غزہ عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد جاری

مزاحمت کاروں کی جانب سے قیدیوں کی رہائی،اسرائیل کے لیے ذلت آمیز تماشا

0

مسعود ابدالی

! نیتن یاہو: حکومت برقرار رکھنے کے لیے حزب اختلاف سے مدد کی اپیل ۔صدر ٹرمپ اہل غزہ کو وطن بدر کرنے کے لیے پرعزم
جامعہ نیویارک کے اساتذہ تنظیم میں اسرائیل بائیکاٹ کی قرارداد منظور ۔گرفتاری کے خوف سے اسرائیلی وزیر کا دورہ بیلجیم منسوخ
جامعہ مشیگن میں فلسطینیوں کی حامی طلبہ تنظیم دوسال کے لیے معطل
غزہ میں عارضی فائربندی پر عملدرآمد جاری ہے۔یکم فروری کو مزید تین اسرائیلی رہا کردیے گئے۔اب تک تھائی لینڈ کے پانچ باشندوں سمیت 18 قیدی رہا کئے جاچکے ہیں۔ دومارچ کو 6 ہفتوں پر مشتمل پہلا مرحلہ مکمل ہونے تک 1904 فلسطینی قیدیوں کے عوض 33 اسرائیلی رہا کیے جانے ہیں۔
اہل غزہ کی طرف سے معاہدے پر اسکی روح کے مطابق عمل ہورہا ہے۔ معاہدے کے تحت اسی ہفتے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع ہوجانے چاہئیں جس پر مشورے اور ہدایات کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو امریکہ میں ہیں۔یکم فروری کو واشنگٹن روانگی سے قبل تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پر اسرائیلی ٹیلی ویژن Kanسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ‘امریکی دارالحکومت میں ملاقاتوں کا مقصد اسرائیل اور خطے کو درپیش اہم مسائل پر تبادلہ خیال، حماس پر فتح، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور ایران کے دہشت گرد محور اور اس کے تمام اجزاء سے نمٹنا شامل ہے، ایک ایسا محور جو اسرائیل، مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے’۔ یعنی واشنگٹن میں غزہ سے جبری انخلا اور ایرانی جوہری اثاثوں کے خاتمے کی تزویراتی حکمت عملی طے کی جائے گی۔اسرائیلی وزیراعظم کی امریکہ آمد سے دودن پہلے صدر ٹرمپ نے فون پر مصر کے آمرِمطلق جنرل السیسی سے تفصیلی گفتگو کی۔اردن کے بادشاہ سلامت کو بھی واشنگٹن یاترا کی دعوت دیدی گئی ہےاور شاہ عبداللہ دوم 11 فروری کو امریکی صدرسے ملاقات کریں گے
نیتن یاہو کو سیاسی محاذ پر سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے انتہا پسند اتحادیوں کے خیال میں امن معاہدہ دراصل ہتھیار ڈالنے کی دستاویز ہے اور اسی بناپر عظمتِ یہود جماعت (Otzma Yehudit)حکم راں اتحاد سے الگ ہوچکی ہے جس کی وجہ سے 120 رکنی کنیسہ (پارلیمان) میں یاہو کے حامیوں کی تعداد صرف 61 رہ گئی ہے یعنی کوئی ایک رکن ادھر سے ادھر ہوا اور حکومت گئی۔ وزیرخزانہ بیزلیل اسموترچ بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ اگر ان کی دین صہیون جماعت (Religious Zionism)حکومتی اتحاد سے الگ ہوگئی تو نیتن یاہو سرکار تحلیل ہوجائے گی۔ حکومت بچانے کے لیے بی بی آجکل حزب اختلاف کے پیر پکڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے قائد حزب اختلاف یار لیپڈ اور نیشنل یونٹی پارٹی کے سربراہ بینی گینٹر کو پیشکش کی کہ اگر وہ دین صہیون کی علیحدگی کی صورت میں ان کی حکومت کو گرنے سے بچالیں تو یاہو مئی 2026 میں نئے انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں۔
سیاسی بحران کے ساتھ بی بی غزہ اور غربِ اردن کے مزاحمت کاروں کی جانب سے شدید دباؤ میں ہیں۔بھاری جانی نقصان اور زخموں سے چور، تھکی ہاری اسرائیلی فوج جنگ بند کرنے پر اصرار کررہی ہے۔ ناکامی کا اعتراف کرکے فوج کے سربراہ مستعفی ہوچکے ہیں۔اہل غزہ پر رعب جھاڑنے کے لیے نیتن یاہو جو بھی قدم اٹھاتے ہیں خود امریکہ بہادر انہیں واپس لینے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اٹھائیس جنوری کو وزیراعظم نے الزام لگایا کہ امدادی سامان اقوام متحدہ کے بجائے مزاحمت کار تقسیم کررہے ہیں اور انہوں نے امدادی ٹرکوں کے قافلے روک دئے۔ اہل غزہ نے ترنت تڑی لگائی کہ اگر امدادی سامان کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی گئی تو قیدیوں کا تبادلہ معطل کردیا جائے گا۔ صدر ٹرمپ کے ایلچی Steve Witkoff فوراً ایوان وزیراعظم پہنچے اور بی بی نے اپنی فوج کو امدادی قافلے کے سامنے سے تمام رکاوٹیں ہٹالینے کا حکم دے دیا۔
مزاحمت کاروں کے ہاتھوں انہیں ابلاغ عامہ کے محاذ پر بھی حزیمت کا سامنا ہے۔ یاہو اور ان کے انتہا پسند رفقا کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ اہل غزہ اسرائیلی جنگی قیدی، مجمع عام میں ریڈکراس کے حوالے کیوں کررہے ہیں۔ غزہ چوک پر ہزاروں نعرہ زن افراد کے سامنے ان قیدیوں کی ریڈکراس منتقلی نیتن یاہو کو اسرائیل کی تضحیک نظر آتی ہے۔جمعرات 30 جنوری کو اپنے قیدیوں کی رہائی سے پہلے انہوں نے ریڈ کراس سے مداخلت کی درخواست کی لیکن مزاحمت کاروں سے ‘خوفزدہ’ ICRC نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا اور اہل غزہ کا معاملہ ہے۔ ہم تو بس غزہ سے ملنے والی ہدایت پر قیدی لادنے کے لیے اپنی گاڑیاں بھیج دیتے ہیں۔ ہمارا مزاحمت کاروں پر کوئی دباو یا اثرورسوخ نہیں ہے ۔ ظاہر ہے کہ جو بانکے امریکہ اور اسرائیل کی نہیں سنتے وہ سرخ ٹوپی والوں کو کب خاطر میں لائیں گے۔ جھلا کر وزیراعظم نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کے مناظر شدت پسندی کا مظہر اور مزاحمت کاروں کی کٹھور دلی اور بربریت کا اضافی ثبوت ہے۔ قیدیوں کی رہائی کے وقت غزہ میں فلمبندی پر پابندی لگائی جائے۔ یہ انتہائی گھناونا طریقہ ہے۔ اس سے ہماری فوج کا حوصلہ پست ہورہا ہے۔ موصوف یہ مناظر دیکھ کر اتنے مشتعل ہوئے کہ انہوں نے اسرائیلی قیدیوں کے عوض فلسطینیوں کی رہائی سے انکار کردیا اور جیل کے دروازے پر کھڑی ریڈ کراس کی گاڑیاں واپس بھیج دی گئیں۔ اتفاق سے صدر ٹرمپ کے ایلچی Steve Witkoff ابھی یروشلم ہی میں تھے۔ انہوں نے بی بی کو سمجھایا کہ معاہدے کی پاسداری سب سے زیادہ انہیں کے مفاد میں ہے۔ اگر مزاحمت کاروں نے معاہدہ منسوخ کردیا تو کچھ اور ہو نہ ہو قید میں رہ جانے والے اسرائیلی قیدیوں کے لواحقین یاہو کا باجہ بجادیں گے، چنانچہ اسی شام کو تیس چھوٹے بچوں سمیت 110 فلسطینی قیدی رہا کردیے گئے۔ جب بی بی سے کچھ بھی نہ بن پڑا تو انہوں نے آزاد ہونے والے فلسطینیوں کے استقبال روکنے کے لیے غربِ اردن اور مشرقی بیت المقدس میں کرفیو لگادیا۔ اس کے باوجود لوگ اپنے پیاروں کے استقبال کو نکل آئے اور نابلوس میں استقبالی ہجوم پر فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق ہوگیا۔
اسرائیلی وزیراعظم کی تشویش غلط بھی نہیں۔ اکتیس جنوری کو وال اسٹریٹ جنرل نے سرخی جمائی کہ ‘مزاحمت کاروں نے قیدیوں کی رہائی کو اسرائیل کے لیے ذلت آمیز تماشا بنادیاہے’۔اپنی عسکری برتری ثابت کرنے کے لیے قیدیوں کو مقام حوالگی تک لانے والے مزاحمت کار اسرائیلی فوج سے چھینے ہوئے اسلحے سے لیس نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے مال غنیمت میں پکڑے جانے والے امریکی ساختہ Dodge RAM پک اپ ٹرکوں کی نمائش بھی کی۔ یہ دیکھ کر عظمت یہود جماعت کے سربراہ اتامر بن گوئر روتے ہوئے بولے کہ ‘غزہ کی تصاویر سے اسرائیل کی شکست ظاہر ہورہی ہے’
مناظر براہ راست دکھا کر اہلِ غزہ نے دوران حراست قیدیوں سے بدسلوکی کے الزام کو بھی غلط ثابت کردیا۔ مزاحمت کاروں کے انداز و اطوار میں کوئی کرختگی نظر آتی ہے نہ قیدیوں کے چہرے پر دہشت و خوف کی کوئی علامت۔ حالیہ تبادلے کے دوران اسی سالہ بزرگ ملبے پر بغیر کسی سہارے کے چل رہے تھے۔ خواتین قیدیوں کے گلنار چہرے اور فلسطینی جوانانِ رعنا کو دیکھ کر ان مہہ رخوں کے لبوں پر پھوٹتی بے ساختہ مسکراہٹ سے پتہ چل رہا تھا کہ لڑکیاں خوش و خرم ہیں۔
اسی ہفتےمزاحمت کاروں نے اپنے چند کلیدی جرنیلوں اور قائدین کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کردی جن میں محمد ضیف ابوخالد، مروان عیسیٰ، غازی ابوطماعہ، رائدثابت، رافع سلامہ، احمد الغندور اور ایمن نوفل شامل ہیں۔بلاشبہ یہ مزاحمت کاروں کا بھاری نقصان ہے۔
اہل غزہ کو مصر اور اردن دھکیلنے پر صدر ٹرمپ کا اصرار تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔جناب ٹرمپ کا یہ خاص انداز ہے کہ وہ چشم کشا نکات پر گفتگو کا آغاز لطیف بلکہ لطیفے کے انداز میں کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ ان کے لہجے میں سختی آجاتی ہے۔ فلسطینیوں کو ارضِ فلسطین سے جلاوطن کرنے کی بات کوئی نئی نہیں۔ امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر اور سفارتکار جان بولٹن کئی سال پہلے یہ تجویز پیش کرچکے ہیں۔ اسرائیل کے لیے امریکہ کے نامزد سفیر مائک ہکابی کے خیال میں مشرق وسطیٰ کے مسئلے کا سب سے منظقی اور حقیقت پسندانہ حل یہی ہے کہ غزہ، غربِ اردن ور مشرقی بیت المقدس سے فلسطینیوں کو اردن، شام، مصر اور لبنان منتقل کردیا جائے۔تیس جنوری کو قصر ابیض میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے اپنے روایتی متکبرانہ لیکن پرعزم لہجے میں کہا ‘وہ (یعنی اردن و مصر) مان جائیں گے، یقینا مان جائیں گے، سب ٹھیک ہوجائے گا، ہم نے بھی ان کے لیے بہت کچھ کیا ہے، وہ بھی ہماری مانیں گے۔ لیکن اس کے دوسرے ہی دن مصر، اردن، سعودی عرب، مقتدرہ فلسطین (PA) اور قطر کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ تحریری بیان میں صاف صاف کہہ دیا کہ ‘اہل غزہ کی ملک بدری کسی قیمت اور کسی حال قابل قبول نہیں’۔ مزاحمت کار منتقلی کی تجویز کو پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ اپنی تجویز پر علمدرآمد کے لیے بہت ہی مستقل مزاجی سے کام کررہے ہیں۔ جنرل السیسی سے فون پر تفصیلی گفتگو اور شاہِ اردن کی امریکہ طلبی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری ہونے والے اس صدارتی حکم کے بعد کہ جس میں اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کرنے والے غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کردینے کی دھمکی دی گئی ہے، فلسطین کے حامیوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں خاصی بڑھ گئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے جامعہ مشیکن نے’طلبہ اتحاد برائے آزدای و مساوات’ یا SAFE پر دوسال کے لیے پابندی لگادی ہے۔جامعہ کا کہنا ہے کہ سیف نے گزشتہ موسم بہار میں ایک ریجنٹ کے گھر کے باہر احتجاج کیا اور انتظامیہ اجازت کے بغیر مظاہرے کرکے یونیورسٹی ضابطوں کی خلاف ورزی کی تھی۔
دوسری طرف انصاف پسند اساتذہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ تیس جنوری کو سٹی یونیورسٹی آف نیویارک (CUNY)کے اساتذہ کی انجمن Professional Staff Congress (PSC) نے اسرائیل کے تعلیمی بائیکاٹ کی قرارداد 70 کے مقابلے میں 73 ووٹوں سے منظور کرلی۔پی ایس سی 30 ہزار اساتذہ کی نمائندہ تنظیم ہے۔قرارداد پر نیویارک کی گورنر صاحبہ سخت برہم ہیں۔ اپنے ردعمل میں انہوں نے کہا کہ ‘اس قسم کی سرگرمیوں سے جامعات کے یہودی طلبہ اور اساتذہ کے خلاف امتیازی اقدامات کی حوصلہ افزائی ہوگی’
معاملہ صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں۔ نسل کشی کے ذمہ داروں اور سہولت کارہر جگہ دباؤ میں ہیں۔ گرفتاری کے خوف سے اسرائیلی وزیر برائےامورِ تارکین وطن (Diaspora Affairs) اماخائے شخلی (Amichai Chikli) نے بیلجیم کا دورہ منسوخ کردیا ہے۔وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "ٹھوس انتباہوں اور سیکیورٹی حکام کی ہدایات کے مطابق فاضل وزیر کا دورہ منسوخ کیا جارہا ہے” لیکن کان ٹیلی ویژن کو سراغرساں ادارے شاباک (Shin Bet) کے ذرایع نے بتایا کہ شخلی کو ایسی کوئی ٹھوس دھمکی نہیں ملی۔اسرائیلی وزیر کے خلاف متوقع مقدمے کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے برسلز میں حکام نے کہا تھا کہ قیام بیلجیم کے دوران قانونی کارروائی کی صورت میں جناب شخلی کو کسی قسم کا سفارتی تحفظ یا استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 مزاحمت کاروں کے ہاتھوں انہیں ابلاغ عامہ کے محاذ پر بھی حزیمت کا سامنا ہے۔ یاہو اور ان کے انتہا پسند رفقا کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ اہل غزہ اسرائیلی جنگی قیدی، مجمع عام میں ریڈکراس کے حوالے کیوں کررہے ہیں۔ غزہ چوک پر ہزاروں نعرہ زن افراد کے سامنے ان قیدیوں کی ریڈکراس منتقلی ،نیتن یاہو کو اسرائیل کی تضحیک نظر آتی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کے مناظر شدت پسندی کا مظہر اور مزاحمت کاروں کی کٹھور دلی اور بربریت کا اضافی ثبوت ہے۔ قیدیوں کی رہائی کے وقت غزہ میں فلمبندی پر پابندی لگائی جائے۔ یہ انتہائی گھناونا طریقہ ہے۔ اس سے ہماری فوج کا حوصلہ پست ہورہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025