گروگرام: سپریم کورٹ نے ہریانہ کے افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست پر فوری سماعت کے لیے اتفاق کیا

نئی دہلی، جنوری 31: سپریم کورٹ نے آج راجیہ سبھا کے سابق ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب کی درخواست کی سماعت فوری طور پر کرنے پر رضامندی ظاہر کی جس میں ہریانہ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور چیف سکریٹری کے خلاف مبینہ طور پر ان ہندوتوا شدت پسندوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر توہین کی کارروائی کی درخواست کی گئی ہے، جنھوں نے مسلمانوں کو گروگرام میں جمعہ کی نماز ادا کرنے سے بار بار روکا ہے۔

سینئر ایڈوکیٹ اندرا جے سنگھ نے چیف جسٹس این وی رمنا کے سامنے عرضی کا ذکر کیا، جنھوں نے انھیں یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں گے اور اسے فوری طور پر سماعت کے لیے درج کریں گے۔

جے سنگھ نے چیف جسٹس کو بتایا کہ ’’یہ صرف اخباری رپورٹس پر مبنی نہیں ہے، ہم نے خود شکایات درج کرائی ہیں۔‘‘

اپنی درخواست میں محمد ادیب نے توہین عدالت کی کارروائی کا استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکام فرقہ وارانہ اور پرتشدد جذبات کو روکنے کے لیے 2018 میں سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی تعمیل کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے نتیجے میں نفرت انگیز جرائم اور ہجومی تشدد ہوتا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے ’’حالیہ مہینوں میں کچھ قابل شناخت غنڈوں کے کہنے پر جمعہ کی نماز میں رکاوٹ کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جن کی کوئی مقامی حمایت نہیں ہے، جو مذہب کے نام پر نفرت کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں اور پورے شہر میں ایک کمیونٹی کے خلاف تعصب کو بڑھانا چاہتے ہیں۔‘‘

محمد ادیب، ایک سابق آزاد رکن پارلیمنٹ اور گڑگاؤں کے رہائشی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی عرض کیا کہ اس معاملے میں پولیس کو کی گئی متعدد شکایات کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔ درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ چوں کہ پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی، لہٰذا ایسے واقعات بڑھتے گئے اور ہندوتوا گروپ کے اراکین نماز کے مختلف مقامات پر جمع ہوئے اور نعرے لگائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے ’’سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا ہے کہ کافی تعداد میں پولیس کی موجودگی کے باجود ان شدت پسندوں کو قانون کا کوئی خوف نہیں تھا۔ پولیس نے مبینہ طور پر ہجوم میں سے کچھ لوگوں کو حراست میں لیا، لیکن بعد میں انھیں اسی دن چھوڑ دیا گیا۔‘‘