اداریہ

پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی : خدشات و خطرات

پارلیمانی حلقوں کی تشکیلِ نو (حد بندی) بھارت کی انتخابی اور جمہوری تاریخ میں ہمیشہ سے ایک اہم مگر پیچیدہ معاملہ رہا ہے۔ یہ عمل بیک وقت ملک کی آبادی، آئینی تقاضوں، وفاقی ڈھانچے کی حرمت اور مختلف ریاستوں کی سماجی و معاشی ترقی کو متوازن رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ حالیہ عرصے میں نئی حد بندی کے مجوزہ منصوبوں سے منسلک خدشات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان خدشات میں سرفہرست جنوبی ریاستوں کی نمائندگی میں ممکنہ کمی، آبادی پر حد سے زیادہ انحصار اور وفاقی ڈھانچے کی کمزوری کا اندیشہ ہے۔اس سلسلے میں غوروفکر کے لیے تمل ناڈو کے چیف منسٹر کی دعوت پر ایک اجلاس بھی ہوچکا ہے۔
بھارتی آئین میں وفاقی ڈھانچے کی اہمیت ، اس کی حفاظت اور جمہوری اداروں کے استحکام کو بنیادی اصول کے طور پر رکھا گیا ہے۔ پارلیمانی حد بندی کمیشن اسی مقصد کے لیے تشکیل دیا جاتا ہے کہ وہ ریاستوں اور مرکز کے درمیان توازن کو برقرار رکھے۔ دفعہ 82 کے تحت ہر مردم شماری کے بعد حلقوں کی ازسرِنو تشکیل ضروری ہوتی ہے تاکہ نمائندگی آبادی کے نئے تناسب کے مطابق ہوسکے۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ آبادی کی بنیاد پر حلقے طے کرتے وقت علاقائی ضروریات، جغرافیہ، انتظامی سہولت اور سماجی و معاشی عوامل کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ اگر یہ توازن برقرار نہ رکھا جائے تو وفاقی اصولوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
چناں چہ 1975ء میں نافذ کی گئی ایمرجنسی کے دوران دستور میں 42ویں ترمیم متعارف کروائی گئی۔ اس ترمیم کے ذریعے پارلیمانی حلقوں کی تشکیلِ نو کا عمل عارضی طور پر ملتوی کر دیا گیا تھا ۔ حکومتِ وقت نے اس کا جواز یہ پیش کیا تھا کہ آبادی کو قابو میں رکھنے اور خاندانی منصوبہ بندی کے فروغ کے لیے ریاستوں کو مناسب وقت ملنا چاہیے۔ دوسری جانب، یہ بھی کہا گیا کہ جس نے آبادی پر مؤثر کنٹرول کیا ہے، اس ریاست کو نئی حد بندی کے نتیجے میں نشستوں سے محروم نہ ہونا پڑے۔ پارلیمانی حد بندی کا یہ التواء ابتدائی طور پر 2001ء تک تھا، لیکن 84ویں ترمیم کے ذریعے اسے 2026ء تک بڑھا دیا گیا۔ مقصد اس وقت بھی یہی بتایا گیا کہ جو ریاستیں خاندانی منصوبہ بندی پر توجہ دے رہی ہیں، انہیں سزا نہیں ملنی چاہیے اور جن ریاستوں میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، انہیں کم از کم اس عرصے تک محدود نمائندگی کے ساتھ آگے بڑھنے دیا جائے۔ یوں ملک نے کئی دہائیوں تک انتخابی حلقوں میں بڑےپیمانے پر تبدیلیاں نہیں دیکھیں۔ اس کا فائدہ بعض ریاستوں کو ہوا، جہاں پہلے سے کم یا معتدل سطح پر آبادی بڑھ رہی تھی، جبکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی والی ریاستیں نئی نشستوں سے محروم رہیں۔
1975ء اور 2001ء کی ترامیم نے درحقیقت کئی دہائیوں تک انتخابی حلقوں میں بڑی تبدیلی کو روکے رکھا جس سے آبادی اور حلقوں کے تناسب میں پایا جانے والا فرق جوں کا توں رہا۔ اس التواء کا ایک مثبت پہلو یہ نکلا کہ ریاستوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے کا موقع ملا۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ آبادی پر کنٹرول کرنے والے علاقوں کو ان کی کارکردگی پر فوری “سزا” نہیں ملے گی۔اب چوں کہ اس التوا کی مدت 2026 میں ختم ہورہی ہے اور موجودہ حکومت مختلف وجوہ سے نئی حدبندی کے سلسلے میں کافی پرجوش ہے ۔ اس ساری تاخیر نے ایک اور تشویشناک پہلو بھی جنم دیا ہے۔ جیسے ہی 2026ء کے بعد یا اس سے پہلے ایک نئی حد بندی کی بات ہو گی تو موجودہ آبادی کے اعداد و شمار کو سامنے رکھنے سے شمال و جنوب کے درمیان نمائندگی میں بڑا فرق سامنے آ سکتا ہے۔ یوں اس مسئلے پر سیاسی تناؤ اور علاقائی تضادات مزید گہرے ہونے کا اندیشہ رہے گا۔ اسی لیے مختلف ریاستوں، بالخصوص جنوب کی ریاستوں میں کافی خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
نئی حد بندی کی تجاویز میں جس بات نے سب سے زیادہ تشویش میں مبتلا کیا ہے، وہ آبادی پر حد سے زیادہ انحصار ہے۔ جنوبی ریاستوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے بہتر اطلاق اور شرحِ پیدائش میں کمی نے وہاں کی آبادی کو نسبتاً مستحکم رکھا ہے، جبکہ کچھ شمالی ریاستوں میں آبادی میں تیز رفتار اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اگر نئی حد بندی صرف آبادی اعداد و شمار کے پیمانے پر کی گئی تو جنوبی ریاستوں کو آبادی کے کم ہونے کی وجہ سے نشستوں کا بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ۔ یہ صورتِ حال ان ریاستوں کے باشندوں میں مایوسی کا باعث بن سکتی ہے، جنہوں نے منصوبہ بندی کے ذریعے آبادی پر کنٹرول کو یقینی بنایا لیکن اس کے باوجود انہیں وفاقی سطح پر فیصلہ سازی میں پچھلی نشستوں پر بٹھایا جا رہا ہو۔
جنوبی ریاستیں نہ صرف تعلیم، صحت، ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی میں آگے ہیں بلکہ ملک کی مجموعی معیشت میں بھی غیرمعمولی حصہ ادا کرتی ہیں۔ اگر ان کی نشستیں آبادی کی تناسب سے کم کر دی جائیں تو یہ چیز ان کے معاشی اور سماجی مفادات کو متاثر کر سکتی ہے۔ اور وفاقی مالیاتی پالیسی میں ان کی آواز غیر موثر ہو سکتی ہے، جو بالآخر مرکز اور ریاستوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو کمزور کر دے گی۔ بھارت کا وفاقی ڈھانچہ ایک ایسا مضبوط رشتہ ہے جس کی بنیاد کثیر الثقافتی، کثیر اللسانی اور مختلف جغرافیائی اکائیوں پر رکھی گئی ہے۔ اگر نئی حد بندی کے نتیجے میں شمال اور جنوب کے درمیان سیاسی طاقت کا توازن مزید بگڑ گیا تو نہ صرف وفاقی ہم آہنگی متاثر ہو سکتی ہے بلکہ قومی سالمیت کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جن ریاستوں کو اپنی حق تلفی محسوس ہو گی وہاں مرکز مخالف جذبات اور علاقائی عصبیت کو ہوا مل سکتی ہے، جس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔جمہوری نظام کا استحکام اسی صورت ممکن ہے جب آبادی کے ساتھ ساتھ علاقائی ترقی، معاشی کردار اور سماجی ذمہ داریوں کے پیمانوں کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ وفاقی یکجہتی کے فروغ اور عوام کے جمہوری اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ نئی حد بندی کی کسی بھی تجویز میں تمام ریاستوں کی سنوائی اور ان کے خدشات کا ازالہ کیا جائے۔ اس کے بغیر ایک مستحکم بھارت اور اس کی دیرپا سالمیت کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔