گیانواپی مسجد کی انتظامیہ کمیٹی نے سروے کرانے کے وارانسی عدالت کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ کا رخ کیا
نئی دہلی، جولائی 25: انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی، جو گیانواپی مسجد کی دیکھ بھال کرتی ہے، نے منگل کو الہ آباد ہائی کورٹ میں وارانسی عدالت کے اس حکم کو چیلنج کیا جس میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو مسجد کے احاطے کا سائنسی سروے کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے ذریعے وارانسی عدالت کے حکم پر 26 جولائی تک روک لگانے اور درخواست گزاروں کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کیے جانے کے کے ایک دن بعد کمیٹی نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
سپریم کورٹ کا حکم آثار قدیمہ کے سروے کی 30 رکنی ٹیم کے ذریعے پیر کی صبح 7 بجے مسجد کے احاطے کا سروے شروع کرنے کے چند گھنٹے بعد آیا تھا۔ وارانسی کی عدالت نے جمعہ کے روز اس سروے کی اجازت دی تھی۔
ضلع جج اے کے وشویشا نے سروے کا حکم دیا تھا، جس میں ضرورت پڑنے پر کھدائی بھی شامل ہے، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا مسجد کسی مندر کے اوپر بنائی گئی ہے، جیسا کہ ہندو درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے۔ عدالت نے حکام سے کہا تھا کہ سروے کے دوران مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا نہ جائے اور مسجد کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے مئی میں کہا تھا کہ مسجد کے احاطے میں پائی جانے والی بیضوی شکل کی چیز کا سائنسی سروے کیا جا سکتا ہے۔
بیضوی شکل کی یہ چیز گذشتہ سال مئی میں وارانسی کی سول عدالت کے حکم پر مسجد کے احاطے کے سروے کے دوران ملی تھی۔ کیس میں ہندو فریقین نے دعویٰ کیا کہ وہ شے شیولنگ تھی، جو ہندو دیوتا شیو کی نمائندگی کرتی ہے۔ تاہم مسجد کی نگراں کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ وہ مسجد کے وضو خانے کا ایک فوارہ تھا۔
بیضوی شکل والی چیز کے سروے کی اجازت دینے والے ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے ہندو مدعیان کے وکیلوں نے ایک نئی درخواست دائر کی جس میں پوری مسجد کے سروے کا مطالبہ کیا گیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’شیولنگ‘‘ اس جگہ پر ’’لاکھوں سالوں‘‘ سے موجود ہے اور اسے کئی بار ان مسلمان حملہ آوروں نے نقصان پہنچایا ہے جو ’’کافروں اور بت پرستوں سے نفرت‘‘ کرتے تھے۔
درخواست میں کہا گیا کہ مسجد کی ساخت بتاتی ہے کہ یہ ایک پرانے ہندو مندر کی باقیات پر بنی ہوئی ہے۔