ۔لہذا یہ پورا معاملہ صیغہ راز ہی میں رہا ۔سپریم کورٹ نے 15 فروری 2024 کو اپنے ایک تاریخی فیصلے میں اسکیم کو غیر دستوری اور واضح من مانی قرار دے کر ختم کر دیا نیز اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو حکم دیا کہ وہ 6 مارچ تک اپریل 2019 سے فروری 2024 تک دیے گئے الیکٹرول بانڈ ز کی تمام تفصیلات الیکشن کمیشن کے حوالے کر دے اور الیکشن کمیشن سے کہا گیا کہ وہ اطلاع موصول ہونے کے ایک ہفتے کے اندر اسے ظاہر کر دے۔ اسٹیٹ بینک کے تمام حیلوں اور بہانوں کو جب سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تو بینک کے سامنے کوئی عذر باقی نہیں رہا ۔الیکٹورل بانڈ سے متعلق جب تمام تفصیلات سامنے آئیں تو پہلی بار اہل ملک کو معلوم ہوا کہ کتنا بڑا کرپشن اسکینڈل بظاہر قانونی انداز میں جاری تھا ۔نامور ماہر اقتصادیات اور وزیر خزانہ محترمہ نرملا سیتارمن کے شوہر پرکالا پربھاکر کے بقول یہ صرف ملک کا سب سے بڑا گھوٹالہ نہیں بلکہ دنیا کا سب سے بڑا کرپشن ہے۔ظاہر ہے حکمران جماعت نے الیکٹورل بانڈز کے ذریعے کئی ہزار کروڑ روپے بٹورلیے اور الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہا۔ لیکن الیکٹورل بانڈ اسکیم کے تحت جس طرح بڑی بڑی کمپنیوں سے کبھی دھمکیاں دے کر کبھی ان پر مقدمات عائد کر کے اور کبھی ان کے عوض انہیں بڑے بڑے کنٹریکٹ دے کر رقومات بٹورتی رہی اس پر الیکشن کمیشن کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور اس نے اس پر نہ تو حکومت کو کوئی نوٹس جاری کیا اور نہ ہی اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ حکومت ایک طرف حزب اختلاف کے بے باک سیاسی رہنماؤں کی مختلف بہانوں سے لوک سبھا کی رکنیت منسوخ کرتی رہی اور دوسری طرف ان پر کبھی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ،کبھی سی بی آئی اور کبھی انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعہ چھاپے ڈلواتی اور انہیں جیل کے حوالے کرتی رہی ۔ یہاں تک کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ عہدہ پر فائز رہنے کے باوجود جیل پہنچا دیے گئے۔ یہ تمام کارروائیاں پارلیمانی انتخابات کے نوٹیفیکیشن کے بعد بھی جاری رہیں۔
الیکشن کمیشن کےجانبدارانہ رویہ کا ایک اور مظہر ای وی ایم مشین پر اس کا اڑیل رویہ ہے۔ جب حزب اختلاف نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ تمام ووٹوں کے لیے وی وی پیاٹ (VVPAT) کو لازمی قرار دیا جائے اور اس کی بھی الگ سے گنتی کی جائے تو اس مطالبہ کو مستردکر دیا گیا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تو سپریم کورٹ نے بھی اسے ناقابل عمل کہہ کر رد کر دیا۔
ملک میں انتخابات کو شفاف، آزاد انہ اور منصفانہ بنانے کے لئے اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ایک مکمل آزاد اور بااختیار ادارہ بنا یا جائے۔ الیکشن کمشنروں کی تقرری میں حکومت یا کسی بھی سیاسی پارٹی کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ ملک میں تاناشاہی کو روکنے، جمہوریت کے استحکام اور دستور کی بالادستی کے ایسا کرنا اب ناگزیر ہو گیا ہے۔