گیان واپی مسجد کیس میں وارناسی کی ضلعی عدالت کے فیصلے اور اس پر انتظامیہ کی جانب سے راتوں رات عمل آوری نے ہمارے ملک، بالخصوص بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں کی عدالتی اور انتظامی صورت حال کو پوری طرح واشگاف کردیا ہے۔ 2؍ فروری کو مسلم قائدین کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملک کی عدالتوں اور انتظامی مشنری کے ایک بڑے حصے نے انصاف، آئین اور قانون کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر یک طرفہ طور پر حکومت کی مرضی کے مطابق فیصلہ صادر کیا جس پر فوری عمل آوری بھی کردی گئی۔ صورت حال یہ تھی کہ مسلم قائدین کی مذکورہ بالا نمائندہ پریس کانفرنس کو دلی کے پریس کلب میں جگہ تک نہیں دی گئی اور کہا گیا کہ وہاں گیان واپی کے موضوع پر بات نہیں کی جاسکتی۔ بعض دانشور یہ کہتے ہیں کہ بی جے پی دراصل 2024 کے ملکی انتخابات کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے جان بوجھ کر ایسی صورت حال پیدا کر رہی ہے، اس لیے مسلمانوں کو ایسے واقعات پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔
یقیناً 2024 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ان پارٹیوں کا ایک اہم ہدف ہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ بی جے پی نے بہار اور جھارکھنڈ کی حکومتوں کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے جس طرح گندی سیاسی کھیل کھیلا وہ سب انتخابات میں کامیابی کے لیے ان کے اتاولاے پن کی واضح مثالیں ہیں۔ لیکن گزشتہ دس برسوں سے ملک میں ہندو تہذیب و ثقافت کی بالا دستی اور دوسرے طبقات بالخصوص مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی مسلسل پامالی اور یہاں رہنے والے مختلف طبقات کے درمیان نفرت و دشمنی پیدا کرنے کی تسلسل کے ساتھ منصوبہ بند کوشش کو محض انتخابات میں کامیابی کے لیے کی جانے والی کوششیں سمجھنا ہمارے خیال میں درست نہیں ہے۔ ہمیں یہ بات کھل کر بتانے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں مقتدر طبقے اور اس کی ہمنوا طاقتوں کا اصل مقصد کیا ہے؟وہ کس طرح مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر پس ماندہ گروہوں کو سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے محروم کر دینا چاہتے ہیں تاکہ ملک پر صرف انہی کی بالادستی قائم رہے۔ بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کا سیاسی، معاشی اور سماجی مقاطعہ نہایت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور فاشسٹ طاقتوں کے عزائم کو اقتدار، انتظامیہ، عدلیہ اور عوام و خواص کے ایک بڑے طبقے کی کھلی پشت پناہی سے مزید حوصلہ مل رہا ہے، اور ان مسلسل کوششوں سے ملک کا سماجی تانا بانا کچھ اس طرح سے بکھر رہا ہے کہ انتخابات میں کامیابی ہو یا ناکامی، دونوں صورتوں میں ان کا مقصد حاصل ہو۔ اور یہی صورت حال مسلمانوں اور ان کے لیے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس موقع پر نہایت ہی دانش مندی اور پوری جرات کے ساتھ قدم اٹھائیں، کیوں کہ اس وقت جرات اور حکمت و دانش دونوں کی ضرورت ہے۔ حکومت اور فاشسٹ طاقتوں کی ان سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمانوں میں مایوسی اور خوف کی جو کیفیات پیدا ہو رہی ہیں اس سے ان کو نکالنا سب سے اہم کام ہے۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ شاید اب کچھ نہیں ہوسکتا لہٰذا وہ اپنے آپ کو حالات کے حوالے کرنے کے در پے ہے۔ روز بروز تنگ ہوتے ہوئے دائرے میں مسلمانوں کو اصل کام کی ضرورت کا احساس پیدا کرنا ہوگا اور انہیں اس احساس کو بھی زندہ کرنا ہوگا کہ انہیں اس ملک میں اصل میں کیا کام کرنا ہے۔ مسلمانوں میں اس بات کا بھی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے عام لوگ اور فاشزم کا علم بردار طبقہ دو الگ الگ گروہ ہیں اور دونوں کے ساتھ ایک ہی طرز عمل اسلامی حکمت علمی کے خلاف ہے۔ فاشسٹ طاقتیں دراصل سیاسی سطح پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت اور خلیج پیدا کرکے اپنے مقصد کو حاصل کر رہی ہیں۔ مسلمان اس خلیج اور نفرت کو انفرادی و سماجی سطح پر ختم کرنے کی پوری کوشش کریں۔ یقیناً حالات کی تبدیلی کے لیے جو کام ضروری ہیں اور جو تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں ان کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل آوری نہایت ضروری ہے۔ اس کے لیے اجتماعی قیادت اور طاقت ور مشترکہ آواز کے ساتھ ملت میں مقتدر طبقے کے ساتھ بات کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ مسلمانوں پر چو طرفہ یلغار کے درمیان نوجوانوں کی عملی رہنمائی کر کے قیادت پر اعتماد کی بحالی کا کام کیا جائے۔ مسلم قائدین کی حالیہ پریس کانفرنس ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن فوری تدابیر کے ساتھ اس سے بھی بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں مستقل مزاجی کے ساتھ طویل مدتی کاموں کو کرنے کا مزاج پیدا کریں کہ معاشروں میں حقیقی تبدیلی انہیں طویل مدتی منصوبوں کے ذریعے آتی ہے۔ عارضی اور عبوری دور میں آزمائشیں آئیں گی اور کوئی بھی قوم یا گروہ ان آزمائشوں کا ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ بھی اسی وقت کرسکتا ہے جب اس کے سامنے کوئی اعلیٰ مقصد ہو اور اس مقصد کی لگن پوری قوم کی رگوں میں رچ بس جائے۔
مسلمان اور ان کے قائدین کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ بندگان خدا تک اسلام کی دعوت پہنچانا اور اس زمین پر اللہ کے دین کا قیام عمل میں لانا مسلمانوں کا ایک اہم اور مستقل فریضہ ہے، اس کے لیے تمام مسلمانوں کو ذہنی وعملی طور پر تیار کرنا مسلم قیادت کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اب بھی محض عارضی مسائل کے حل پر ہی اپنی پوری توجہ مرکوز رکھیں گے تو کوئی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کر سکتے۔ مسلم قیادت سے توقع ہے کہ وہ اس نازک صورت حال میں اپنے تمام آپسی مسائل کو بالائے طاق رکھ کر امت کو ایک بڑے مقصد کے حصول کے لیے تیار کرنے کی کوشش کرے گی۔