اداریہ

قومی یکجہتی اور آر ایس ایس کی دو رنگی

ہمارا ملک ایک متنوع اور کثیر مذہبی معاشرہ ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے، مختلف ثقافتوں پر عمل کرنے والے اور الگ الگ زبانیں بولنے والے لوگ صدیوں سے ہم آہنگی اور یکجہتی کے ساتھ زندگی گزارتے آئے ہیں۔ قومی یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی ہی ہمارے ملک کی ترقی اور استحکام کی بنیادیں ہیں، لیکن اس یکجہتی کو بارہا ایسے نظریات اور تنظیموں نے نقصان پہنچایا ہے جو فرقہ وارانہ زہریلی سوچ رکھتی ہیں اور سماجی تفریق کو فروغ دیتی ہیں۔ چنانچہ آر ایس ایس بھی ایک ایسی ہی تنظیم ہے جو اپنے قیام سے ہی جارحانہ ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے میں مصروف ہے اور یہ چاہتی ہے کہ اسی نظریے کی بنیاد پر ملک کی تشکیل کرے۔ اس تنظیم کے نظریات نے ہمیشہ سماج میں نفرت اور دوریوں کو پروان چڑھایا ہے۔ آر ایس ایس کی زیر قیادت سنگھ پریوار نے ملک میں جس طرح سماجی اور مذہبی تفریق کو ہوا دی ہے وہ ہندوستانی سماج کے امن اور ترقی کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔
سنگھ کی تاریخ اور اس کے عملی اقدامات ہمیشہ سوالیہ نشان رہے ہیں، کیونکہ یہ تنظیم ابتدا سے ہی بھارتی آئین، قومی پرچم اور جمہوری اقدار کی اہمیت کو نظر انداز کرتی آئی ہے۔ پچھلے پچہتر برسوں تک اس نے نہ تو قومی پرچم کے احترام کو تسلیم کیا اور نہ ہی دستور کی سیکولر بنیادوں کی حمایت کی۔ لیکن اب حالیہ برسوں میں اس نے بڑے زور و شور سے قومی یکجہتی اور جمہوری اقدار کے گن گانا کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ان کے مختلف لیڈروں کی طرف سے قومی یکجہتی، آئین اور جمہوریت پر زور دینا ملک کے عوام کے لیے بڑا حیران کن ہے۔ آر ایس ایس کے نظریات میں ہونے والی بظاہر اس خوش گوار تبدیلی بہت اچھی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس تبدیلی کے پیچھے ان کا اخلاص اور سنجیدگی ہے یا جارحانہ و فرقہ پرستانہ سیاسی عزائم کار فرما ہیں؟ ملک کے عوام کو اس کے در پردہ عزائم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
اس سال یوم جمہوریہ کے موقع پر منی پور میں سنگھ کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسابلے نے خطاب کیا جس میں انہوں نے بظاہر قومی یکجہتی اور ملک کے آئین کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اور ہندوستان کی وحدت کو ہمالیہ سے بحر ہند تک وسیع قرار دیتے ہوئے "واسودھیوا کٹمبکم” کا حوالہ دیا۔ لیکن جب ہم ان کی پالیسیوں اور علمی اقدامات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ خطاب محض الفاظ کا گورکھ دھندا نظر آتا ہے کیونکہ ان کی عملی پالیسیاں ان کے خیالات سے متصادم ہیں۔ دتاتریہ ھوسابلے نے رام چندر جی اور راجہ ہریش چندر کی مثال دے کر شہریوں کو تلقین کی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو اولین ترجیح دیں۔ یہاں عوام بالخصوص ملک کے سنجیدہ اور باشعور شہریوں کے ذہنوں میں یہ سوال لازماً آئے گا کہ کیا آر ایس ایس واقعی خود اپنی ذمہ داریوں اور اپنی تاریخ کے ساتھ ایماندار ہے؟ وہ تنظیم جو ایک عرصے تک قومی علامتوں کی مخالفت کرتی رہی، اب کیسے اچانک دستور اور جمہوری اقدار کی وکالت کیسے کرنے لگ گئی ہے؟
اس تنظیم کے ماضی اور حال کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ اپنے قیام کے اول روز ہی سے ہی فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دیتی رہی ہے۔ ہندو قوم پرستی کو مرکزی نظریے کے طور پر پیش کر کے اس نے اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہمیشہ دوسرے درجے کا شہری تصور کیا ہے۔ دتاتریہ ہوسابلے نے اپنے خطاب میں جس طرح قومی یکجہتی کا ذکر کیا گیا وہ ان کی پارٹی کی پرانی روش کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تنظیم تمام قوموں کے درمیان یکجہتی کے بجائے صرف ایک قوم ہندو ایکتا کا راگ الاپتی رہی ہے اور ہندوؤں کو متحد کرنے کے نام پر تمام اقلیتوں کے خلاف منافرت کو پھیلانے اور ملک کی سیکولر شناخت کو کمزور کرنے میں پیش پیش رہی ہے۔ آر ایس ایس کے لیڈر ایک جانب بھارت کے آئین کو ملک کی ثقافت کا آئینہ قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب ملک میں پائے جانے والے مذہبی و ثقافتی تنوع اور تکثیریت کو تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ جس آئین کو ملک کی ثقافت کا آئینہ کہتے ہیں وہی آئین ملک میں مذہبی رواداری، مساوات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا درس دیتا ہے۔
ہوسابلے نے جس ریاست میں قومی یکجہتی کے موضوع پر خطاب کیا ہے وہ ایک طویل عرصے سے نسلی تشدد، فساد اور بد امنی کا شکار ہے۔ ریاستی و مرکزی دونوں سطحوں پر ایک ہی پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود یہاں ابھی تک امن قائم نہیں ہو سکا ہے۔ منی پور جیسی حساس ریاست میں جہاں نسلی اور ثقافتی تنوع موجود ہے، ایسی تقاریر سماجی تقسیم کو مزید بڑھاوا دے سکتی ہیں۔ ملک کے اس شمال مشرقی خطے میں جہاں مختلف طبقات کے درمیان باہمی بات چیت، گفتگو اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے وہاں اس طرح کی تنظیموں کی موجودگی اور اس کے لیڈروں کی تقاریر ان کی گہری سیاسی چالوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ تنظیم کے لیڈروں کی حالیہ تقاریر، قومی یکجہتی پر ان کی نصیحتیں اور دستور و آئین کے احترام کے دعوے دراصل اس گروہ کی سیاسی چالوں کا حصہ نظر آتا ہے، جس کا مقصد ملک میں اپنی فرقہ پرست شبیہ کو بہتر بنانا اور عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ تنظیم کی تاریخ اور اس کے نظریات واضح طور پر اس کے دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔
بھارت کی جمہوری قدروں اور آئینی اصولوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ عوام ان کے اس دہرے کردار کو پہچانیں اور ان کے غلط نظریات اور اس کے نتائج پر سوال اٹھائیں۔ وہ تنظیمیں اور ادارے جو ملک میں سماجی تقسیم کو فروغ دیتے ہیں ان کا احتساب کریں تاکہ ملک کی یکجہتی اور امن کو برقرار رکھا جا سکے۔