وزیر اعظم مودی جب بھی بات کرتے ہیں، ملک اور ملک کے ہر شہری کے نمائندے کے طور پر بلکہ خود کو سب کے ترجمان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں سوا کروڑ پھر ایک سو تیس کروڑ اور اب ایک سو چالیس کروڑ عوام کے لیے شب و روز سرگرم عمل رہنے والے ایک فکر مند اور ملک اور اہل وطن کے لیے وقف شدہ خادم کے طور پر پیش کرنا کسی بھی قوم و ملک کے نمائندے کے لیے مطلوب ہے۔ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواش اور سب کا پریاس‘ کا ان کا نعرہ ان کی پارٹی ایک سیاسی اسٹیٹمنٹ کے طور پر استعمال کرتی ہے جب کہ حزب مخالف ان کی حکمرانی کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے طنزیہ طور پر بھی اس نعرہ کو بیان کرتا آیا ہے۔ یوں تو سابقہ دہے کے دوران کتنے نعرے ایجاد کیے گئے اور ان کا کیا حشر ہوا خود ایک تحقیق کا موضوع بن سکتا ہے۔ سردست جن نعروں کی یاد دہانی مقصود ہے وہ ہیں ’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘ اور ’میں دیش کا چوکیدار ہوں‘ نیز ’دیش بکنے نہ دوں گا‘۔
دراصل بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے، انتخابی بانڈز کے ذریعے سیاسی پارٹیوں کے چندے کا جو چور راستہ کھولا گیا تھا اس کی پول کھول کر راہ آسان کر دی ہے۔ اگلے ماہ تک ہر پارٹی انتخابی کمیشن کو یہ بتائے گی کہ اس کو کس کس نے بنکوں کے ان بانڈز کے ذریعے کتنے عطیہ دیے؟ ملک کے جہد کار ان بانڈز اور کورونا کے زمانے میں اعلان کردہ ’پی ایم کیر فنڈ‘ کی معروضیت اور شفافیت پر لگاتار سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ آر ٹی آئی کا جو ہتھیار شہریوں کو دستیاب ہے اس نے جمہوریت میں فرد اور حاکم کے بیچ ایک توازن اور جواب دہی کو یقینی بنانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ اقتدار نے بالواسطہ اور بلا واسطہ اس قانون کی اثر پذیری کو کم کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ہے۔ کووڈ کی ناکامیوں اور الیکٹورل بانڈز کی خطرناکیوں کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنے کے لیے مذکورہ بالا فنڈ کے بارے میں اتنے جتن کے گئے كہ الامان والحفیظ!
لیکن کہتے ہیں کہ ’اوپر والے کی لاٹھی دیر سے لیکن زور سے چلتی ہے‘ اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آرہا ہے۔ سپریم کورٹ نے ان بانڈز کو نہایت سخت الفاظ کے ساتھ ’غیر آئینی‘ بتاتے ہوئے یہ تبصرہ بھی کیا ہے کہ اس اسکیم کے ذریعے ’حق اطلاعات‘ جیسے شہری حق کی خلاف ورزی بھی ہوئی ہے۔ عدالت نے 30؍ ستمبر 2014 کے تمام بانڈز کی تفصیلات انتخابی کمیشن کے ذریعہ منظر عام پر لانے کی ہدایت دی ہے۔ عین لوک سبھا انتخابات کے سامنے اتنا بڑا عدالت کا فیصلہ حکومت کو ہی نہیں بلکہ دیگر کئی پارٹیوں کو بھی ووٹروں کے سامنے بے لباس کرنے والا ثابت ہو سکتا ہے جس کے بعد سیاستدانوں کے کارپوریٹ سے رشتے کچھ زیادہ ہی اجاگر ہونے والے ہیں۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے 19؍ فروری کو غالباً پہلی بار اشاروں کنایوں میں عدالت پر تبصرہ کیا جسے بانڈز کے معاملے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اتر پردیش کے ضلع سنبھل میں کانگر یس پارٹی کے ذریعہ برخاست کیے گئے ایک سیاسی دھرم گرو آچاریہ پرمود کرشنن کے ’کلکی دھام مندر‘ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ’اگر بھگوان شری کرشن کو نچلی ذات کا کوئی بندہ ’سداما‘ پاول کا تحفہ دے دیتا اور کیمرے میں ریکارڈ ہو جاتا تو عدالت میں کرپشن کا مقدمہ چل جاتا۔‘ صاف ہے کہ بد عنوانی کا سرچشمہ بہنے والے انتخابی بانڈز پر قدغن لگانے والی بات اقتدار کو ہضم نہیں ہو پائے گی۔
کانگریس پارٹی کے بینک اکاؤنٹ کو اچانک منجمد کرنا، مغربی بنگال میں غریبوں کے آدھار نمبر کو منجمد کرنا، ملک بھر میں پولیس شکایت یا عدالتی حکمنامے کے بغیر ہی محض خیالی الزامات کی بنیاد پر مکانات اور کاروبار پر بلڈوزر چلوا دینا، دہائیوں پرانی بستیوں اور اب تو سیکڑوں برس قدیم مساجد اور درگاہوں کو زمین بوس کرنے کا عمل کسی بھی جمہوریت اور مہذب معاشرے کے لیے مناسب نہیں ہے بلکہ ملک میں نظم و قانون کی بالادستی کو ختم کرنے والا یا یوں کہیے کہ آئین کو مجروح کرنے والا عمل ہے۔ آئین کو ختم کرنے کے عمل کے ساتھ کوئی قائد 140 کروڑ عوام کے حقوق کی حفاظت کی گارنٹی دینے کا مکلف کیسے ہو سکتا ہے؟ تعلیم میں چھیڑ چھاڑ lateral Entry کے نام پر آر ایس ایس نظریات کے حاملین کو انتظامیہ میں داخل کرنا، ترنگے کی جگہ زعفرانی جھنڈے کو تقدس بخشنا، جمہور کی جگہ تاناشاہی، سائنس کی جگہ توہم پرستی اور عوام کی ترجیحات و ضروریات کی جگہ کارپوریٹ کو ترجیح دینا ملک کے لیے سراسر نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ حکمراں بلا تامل مندروں میں فوٹو کھنچوا کر سیکولر جمہوریت کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔
چندی گڑھ مئیر کے انتخاب کے دوران بی جے پی اقلیتی سیل کا ایک کارندہ انیل سی سی ٹی وی کیمرے کی طرف دیکھ دیکھ کر ووٹروں سے کھلواڑ کرتا رہا، سو آیا اب ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس جیسے اداروں سے آگے نکل کر معاملہ سیاست دانوں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے۔
بی جے پی کے سابق رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے تو عدالت کی سخت سرزنش کے تناظر میں براہ راست وزیر اعظم مودی کے استعفٰے کامطالہ کر دیا ہے۔ دیگر رد عمل بھی حسب توقع ہی ہے، لیکن جس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اقتدار کی کرسی پر چپکے رہنے کا چسکہ لگنے کے بعد کسی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کرسی خالی کرنے کا اب تک کوئی ریکارڈ منفرد ’چال چرتر و چہرہ‘ رکھنے والی سنگھ کی تعلیم و تربیت سے نکل آئی بی جے پی کے کھاتے میں موجود نہیں ہے۔ حزب اختلاف سے آنے والے بد عنوانی کے مقدمے اور کارروائیاں جھیلنے والے لیڈروں کو اپنی واشنگ مشین میں دھلا کر صاف ستھرا کرنے والے معاشرہ یا سیاست کی کسی اور گندگی کو صاف کر سکیں گے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔
لہٰذا جمہوریت میں عوام اور ووٹر کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اقوام کی تقدیر عوام اور افراد کے ہاتھوں میں لینے کا مرحلہ آن پڑا ہے۔ وہ اخلاقی اقدار اور اقدار پر مبنی سیاست، شفاف کردار والے قائدین، نفرت کی جگہ محبت و رواداری کے علم بردار لوگوں کا حوصلہ بڑھا ئیں۔ در در جا کر جھوٹ کا پردہ فاش کرنا پڑے گا۔ فرد کے دل پر دستک دینے سے بڑا اثر دار کوئی آلہ آج تک ایجاد نہیں ہوا۔ تاریک ترین ادوار میں بھی چاہیں تو کل صبر و ضبط اور جرأت ایمانی کے ساتھ عوام وخواص کے بیچ میں جانا ہو گا اور ملت کو سیسہ پلائی دیوار بنانے کے لیے کلمۂ حق کی طرف یکسو کرنا ہوگا۔ اجتماعیت ہی افراد کو تقویت اور استحکام بلکہ بقاء کی ضمانت دے سکتی ہے۔ صالحیت اور صلاحیت پر کام کرتے ہوئے برادران وطن کے ساتھ مل کر طوفان بد تمیزی پر بندھ باندھنا ہوگا تاکہ فاشزم اور آمریت کے سیلاب سے ملک اور اہل ملک کو بچایا جاسکے۔
گذشتہ اسٹوری