حلال گوشت مسلمانوں کے ’’اکنامک جہاد‘‘ کا حصہ ہے، بی جے پی لیڈر سی ٹی روی کا دعویٰ
نئی دہلی، مارچ 30: ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی نے منگل کو دعویٰ کیا کہ حلال گوشت مسلمانوں کے ’’اکنامک جہاد‘‘ کا حصہ ہے۔
بنگلورو میں نامہ نگاروں سے خطاب کرتے ہوئے روی نے الزام لگایا کہ حلال کا تصور اس لیے پیش کیا گیا ہے تاکہ مسلمان دوسروں کے ساتھ کاروبار نہ کریں۔
دی نیو انڈین ایکسپریس کے مطابق روی نے دعویٰ کیا کہ مسلمان ہندوؤں سے گوشت خریدنے سے انکار کرتے ہیں تو ہندو ان سے گوشت کیوں خریدیں؟
روی کا یہ بیان ہندوتوا تنظیم ہندو جن جاگرتی سمیتی کی طرف سے لوگوں سے حلال گوشت نہ خریدنے کا مطالبہ کرنے کے ایک دن بعد آیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس عمل میں جانوروں کو اللہ کے نام پر مارا جاتا ہے اور ہندوؤں کے لیے اپنے دیوتاؤں کو ایسا گوشت چڑھانا ناگوار ہوگا۔
دریں اثنا کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے کہا کہ حکومت حلال گوشت کے معاملے پر کچھ نہیں کر سکتی۔
ناگیش نے کہا ’’یہ ایک مذہبی عمل ہے اور کچھ لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حلال وہ موضوع نہیں ہے جو حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔‘‘
دی نیو انڈین ایکسپریس کے مطابق جنتا دل (سیکولر) کے رہنما ایچ ڈی کمار سوامی نے کہا کہ حکومت کو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو لوگوں کو مسلمانوں کے ساتھ کاروبار نہ کرنے کے لیے اکسا رہے ہیں۔
کمارسوامی نے کہا ’’معاملات کو فرقہ وارانہ بنانے کے لیے ذاتی مفادات کی ایسی کھلی کوششوں کے بعد بھی حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کرناٹک کے 6.5 کروڑ لوگوں کی حکومت ہے۔ میں نے واٹس ایپ پر اشتعال انگیز پوسٹس دیکھی ہیں، ان شرارتی پوسٹس کے پیچھے کارفرما افراد کو گرفتار کرکے ان سے قانون کے مطابق نمٹا جانا چاہیے۔
جے ڈی (ایس) لیڈر نے اشارتاً آر ایس ایس کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومائی ’’خاص تنظیموں کی کٹھ پتلی‘‘ ہیں۔ انھوں نے ہندوؤں پر زور دیا کہ وہ ریاست کی ہم آہنگی کو تباہ نہ ہونے دیں۔
ایک ماہ میں یہ دوسرا موقع ہے جب کرناٹک میں ہندوتوا تنظیموں نے مسلمانوں کی اقتصادی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں کرناٹک میں کئی مندروں نے مسلمان تاجروں پر سالانہ میلوں میں اسٹال کھولنے پر پابندی لگا دی ہے۔