آدتیہ ناتھ کے خلاف نفرت انگیز تقریر کیس: الہ آباد ہائی کورٹ نے عرضی خارج کی، درخواست گزار پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا

نئی دہلی، فروری 23: الہ آباد ہائی کورٹ نے بدھ کے روز اتر پردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ کے خلاف 2007 کے نفرت انگیز تقریر سے متعلق ایک کیس کی کلوزر رپورٹ کو چیلنج کرنے والی درخواست کو مسترد کر دیا۔

جسٹس دنیش کمار سنگھ نے درخواست گزار پرویز پرواز پر یہ کہتے ہوئے ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا کہ وہ 2007 سے اس کیس میں ملوث ہے اور اسے قانونی مشیر پر کافی رقم خرچ کرنی پڑتی ہوگی۔

عدالت نے مزید کہا کہ درخواست گزار کے کیس لڑنے کے وسائل کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

آدتیہ ناتھ کے خلاف یہ مقدمہ جنوری 2007 کے واقعات سے متعلق ہے جب گورکھپور اور آس پاس کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ آدتیہ ناتھ اس وقت گورکھپور سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم پی تھے۔

جمعرات کی سماعت میں جج کو ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل منیش گوئل کی اس بات سے اتفاق کیا کہ ’’درخواست گزار ایک دھوکے باز‘‘ ہے جسے ملک مخالف طاقتوں نے آدتیہ ناتھ کے خلاف کام کرنے کے لیے تیار کیا، جو نہیں چاہتے کہ اتر پردیش اور ہندوستان ترقی کرے۔

جج نے مزید کہا کہ ’’یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ مذکورہ پہلو کی تحقیقات کرے۔ تاہم یہ عدالت اس سلسلے میں مزید کچھ کہنا یا کوئی ہدایت نہیں دینا چاہتی۔‘‘

معلوم ہو کہ درخواست گزار پرویز نے سب سے پہلے 2007 میں آدتیہ ناتھ کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا، جس کے بعد عدالت نے حکم دیا تھا کہ بی جے پی لیڈر کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی جائے۔ درخواست گزار نے پھر ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ کیس کی تفتیش منصفانہ طریقے سے نہیں ہو رہی ہے۔

2017 میں جب اس درخواست کی سماعت ہو رہی تھی، تب آدتیہ ناتھ کی قیادت والی اتر پردیش حکومت نے پولیس کی طرف سے کلوزر رپورٹ درج کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

2018 میں ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ تحقیقات میں کوئی کمی نہیں تھی۔

اس کے بعد پرویز نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا اور آدتیہ ناتھ کے خلاف مقدمہ نہ چلانے کے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ نے اگست میں یہ نوٹ کرتے ہوئے اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا کہ کلوزر رپورٹ داخل کر دی گئی ہے اور درخواست گزار نے اسے ٹرائل کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

تین ماہ بعد ٹرائل کورٹ نے فیصلہ دیا کہ استغاثہ کی منظوری کی قانونی حیثیت پر نظرثانی نہیں کی جا سکتی اور اس پر سپریم کورٹ میں سماعت ہو چکی ہے۔

اس کے بعد پرویز نے ٹرائل کورٹ کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔