انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے علمبرداربھارتی صحافیوں کو ایچ آر آر ایف جرنلزم ایوارڈ ز
دی موک نائک اور آرٹیکل 14 کوایچ آر آر ایف بیسٹ میڈیا آرگنائزیشن کا مشترکہ انعام
سبطین کوثر
کمزور طبقات کی آواز بننے والے صحافیوں کی خدمات کی پزیرائی۔ ’’بھارت میں دیانت دارانہ صحافت مشکل کام‘‘: یوان ریڈلی
صدیق کپن،عمر خالد، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ،شرجیل امام کے حق میں بھی آوازیں بلند
ہندوستان کی رنگا رنگی، تکثیریت، رواداری، امن اور سماجی انصاف کی ترویج وتحفظ کے لیے وقف امریکی ادارے ’انڈین امریکن مسلم کونسل‘ نے گزشتہ 19 جون، 2022 کو انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے لیے کی جانے والی پُروقار صحافت کے ایوارڈز کے فاتحین کا اعلان کیا۔ ایچ آر آر ایف جرنلزم ایوارڈ(انسانی حقوق اور مذہبی آزادی سے متعلق کی جانے والی رپورٹنگ کے لیے دیا جاتا ہے جسے پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تبدیلی مذہب مخالف قوانین کے تحت مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے، عالمی وبا کووڈ-19 کے دوران اقلیتی طبقے پر ہونے والے مظالم اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احاطہ کرنے والی غیر معمولی اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی اہمیت اور اس کی حساسیت کے پیش نظر ایک ورچوئل ایوارڈ تقریب کا اہتمام کیا جس میں ان شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کوانعامات سے سرفراز کرنے کا اعلان کیاگیا ۔یہ ایوارڈ نہ صرف بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے بلکہ ان باوقار ایوارڈزکے ذریعہ یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ابھی بھی دنیا کمزور اور حاشیہ پر پڑے ہوئے طبقات کی آواز اٹھانے والوں کی قدر کرتی ہے اور ان کی خدمات کو عالمی سطح پر سراہنے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی پرعزم ہے۔
انڈین امریکن مسلم کونسل کے صدر سید علی نے ورچوئل کانفرنس میں اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ’’ہم نے یہ ایوارڈزاُن حساس اور پوشیدہ کہانیوں کو اجاگر کرنے والے صحافیوں اور دبے کچلے طبقات کی نحیف آوازوں کواٹھانے کی ہمت کرنے والے صحافتی اداروں کے لیے شروع کیے ہیں جو اکثر مرکزی دھارے/بڑے میڈیا گھرانوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اس سال ہماری جیوری نے ایک ایسے انتہائی مشکل وقت میں فاتحین کا انتخاب کیا جب ہندوستان میں میڈیا ،مرکز میں برسر اقتدار حکومت کی طرف سے بہت زیادہ دباؤ میں ہے اور صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ میڈیا کا ایک بڑا طبقہ حکومت کی ہمنوائی کر رہا ہےاور اس کا ترجمان بن بیٹھا ہے جو کسی بھی جمہوری ملک کے لیےسم قاتل ہے۔
مسٹر علی نے مزید کہا کہ اِن باہمت صحافیوں نے ہندوستانی اقلیتوں اور پسماندہ برادریوں سے متعلق اہم مسائل کا جس جرأت مندی سے احاطہ کرنے کی جسارت کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ہم ایسی صحافت کی دل سے قدر کرنے، اس کی اہمیت کو دنیا کے سامنے لانے اور اس کو بین الاقوامی سطح پر شناخت دلانے میں اپنا کردار ادا کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں ، یہ ایسی صحافت ہے جو احتساب کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ ہندوستان اپنی تقریباً 300 ملین مذہبی اقلیتوں کے لیے کس طرح انتہائی غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔
ممتاز امریکی صحافی ایمی گڈمین، جو گلوبل نیوز آور ‘ڈیموکریسی ناؤ’ کی میزبان اور ایگزیکیوٹیو پروڈیوسر ہیں، نے اس موقع پر کلیدی خطاب کرتے ہوئے آمریت کی طرف ہندوستان کے بڑھتے ہوئے رجحانات پراپنی تشویش کا اظہار کیا اور ایوارڈ پانے والےصحافیوں کی جرأت مندانہ اور بے باکانہ صحافت کی پرزور ستائش کی۔ گڈمین نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا،’’جب طاقتور حکومتیں سچائی کو دبانے، معلومات کو سنسر کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تو صحافت کا عمل اور بھی مشکل اور اکثر خطرناک ہو جاتا ہے۔ہمیں خوشی ہے کہ اب بھی ایسے جیالے صحافی ہمارے درمیان موجود ہیں جو بلا خوف و خطر اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ادا کر رہے ہیں اور سچ کو سامنے لانے کے لیے ہر طرح کی قیمت ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ‘‘
’’آپ سب کو سلام!کیوں کہ جمہوریت کوزندہ رکھنے میں آپ اہم کردارادا کر رہے ہیں،مزید یہ کہ آپ انتہائی مشکل حالات میں جانفشانی کے ساتھ کام کرنے کا عزم کر چکے ہیں تاکہ کرہ ارض پر سب سے زیادہ آبادی والے اور متنوع قوموں میں سے ایک ہندوستان کے بارے میں مرکزی سچائی سامنے لائی جا سکے۔‘‘
’’آپ سب نے جمہوریت کے لیے جیت درج کرائی ہے کیونکہ آپ بڑھتے ہوئے مشکل حالات میں اکثر بڑے ذاتی خطرے میں کام کرتے ہیں تاکہ کرہ ارض پر سب سے زیادہ آبادی والے اور متنوع قوموں میں سے ایک ہندوستان کے بارے میں مرکزی سچائی سامنے لائی جا سکے۔‘‘
ڈاکٹر یوون ریڈلی( برطانوی صحافی و مصنفہ) نے ایمی گڈمین کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’’نریندر مودی کی زیر قیادت حکمراں سیاسی جماعت بی جے پی سمیت ملک کے بعض اہم پہلوؤں کے تعلق سے حقائق پر مبنی اور تنقیدی انداز میں لکھنے والے صحافیوں کے لیے ہندوستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک بن گیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر ریڈلی نے مزید کہا کہ’’ ایچ آر آر ایف جرنلزم ایوارڈز(انسانی حقوق اور مذہبی آزادی سے متعلق ایوارڈز)ہندوستانی صحافیوں میں ایک ایسی امید اور حوصلہ فراہم کرتے ہیں جو اپنے پیشے میں بے خوف ہو کر ناقابل تسخیر حقائق کوپوری بہادری کے ساتھ دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔‘‘
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کی ایڈوکیسی اور مواصلات کے ڈائریکٹر جپسی گیلن کیزر نے ہندوستان میں مسلم اوراقلیتوں کی آواز اٹھانے والے صحافیوں،سماجی جہد کاروں و کارکنوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے تعلق سے بھی گفتگو کی ۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ کیرالا کے رہنے والے صحافی صدیق کپن دو برسوں سے زائد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ،عمر خالد، میران حیدر، گلفشاں فاطمہ،شرجیل امام کو بھی نہ تو ضمانت ملی اور نہ ہی انہیں کسی طرح کی راحت ہی نصیب ہوئی۔ قانونی کاروائی کی سست روی اور حکومتی عناد کے سبب ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ان کی غلطی کیا تھی یہ سب کو معلوم ہے۔ اور انہیں کس وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے یہ بھی پوری طرح واضح ہے۔
انہوں نے مزید کہا ’’ہماری جیلوں کے تعلق سے ہونے والی سالانہ مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان نے گزشتہ سال حراست میں لیے گئے صحافیوں کی سب سے بڑی تعداد رکھنے کا ملکی سطح پر ریکارڈ قائم کیا ہے اور یکم دسمبر 2021 تک ہندوستان میں زیر حراست صحافیوں اور سماجی جہد کاروں کی اکثریت مسلمان ہے۔‘‘
گیلن کیزر نے مزید کہا،’’ہندوستان میں حالیہ تشویشناک حالات کے پیش نظر ایچ آر آر ایف جرنلزم ایوارڈز مزید اہم ہو جاتا ہے اور ایوارڈ یافتگان کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں نیز ایسے اور بھی صحافیوں کے لیے یہ حوصلہ افزا ثابت ہوگا جو ابھی تک یا تو خاموش ہیں یا انہیں کام کرنے کا موقع نہیں مل پار ہا ہے۔ ہم باضمیر اور جُری صحافیوں کا ایک بڑا دستہ تیار کرنے کے خواہاں ہیں جو اقلیتوں کی آواز بن سکے اور ان کی مشکلات و پریشانیوں کو دنیا کے سامنے لا سکے۔ ’’
انہوں نے بتایا کہ اس سال، ہمیں پانچ زمروں میں 250 سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ انسانی حقوق اور مذہبی آزادی سے متعلق صحافتی ایوارڈ کے فاتحین کو انعامات سے نوازنا ادارے کے لیے باعث فخر ہے۔ فاتحین کوہندوستانی کرنسی میں 3 لاکھ روپئے،مومنٹو اور توصیفی اسناد عطا کی جائیں گی۔
دی موک نائک اور آرٹیکل 14 کوایچ آر آر ایف بیسٹ میڈیا آرگنائزیشن کا مشترکہ ایوارڈ دیا گیا جبکہ ایچ آر آر ایف ینگ جرنلسٹ آف دی ایئر2022 کا ایوارڈ اسکرال ڈاٹ ان کی ایشوریہ ایئر اوردور حاضر کا سب سے معتبر میڈیا ادارہ ‘دی وائر’ سے منسلک ممتاز صحافی عصمت آرا کو مشترکہ طور پر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ خاتون صحافی مینا کوٹوال نے ایک نیا یو ٹیوب چینل ‘دی موک نائک’کے نام سے گذشتہ سال ہی شروع کیا تھا، اس سے قبل وہ بی بی سی ہندی سے وابستہ تھیں۔ محترمہ کوٹوال دلت کمیونیٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے لیے خصوصی رپورٹنگ کے لیے جانی جاتی ہیں۔ان کی گراؤنڈ رپورٹس نے ایچ ایچ آر ایف کی جیوری کو کافی متاثر کیا جس کے باعث ان کے وینچر کو یہ باوقار ایوار ڈینے کا فیصلہ کیا گیا۔یہاں اس بات کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مینا کوٹوال کو کئی بار کھلے عام دھمکیاں دی گئیں ، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر بھی ان کی تذلیل کی گئی اور ان کے ساتھ ذات پات کے نام پر تعصب بھی برتا گیا لیکن وہ ان سب سے بے پرواہ ہوکر اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو ادا کرتی رہیں اور خود کو ثابت کیا کہ وہ مظلوموں کی آواز اٹھانے میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں کریں گی۔
انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے زمرے میں بہترین رپورٹنگ کرنے والی ممتاز صحافی اکانشاکمار(نیوز لانڈری)کوبیسٹ ٹیکسٹ رپورٹنگ کے لیے ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔
دی نیوز مینٹ کی معتبر صحافی پرینکا تریمورتھی اور دی کاروان میگزین کے باہمت صحافی شاہد تانترے کو انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے زمرے میں مشترکہ طور پر بیسٹ ویڈیو اسٹوری کا ایوارڈ دیا گیا۔
دی نیوایشومیگزین یوکے (برطانیہ)سے منسلک صحافی سید شہریارکو بیسٹ فوٹو اسٹوری کے زمرے میں ایچ آر ایف ایف کا پروقار ایوارڈ تفویض کیا گیا۔
انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے تئیں بیدار رہنے والے اور اس کو خاطر میں نہ لانے والی حکومت اور معاشرہ کو چیلنج کرنے والے جرات مند صحافیوں کے لیے ایچ آر ایف ایف ایوارڈ نے یہ دنیا بھر کو واضح پیغام دیا ہے کہ ’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘۔اور حکومت سے ٹکرانے والوں کو اعزاز سے اس لیے سرفراز کرتے رہیں گے تاکہ کرہ ارض امن پسندوں کا مسکن بنا رہے اور فسطائی قوتوں اور آمرانہ طرز رکھنے والوں کے حوصلے پست ہوں اور مظلوموں کو انصاف ملنے میں نہ تو تاخیر ہونے دیں گے اور نہ ہی انہیں محرومی کی زنجیروں میں جکڑے رہنےدیں گے۔
***
***
انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے تئیں بیدار رہنے والے اور اس کو خاطر میں نہ لانے والی حکومت اور معاشرہ کو چیلنج کرنے والے جرات مند صحافیوں کے لیے ایچ آر ایف ایف ایوارڈ نے یہ دنیا بھر کو واضح پیغام دیا ہے کہ ’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘۔اور حکومت سے ٹکرانے والوں کو اعزاز سے اس لیے سرفراز کرتے رہیں گے تاکہ کرہ ارض امن پسندوں کا مسکن بنا رہے اور فسطائی قوتوں اور آمرانہ طرز رکھنے والوں کے حوصلے پست ہوں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 جولائی تا 09 جولائی 2022