اداریہ

سیاسی بے وزنی کا تجزیہ کریں

اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابی سیاست میں سب سے زیادہ زیر بحث رہنے کے باجود ہندوستانی مسلمان سیاست میں بے وقعت اور بے وزن ہوکر حاشیہ سے لگ گئے ہیں۔ بی جے پی کے لیے تو مسلمان انتخابی سیاست کا ایک اہم مہرہ بن گئے ہیں وہ کبھی ان کو گھس پیٹھیا (در انداز) کہہ کر اور کبھی ان کی بڑھتی ہوئی آبادی کا خوف دلا کر ہندؤوں کا ووٹ بٹورنے کی کوشش کرتی ہے اور کبھی ان کو زک پہنچانے کے لیے طرح طرح کے حیلے اور بنانے تراشتی ہے۔ ویسے بھی وہ اگر اقتدار میں رہتی ہے تو اس کی زیادہ تر کوششیں اور فیصلے مسلمانوں کو تعلیمی، معاشی اور سیاسی طور پر بے دست و پا کرنے، ان کے شہری حقوق کو چھینے اور اکثریت کا دست نگر بنانے کے لیے ہوتے ہیں۔ اسی طرح این آر سی اور این پی آر کے ذریعہ اپنے ہی ملک میں ان کی مساجد پر قبضے، ان کے شعائر کی بے حرمتی، ان کی بستیوں کو بل ڈوزر کے ذریعہ تاراج کرنے، ان کے متحرک افراد کو بے بنیاد الزامات اور فرضی مقدمات میں پھنسا کر پسِ زندان کرنے، لنچنگ کے ذریعہ ان میں خوف ہراس پیدا کرنے، یونیفارم سیول کوڈ کے ذریعہ ان کی شریعت میں مداخلت کرنے، ان کے کاروبار کو متاثر کرنے، ان کی تنظیموں اور اداروں پر پابندیاں عائد کرنے، مدرسہ بورڈ کے تحت قائم کردہ ان کے دینی مدارس کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے بند کر دینے، حجاب پر پابندی، لو جہاد اور دیگر بہانوں سے مسلم بچے اور بچیوں پر عصری تعلیمی کے دروازے بند کرنے، عام ذبیحہ کے علاوہ مختلف جانوروں کے ذبیحے پر بھی لگا تار پابندیاں عائد کرکے ان کے کاروبار اور ان کے خورد ونوش کے مسئلہ کو مشکل بنا دینے، ان کے محلوں اور بستیوں کو شہری اور بنیادی سہولتوں سے محروم کر دینے جیسے معاملات تو بڑھتے ہی جا رہے ہیں; ان سب پر مستزاد بی جے پی اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جس طرح چاہیں اور جو چاہیں کریں، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ سیکولر سیاسی پارٹیوں پر اس کا مسلسل یہ الزام ہے کہ وہ مسلمانوں کی منہ بھرائی کرتی ہیں۔
دوسری طرف سیکولر سیاسی پارٹیاں بھی مسلمانوں کو ایک ووٹ بینک سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ نہ تو مسلمانوں کے جائز مطالبات پر کان دھرتی ہیں اور نہ ہی ان کی آبادی کے تناسب سے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں انہیں نمائندگی دینے کے لیے آمادہ ہیں۔ نہ وہ مسلمانوں سے متعلق کسی ایشو پر کوئی موقف اختیار کرتی ہیں۔ ان کا یہ احساس ہے کہ مسلمان تو بی جے پی کے خوف سے ہمیں ووٹ دینے کے لیے مجبور ہیں، چاہے ہم ان کے کسی اہم سے اہم مسئلہ پر کوئی اسٹینڈ لیں یا نہ لیں، انہیں قانون ساز اداروں میں مناسب نمائندگی دیں یا نہ دیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں حکم راں پارٹی نے ملک گیر سطح پر اور ان ریاستوں میں جہاں وہ بر سر اقتدار ہے، مسلمانوں کے قانونی و آئینی حقوق پر کئی بار دست درازیاں کیں لیکن ان پارٹیوں کے کان پر جون تک نہیں رینگی۔ CAA اور NRC پر ملک گیر پیمانے پر مسلمانوں نے تحریک چلائی جس کی زمام کار ملت کے طلباء و نوجوان اور خواتین کے ہاتھوں میں تھی، سیول سوسائٹی نے بھی بالآخر اس میں اپنا وزن ڈال دیا لیکن مسلمانوں کا ووٹ بٹورنے والی یہ پارٹیاں خاموش تماشائی بنی رہیں۔ جس وقت CAA کا امتیازی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا، اس وقت اس کی جتنی مخالفت ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی۔ اس قانون کے خلاف تحریک چلانے والے نوجوانوں کو جب پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے زد وکوب کیا گیا اس وقت بھی یہ خاموش رہیں اور جب بے بنیاد اور فرضی الزامات کے تحت انہیں گرفتار کر لیا گیا اس پر بھی انہوں نے ایک لفظ نہیں کہا۔ جب مسلمانوں کے گھروں پر بل ڈوزر چلائے گئے، ان کی آبادیوں کو اجاڑ دیا گیا تب بھی ان کی داد رسی تک نہیں کی۔ بی جے پی اور اکثریت کے خوف میں انہوں نے اپنی پارٹیوں کے مسلم عہدیداروں کو انتخابی مہم سے دور ہی رکھا۔ حتی کہ جب سیکولر سیاسی پارٹیوں کو جوڑ کر انڈیا الائینس بنایا گیا تب بھی مسلم قیادت والی پارٹیوں کو اس سے دور رکھا گیا۔
مسلمانوں کے ذریعہ شروع کی گئیں سیاسی پارٹیوں کے سامنے بھی صرف مسلمانوں کے مفادات ہی رہتے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے دروازے دوسرے طبقات کے لیے کشادہ نہیں کیے۔ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے انہیں بھی مسلم قومیت (فرقہ واریت) والی زبان اختیار کرنی پڑی اور مسلمانوں کے مطالبات ہی ان کے ایجنڈے کا مرکز بنے رہے۔ لہٰذا وہ مسلمانوں کی اصولی اور خیر امت والی پوزیشن اختیار نہیں کرسکے۔ پھر ملک کی تقسیم اور پاکستان بنانے کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا گیا اور جب مسلمانوں کے مطالبات کے لیے مسلم پارٹیاں وجود میں آئیں تو ہندتو عناصر نے یہ کہ کر آسمان سر پر اٹھا لیا کہ مسلمان ایک تو اپنا حصہ لے کر الگ ہو گئے اور اب ملک کے وسائل پر اپنا پوراحق جتانے لگے۔ مسلم پارٹیوں کی پیش رفت کا فائدہ بالآخر فسطائی اور فرقہ پرست پارٹیوں کے کھاتے میں چلا گیا۔ مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ ان پارٹیوں کو ملک کی اکثریت یا ان کے کسی طبقہ کے ووٹ نہیں مل رہے ہیں تو انہوں نے بھی انہیں ایک طرح سے مسترد کر دیا۔ مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی اور بے وقعتی کا تجزیہ کیا جائے تو قومی مسلم سیاسی پارٹیوں نے اس میں خاصا اضافہ ہی کیا ہے۔
ہندووں کو اگر ووٹ کے خانوں میں بانٹ کر دیکھا جائے تو مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اکثریت قرار پائیں گے۔ تاہم سیاسی اعتبار سے وہ بالکل الگ تھلگ پڑگئے ہیں۔ نہ ملک کے اہم فیصلوں میں اور نہ ہی پالیسی سازی میں ان کا کوئی حصہ ہے اور نہ ہی وہ سیاسی اعتبار سے ملک کی کسی بھی پارٹی پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں ہیں حالانکہ ہر الیکشن میں وہ بڑے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔ دوسری جانب ہندوؤں کی چھوٹی چھوٹی ذاتیں جن کی ٓآبادی بعض ریاستوں میں محض ایک فیصد سے تین فیصد تک ہے، وہ بھی اپنی پارٹی بنا کر قانون ساز اداروں میں پہنچ کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
مذکورہ بالا حالات امت کے ارباب حل وعقد اور ملی و دینی جماعتوں اور علماء و دانشوروں کو آواز دے رہے ہیں کہ وہ اس سیاسی بے وزنی اور بے وقعتی کے اسباب و تجربات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اس کے تدارک کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔ بصورت دیگر امتِ مسلمہ سیاسی میدان کا فٹبال بن کر ایک گول پوسٹ سے دوسرے گول پوسٹ کے درمیان ٹھوکریں کھاتی رہے گی۔