ہم جنس پرستوں کی شادی کو ’قانونی حق‘ دینے سے انکار

سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں

نور اللہ جاوید، کولکاتا

فیصلے میں خاندانی نظام کے تحفظ و بقا اور بھارتی تہذیب وثقافت کا اہم پہلو نظر انداز
چیف جسٹس آف انڈیا کی ‘اقلیتی رائے’ ہم جنسیت کی حوصلہ شکنی میں مانع!
ہم جنس پرستوں کی شادی سے سماج و معاشرہ پر بدترین اثرات یقینی۔ طبی مسائل بھی ناقابل نظر انداز
سپریم کورٹ کی تاریخ میں 18؍ اکتوبر کو ہم جنس پرستوں کی شادی سے متعلق چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی زیرقیادت پانچ رکنی بنچ کا اکثریتی فیصلہ ( 3-2) کئی پہلوؤں سے اہمیت کا حامل ہے۔عدالتی تاریخ میں ایسے بہت ہی کم فیصلے ہیں جنہیں برسہابرس تک یاد رکھا جاسکے گا۔ تاریخ کے رخ کو تبدیل کرنے والےاور معاشرے پر کئی دہائیوں تک اثرات مرتب کرنے والے فیصلے گنے چنے ہی ہیں۔ مابعد نوآبادیات ہندوستان کی عدالتی تاریخ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ بھی ان ہی فیصلوں میں سے ایک ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے کا قضیہ دو افراد کی شخصی آزادی سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا تعلق سماج کے اجتماعی مفادات اور خاندانی نظام کے تحفظ سے نہیں ہے۔تاہم یہ بحث کافی طویل ہے کہ فرد کی آزادی اہم ہے یا سماج کی؟ ان دونوں کے ٹکراؤ کی صورت میں کس کو ترجیح دی جائے گی؟کیا فرد کی بے مہار آزادی کے تحفظ کے لیے معاشرتی اقدار، تہذیب و ثقافت ،روایات اور ان سے جذباتی تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کے جذبات کو پامال کیا جاسکتا ہے؟ دراصل سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکلا نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے، انہیں بچے گود لینے کی اجازت دینے اور شادی شدہ جوڑے کو ملنے والے فوائد سے مستفیض ہونے کی اجازت دینے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے بار بار آئین کے آرٹیکل 14، آرٹیکل 15 اور آرٹیکل 21 کا حوالہ دیا۔ اس ہفتے 18؍ اکتوبر کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد روشن خیال، مغربی تہذیب و اقدارکے حامل دانشور اور اور انگریزی میڈیا اس فیصلہ پر سخت رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ 19؍ اکتوبر کو شائع ہونے والے ملک کے بیشتر انگریزی اخبارات کے اداریوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کو فرد کی آزادی کو پامال کرنے والا بتایا گیا ہے۔روشن خیال ماہرین قوانین، تجزیہ نگار بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ کئی مسلم دانشوروں کو گلہ ہے کہ اس معاملے میں جمعیۃ علمائے ہند کو فریق نہیں بننا چاہیے۔ ان کی دلیل ہے کہ جمعیت علمائے ہند جیسے مذہبی مسلم تنظیموں نے تین طلاق کے مقدمے سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ اس دخل اندازی سے مسلم سماج میں روشن خیالی کے بجائے قدامت پسند طبقے کے حاوی ہونے کا بیانیہ مضبوط ہوگا۔مگر سوال یہ ہے کہ لبرل اور روشن خیالی کے دعویدار دانشور سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے برہم کیوں ہیں؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھارتی تہذیب و ثقافت اور سماجی اقدار کا آئینہ دار ہے؟
بلاشبہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں درخواست گزاروں کی منشا کے مطابق ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی درجہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بچے گود لینے کی بھی اجازت نہیں دی ہے۔ ایک طرح سے ان کی درخواستوں کو رد ہی کیا گیا ہے مگر سپریم کورٹ کے فیصلے میں جج صاحبان کے تبصرے اور درخواست کو رد کرنے کی تکنیکی وجوہات اور اقلیتی رائے میں چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ کے تبصرے کی معنویت اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کے ’انسانی تحفظات‘ کو دور کرنے کے لیے کیبنٹ سکریٹری کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین قانون بتاتے ہیں فیصلے اکثریتی رائے کے مطابق ہوتے ہیں مگر اقلیتی رائے کی بھی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے اور عدالتی نظیر قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور بحث و مباحثہ کی راہیں کھولتی ہے۔ چناںچہ جنسی مسائل پر کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر جاوید جمیل ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مایوس کن ہے۔ اس فیصلے سے ہم جنسی کے رجحان اور اس کے فروغ کی راہ ہموار ہوگی۔ اس فیصلے کے بعد ہم جنس پرستوں کے تئیں ہمدردی کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی پرانے حربے ہیں جس کو کارپوریٹ کلچر بھی کہا جاسکتا ہے۔ جبکہ ضرورت تھی کہ جج صاحبان بھارتی تہذیب و ثقافت کی اہمیت، خاندانی نظام کے تحفظ اور اس کے بقا پر گفتگو کرتے اور ہم جنس پرستوں کی شادی سے سماج پر پڑنے والے اثرات اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے طبی مسائل پر کھل کر بات کی جاتی۔المیہ یہ ہے کہ حکومت ہند نے ان درخواستوں کی مخالفت ضرور کی مگر اس کے لیے عدالت کے سامنے جو دلائل دیے وہ قانونی اور تکنیکی پہلو سے زیادہ تھے۔ جبکہ  ہم جنسی کی وجہ پیدا ہونے والے طبی پیچیدگیوں، سماجی و معاشرتی مسائل کا بھی تجزیہ کیا جاتا تو اس فیصلے کا دیرپا اثر ہوتا اور ہم شاید دنیا کے سامنے کوئی نظیر پیش کرنے کامیاب ہوتے۔ اس پورے فیصلے میں پوری بحث اسپیشل میرج ایکٹ 1954 میں ترمیم یا پھر نظرثانی پر مرکوز تھی جسے عدالت نے سماعت کے ابتدائی دنوں میں ہی واضح کر دیا تھا۔ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنا عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور پارلیمنٹ کو شادی سے متعلق قوانین وضع کرنے چاہئیں۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ قانون ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کو بچہ گود لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس معاملے پر دو جج انہیں یہ حق دینے کے حق میں تھے جبکہ تین ججوں کو اس سے اختلاف تھا اور فیصلہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر ہوا۔ درخواست گزاروں کی دلیل تھی کہ اسپیشل میرج ایکٹ میں جنس، صنفی شناخت یا جنسی رجحان سے بالاتر دو لوگوں کے درمیان شادی کو قبول کرلیا جائے مگرطچیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ ’عدالت کو نظرِثانی کی طاقت کے استعمال والے معاملات، خاص طور پر پالیسیوں پر اثرانداز ہونے والے معاملات میں، جو کہ قانون سازی کے دائرے میں آتے ہیں، علیحدہ رہنا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نکات:
نومبر 2022 میں 20 کے قریب ہم جنسی کے حامی تنظیموں نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرتے ہوئے استدعا کی کہ ہم جنس پرستوں کو آپس میں شادی کو قانونی درجہ دیا جائے اور یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ اس عرضی پر چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت والی پانچ رکنی بنچ جس میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس رویندر بھٹ، جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس پی ایم نرسمہا شامل تھے، اس معاملے کی سماعت دس دنوں تک اپریل اور مئی میں ہوئی اور عدالت میں ہونے والی پوری بحث کو لائیو اسٹریم کے ذریعہ نشر کیا گیا۔ جبکہ اس پورے معاملے میں مشہور ایڈووکیٹ کپل سبل، مکل روہتگی، ابھیشیک منو سنگھوی، راجو رام چندرن، آنند گروور، گیتا لوتھرا، کے وی وشوناتھن، سوربھ کرپال اور مینا کاگرو سوامی جیسے سینئر وکلا نےحق اور مخالفت میں دلائل دیے۔ ابتدائی سماعت کے دوران ہی آئینی بنچ نے واضح کر دیا تھا کہ وہ پرسنل لاز میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن اسپیشل میرج ایکٹ کے تناظر میں اس کیس میں غور کیا جائے گا کہ اس ایکٹ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے کی گنجائش ہے یانہیں۔ سماعت کے ابتدائی دنوں میں ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ججوں کا رجحان شادی کو تسلیم کرنے کے حق میں ہے۔لیکن جیسے جیسے عدالتی کارروائی آگے بڑھتی گئی یہ کیس پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔درخواست گزاروں نے استدعا کی تھی کہ اسپیل میرج ایکٹ میں شادی کے لیے مرد اور عورت کے درمیان جو شادی کی بات کہی گئی ہے اس کو ختم کرکے دو جوڑوں کے درمیان شادی کی تشریح کو شامل کر دیا جائے۔درخواست گزاروں کے وکلا کی دلیل تھی کہ شادی دو افراد کا ملاپ ہے نہ کہ صرف ایک مرد اور ایک عورت کا؟ ان کی دوسری دلیل تھی کہ شادی کا حق نہ دینا آئین کے خلاف ہے کیونکہ آئین تمام شہریوں کو اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے کا حق دیتا ہے اور جنسی رجحان کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو روکتا ہے۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ شادی نہ کرنے کی وجہ سے اس کمیونٹی کے لوگ نہ تو مشترکہ بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں، نہ ہی گھر کے مشترکہ مالک بن سکتے ہیں اور نہ ہی بچوں کو گود لے سکتے ہیں۔ عدالت کے سامنے کئی اہم سوالات تھے مثلاً قانون میں ترمیم کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ دوسرا یہ کہ کیا اسپیشل میرج ایکٹ میں ترمیم کر دینا کافی ہوگا؟ سالیسٹر جنرل تشار مہتا اور جمعیۃ علمائے ہند کے وکیل کپل سبل نے سپریم کورٹ کے ذریعہ آئین میں ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو نئی نظیر قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کا تعلق دو افراد کے درمیان شادی سے نہیں ہے بلکہ اس طرح کی شادیوں کی اجازت دینے سے کئی قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور مختلف طلاق، گود لینے، وراثت جیسے تقریباً 35 قوانین میں تبدیلی کرنی پڑے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ کام سپریم کورٹ کا نہیں ہے اور ان قوانین میں بیشتر کا تعلق مختلف پرسنل لاز اور مذہبی قوانین سے ہے۔ چنانچہ پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے تسلیم کیا کہ صرف ایک قانون میں تبدیلی کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، آئین میں ترمیم و اختیارات کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرنے والوں سے سوال ہے کہ کیا عدالتیں ان کی منشا کے مطابق جب چاہیں قانون میں ترمیم کر دیں اور جب چاہے مقننہ پر چھوڑ دیں؟ بے شک پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون سازی کو آئین کے بنیادی اصولوں کے مطابق پرکھنے اور اس کو جانچنے کا سپریم کورٹ کا حق ہے مگر اس میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ قانون سازی کا حق آئین میں مقننہ کو دیا گیا ہے۔ یہ سوال الگ ہے کہ مقننہ نے قانون سازی صرف سادہ اکثریت کی بنیاد پر کی ہے یا پھر پارلیمانی و جمہوری تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے اور تمام اسٹیک ہولڈروں کے جذبات وخیالات پاس و لحاظ کیا ہے؟ اگرچہ حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ میں قانون سازی صرف سادہ اکثریت کی بنیاد پر کی گئی ہے۔پارلیمانی اور اسٹینڈنگ کمیٹیاں اپنی افادیت سے محروم ہوتی جارہی ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں کہ قانون سازی کے اختیارات سپریم کورٹ کو منتقل کردیے جائیں۔جمہوریت میں اداروں کے درمیان توازن اور حدود کا پاس و لحاظ ضروری ہے۔ جب کوئی بھی ادارہ اپنے حدود و اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو جمہوریت عدم توازن کا شکار ہوجاتی ہے۔
سپریم کورٹ کے سامنے سوال آرٹیکل 21 کے ذریعہ دیے گئے بنیادی حق کا بھی تھا۔اس آرٹیکل میں زندگی اور ذاتی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کی زندگی یا ذاتی آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ مگر یہ آزادی بھی قانون کے شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ یہ بنیادی حق ہر شخص کو یکساں حاصل ہے چاہے اس کا تعلق ملک سے ہو یا بیرون ملک سے۔ ہم جنس پرستوں کی شادی کی پیروی کرنے والوں کی دلیل تھی کہ اس آرٹیکل کے تناظر میں اپنے من پسند ساتھی کے ساتھ رہنے اور اس کے ساتھ شادی اور اس کے ذریعہ حاصل ہونے والے فوائد سے مستفیض ہونے کا انہیں بنیادی حق حاصل ہے۔ اس کے جواب میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے دلیل دی کہ محبت کرنا اور ایک ساتھ رہنا بنیادی حق ہے لیکن شادی ایک ’مکمل حق‘ نہیں ہے۔ تشار مہتا نے کہا کہ بہت سے رشتوں پر پابندی عائد ہے مثلاً بھائی بہن کے درمیان شادی، چچا اور بھتیجی کے درمیان شادی کی اجازت نہیں ہے۔ اگر شادی کو بنیادی حق تسلیم کرلیا گیا تو کئی بنیادی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
چونکہ ہم جنس پرست ہندوستانی قانون کے تحت شادی نہیں کر سکتے اس لیے وہ بچوں کو گود بھی نہیں لے سکتے۔ تاہم چونکہ جووینائل جسٹس ایکٹ 2015 کسی ایک فرد کو بچہ گود لینے کی اجازت دیتا ہے اس لیے ہم جنس پرستوں میں سے کوئی ایک قانونی والدین کے طور پر نامزد کرکے بچوں کو گود لے سکتا ہے۔ 2022 میں، سنٹرل ایڈاپشن ریسورس اتھارٹی (CARA) نے گود لینے کے ضوابط جاری کرتے ہوئے کہا کہ جووینائل جسٹس ایکٹ 2015 کے تحت گود لینے کا اہل ہونے کے لیے جوڑے کا دو سال کے مستحکم ازدواجی رشتے میں ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ایک سرکلر بھی جاری کیا گیا تھا جس میں کسی شخص کو بچہ گود لینے سے منع کیا گیا تھا اگر وہ شخص لیو ان ریلیشن شپ میں ہو۔ نتیجتاً یہ عجیب و غریب جوڑے اس سرکلر کے تحت گود لینے کے نااہل ٹھہرے۔ تاہم جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس کول کی رائے تھی کہ اس عجیب و غریب جوڑے کو گود لینے کا حق ہے۔
فیصلے کے تشویش ناک پہلو
جج صاحبان نے جہاں ہم جنس پرستوں کی شادی کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا فیصلہ مقننہ پر چھوڑ دیا ہے وہیں حکومت اور سپریم کورٹ نے بھی ہم جنس پرستی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ جج صاحبان نے اتفاق رائے سے کہا کہ ایک شخص کو جنس سے قطع نظر اپنے ساتھی کا انتخاب کرنے کا حق ہے۔ اکثریتی فیصلہ لکھنے والے جسٹس رویندر بھٹ نے ’حق‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے ہر ایک شہری کو اپنے ساتھی کا انتخاب کرنے، ساتھ رہنے اور جسمانی قربت سے لطف اندوز ہونے کا حق حاصل ہے۔ ہم جنس پرست بھی تمام شہریوں کی طرح آزادانہ زندگی گزارنے کے حق دار ہیں اور ایسوں کو ریاست تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس مسٹر چندر چوڑ اور جسٹس کول ہم جنس پرستوں کے درمیان تعلق کے حق کو ’’سول یونین کا حق‘‘ کہنے کے لیے تیار تھے لیکن جسٹس بھٹ، جسٹس کوہلی اور جسٹس نرسمہا اس حد تک جانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی تجویز پر کیبینٹ سطح کے سکریٹری کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ یہ کمیٹی جائزہ لے گی ہم جنس پرستوں کے حقوق، آزادی اور خود مختاری کے حقوق کے تحفط اور ان کے ساتھ پیش آنے والے عدم مساوات اور تعصبات پر کس طرح روک لگائی جائے۔سپریم کورٹ نے اس کمیٹی کی تشکیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’بعض اوقات ایک چھوٹی سی شروعات موجودہ صورتحال سے بہت آگے لے جا سکتی ہے اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کے مستقبل کے لیے ایک سنگِ بنیاد ثابت ہو سکتی ہے۔
2018 میں سابق چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کی قیادت والی بنچ نے تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس دفعہ میں ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیا تھا۔ اس دفعہ کو نوآبادیاتی دور کی یاد قرار دیتے ہوئے رد کر دیا تھا۔ اب عدالت نے ہم جنس پرستوں کے حقوق کو تسلیم کرلیا اور انہیں آزادی کے ساتھ رہنے کی اجازت دی ہے۔اس کے ساتھ ہی حکومت کو پابند بنایا کہ وہ جلد سے جلد ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کریے۔ سوال یہ ہے کہ ان پیش رفتوں کے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ڈاکٹر جاوید جمیل کہتے ہیں کہ عدالت کے فیصلے کے یہی دو پہلو تاریک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل ہماری عدالتیں اور مغربی تہذیب و تمدن کے دلدادہ دانشور طبقے مغرب کے کارپوریٹ کلچر سے نہ صرف متاثر ہوئے ہیں بلکہ ان کی تھیوری کو بغیر کسی قیل و قال کے تسلیم کر چکے ہیں جبکہ اس کا تعلق مارکیٹ سے ہے۔ ایڈس، کنڈوم اور ہم جنسی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کی دوائیوں کی مارکیٹ بلین ڈالر کی ہے۔ اس صنعت سے دنیا کی وہ کمپنیاں وابستہ ہیں جو دنیا کے طاقتور ممالک کی پالیسی سازی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ امریکہ میں 2.6 سے 7 فیصد لوگ ہم جنس پرست ہیں مگر ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے 58 فیصد افراد ایڈس اور دیگر بیماریوں کے شکار ہیں۔ جاوید جمیل کہتے ہیں کہ صارفیت کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے کارپوریٹ کمپنیوں کے تین حربے ہیں ۔
پہلا اباحیت پسندی کا فروغ یا نارملائزیشن۔ اس نظریے کے مطابق ہر وہ چیز جائز ہے جو انسان کو لذت اور خوشی سے ہم کنار کرتی ہو یا دل اس کی طرف راغب ہو۔ اس نظریے نے بے شمار ایسی چیزوں کو قانونی اور بعد میں ’اخلاقی جواز‘ فراہم کیا ہے جو گزشتہ زمانے میں مذہبی یا معاشرتی اور سماجی اقدار کے مطابق غلط اور ناجائز قرار دی گئی تھیں اور انہیں برائی تصور کیا جاتا تھا۔ دوسرا حربہ این جی اوز کی مدد سے اباحیت پسندی کو قانونی درجہ دینا اور معاشرے میں قبولیت عامہ دلانا ہے۔ اور تیسرا حربہ قانونی درجہ دلا کر مارکیٹ کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے اور حکومت ہند کے کمیٹی تشکیل دینے کی رضامندی کے تناظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بھارت اس معاملے میں دو قدم آگے بڑھ چکا ہے۔ چونکہ ان خبیثوں کی شادی کو تسلیم کرنا اور انہیں سول یونین کے قابل بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اس کے لیے نئے قوانین مرتب کرنے ہوں گے اور موجودہ قوانین میں ہول سیل ترامیم کرنی ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ بہت بڑا قانونی اصلاحات کا منصوبہ ہے۔ اس لیے حالیہ برسوں میں اس کی گنجائش کافی کم ہے کہ حکومت آئینی ترمیم کے ذریعہ خبیثوں کی شادی کو قانونی درجہ دے گی۔ اس کے لیے نہ صرف محتاط غور و فکر، وسیع مشورے اور سخت مسودے کی ضرورت ہوگی، بلکہ عائلی قانون کی طرف نقطہ نظر میں ایک بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔ تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ تبادلہ خیال اور تمام مذہبی برادریوں کی رائے اور مذہبی پرسل لاز سے ہم آہنگ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت بھارت میں ہم جنس پرستی، لیون ان ریلیشن شپ اور ماورائے شادی جنسی تعلقات قائم کرنے کو فرد کی آزادی کا حق تسلیم کرلیا گیا ہے۔
اس وقت دنیا میں 6.77 بلین سے زائد افراد ایسے ملکوں میں رہتے ہیں جہاں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی درجہ حاصل نہیں ہے۔ صرف 1.21 بلین افراد ایسے ملکوں میں رہتے ہیں جہاں ہم جنس جوڑے کی شادی کو قانونی درجہ حاصل ہے۔ ہالینڈ میں 2000ء میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی درجہ دیا گیا ہے جو قانونی پیش رفت کرنے والا دنیا کا پہلا ملک تھا۔ ابھی تک صرف 32 ممالک نے ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دی ہے۔ ان میں سے دس ممالک میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی درجہ تو نہیں دیا گیا ہے مگر کچھ حقوق تسلیم کیے گئے ہیں جب کہ باقی 91 ممالک میں یہ فی الحال غیر قانونی ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر کی جانب سے 13؍ مئی سے 2؍ اکتوبر 2019 کے درمیان 34 ممالک میں ہم جنس پرستوں کی شادی سے متعلق عوامی رائے پر سروے کیا گیا ہے۔ہندوستان میں صرف 37 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ معاشرے کو ہم جنس پرستی کو قبول کرنا چاہیے۔ بھارت میں 25 فیصد عوام نے اس معاملے میں اظہار خیال کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کی اور جواب دینے سے انکار کر دیا۔
علاوہ ازیں دنیا کے جن ممالک نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کیا اور جنسی بے راہ روی کو قانونی درجہ یا فرد کی آزادی کی آڑ میں بے مہار چھوڑ دیا اس کی وجہ سے ان ممالک میں پیدا ہونے والی سماجی و معاشرتی صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔ ان میں سے بیشتر ممالک صنفی عدم توازن کا شکار ہیں۔خاندانی نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ بغیر والدین کے بچوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافے نے کئی سماجی مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر بھارت جیسے وسیع و عریض ملک میں مغرب کی نقالی میں ہم جنس پرستی کو کھلے عام چھوٹ دے دی جائے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوجائے گا۔ کیا بھارت غیر فطری عمل کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کے علاج کا متحمل ہوسکتا ہے؟ چنانچہ اس معاملے میں مغرب کے دلفریب نعرے کا شکار ہونے کے بجائے معقولیت پسندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ میں دلائل کے دوران ایڈووکیٹ کپل سبل نے عدالت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ نفع و نقصان اور فطری و غیر فطری اور سائنفکٹ سوچ کے ساتھ مشرقی تہذیب و تمدن کے تناظر میں واضح موقف اپنایا جائے۔
جہاں تک سوال مذہب اسلام کا ہے یہ صاف اور واضح ہے کہ جنسی بے راہ روی اور انارکی کی یہاں قطعی کوئی اجازت نہیں ہے۔ مشہور اسلامی اسکالر و عالم دین ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اپنے مضمون ’’چند اہم سماجی مسائل اور اسلام‘‘ مطبوعہ ترجمان القرآن میں لکھا ہے کہ ’’اسلام نے خاندان اور سماج کا جو تصور پیش کیا ہے وہ موجودہ دور کے ان تصورات سے قطعی مختلف ہے۔ اس نے انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ جنسی جذبے کو اہمیت دی ہے۔ وہ نہ اسے دبانے اور کچلنے کا قائل ہے، نہ انسان کو بے مہار چھوڑ دیتا ہے کہ اس کی تسکین کے لیے جو طریقہ چاہے اختیار کرے، بلکہ وہ اسے ایک مخصوص طریقے کا پابند کرتا ہے، جس کا نام ’نکاح‘ ہے۔ اس کے ذریعے مرد اور عورت کے درمیان جنسی تعلق صحیح بنیادوں پر استوار ہوتا ہے اور خاندان کا ادارہ تشکیل پاتا ہے۔ اس کی نظر میں زنا صرف وہی نہیں جو زبردستی کیا گیا ہو بلکہ وہ بھی ہے جو طرفین کی رضا مندی سے ہوا ہو۔ نکاح کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنا ہر حال میں حرام ہے، خواہ اس کا ارتکاب سماج کی نگاہوں کے سامنے ہو یا پوشیدہ، اس میں طرفین کی مرضی شامل ہو یا نہ ہو۔ اس کے نزدیک ہم جنس پرستی شدید مبغوض شئے اور موجبِ تعزیر جرم ہے، اس لیے کہ یہ انسان کے فطری داعیے کے خلاف اور اس سے بغاوت ہے۔ اس کے نزدیک انسان اپنے اعضائے جسم کا مالک نہیں، بلکہ امین ہے، اس لیے مادۂ منویہ کو اسپرم بینک میں محفوظ کرنے اور رحم کو کرایے پر دینے کا اسے کوئی حق نہیں۔ اس کے نزدیک ’عفت و عصمت‘ اعلیٰ اخلاقی قدر اور بڑی قیمتی شے ہے، اس لیے اس سے کھلواڑ کرنے، اسے ذریعہ معاش بنانے یا اسے مال تجارت کی حیثیت دینے کا کسی کو حق نہیں۔ اسلام خاندان میں مرد اور عورت کے حقوق کے درمیان مساوات کا تو قائل ہے لیکن ان کی یکسانیت کا قائل نہیں ہے۔ اس نے دونوں کے دائرہ کار الگ الگ رکھے ہیں اور دونوں کو الگ الگ نوعیت کی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔
نام نہاد لبرل مسلم دانشوروں کی اس دلیل میں کوئی دم نہیں ہے کہ اس پورے معاملے میں مسلمانوں کی مذہبی تنظیموں کو مداخلت کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہم جنس پرستوں کی شادی کا معاملہ براہ راست سماج سے تعلق رکھتا ہے اور سماج مذہب کا موضوع ہے۔ صالح معاشرہ کی تشکیل مذہب کی ذمہ داری ہے اس لیے وہ اس معاملے سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتا۔ اس پورے معاملے میں اسلام اور مسلمانوں کا واضح موقف ہے۔تاہم بھارتی تہذیب و ثقافت و کلچر کے فروغ دینے کی دعویدار ہندوتوا تنظیموں بالخصوص آر ایس ایس کی سوچ میں حالیہ برسوں میں تبدیلی آئی ہے۔ مغربی دنیا میں خود کو آزاد خیال تسلیم کرانے کے لیے اس نے ایک قدم پیچھے لیا ہے۔ حالیہ برسوں میں گردوارے میں ہم جنس پرستوں کی شادی کرانے کا واقعہ ہم دیکھ چکے ہیں اگرچہ بعد میں گردوارہ کمیٹی نے اس معاملے میں کارروائی کی ہے۔ اس لیے صالح معاشرے کی تشکیل، افراد سازی کی سب سے بڑی داعی، دنیا کے تمام مسائل کا حل اپنے پاس رکھنے والی امت کے مسلم مذہبی رہنماوں، مذہبی تنظیموں اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس خباثت سے ملک کے شہریوں کو بچانے کے لیے اقدامات کریں۔ تمام مذاہب کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وقت پر کارروائی نہیں کی گئی تو انسانیت تباہ ہو جائے گی اور بھارت جیسے کثیر ثقافتی و کثیر مذہبی والے ملک کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔
***

 

***

 ہم جنس پرست جوڑوںکی شادی کا معاملہ براہ راست سماج و معاشرے سے تعلق رکھتا ہے اور سماج و معاشرہ مذہب کا موضوع ہے ۔صالح معاشرہ کی تشکیل مذہب کی ذمہ داری ہے اس لئے وہ اس معاملے سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتاہے۔اس پورے معاملے میں اسلام اور مسلمانوں کا واضح موقف ہے ۔تاہم بھارتی تہذیب و ثقافت و کلچر کے فروغ دینے کی دعویدار ہندتو تنظیموں بالخصوص آر ایس ایس کی سوچ میں حالیہ برسوں میں تبدیلی آئی ہے ۔مغربی دنیا میں خود کو آزاد خیال تسلیم کرانے کیلئےاس نے ایک قدم پیچھے کھینچا ہے ۔حالیہ برس میں گرودوارےمیں ہم جنس جوڑوں کی شادی کرانے کا واقعہ ہم دیکھ چکے ہیں ۔گرچہ بعد میں گرودوارہ کمیٹی نے اس معاملے میں کارروائی کی ۔اس لئے صالح معاشرے کی تشکیل اورافراد سازی کے سب سے بڑے داعی اور سماجی و معاشرتی مسائل کے حل کا نسخہ کیمیا پاس ہونے اور امت وسط ہونے کے ناطے مسلم مذہبی رہنمائوں اور مذہبی تنظیموں اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس وباسے ملک کو بچانے کیلئےپہل کریں ۔تمام مذاہب کے درمیان اتفاق رائےپیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔اگر وقت پر کارروائی نہیں کی گئی تو خطرہ ہے کہ بھارتی سماج بھی بکھرائواور انارگی کا شکار ہوجائے گا اور بھارت جیسے کثیرالثقافت، کلچر اور مذہب اور ڈیڑھ ارب آبادی والے ملک کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 اکتوبر تا 04 نومبر 2023