
فلموں کو سیاسی آلے کے طور پر استعمال کرنے کی خطرناک روش
فلم ’چھاوا‘ نے عوام کو ورغلانے، بہکانے اور برین واش کرنے کے سلسلہ کو آگے بڑھایا
شہاب فضل، لکھنؤ
ہندوؤں کا برین واش کرکے ‘اندھے ہجوم’ میں تبدیل کیا جانا،ملک کے مستقبل کے لیے خطرناک اقدام
فلم دیکھنے کے بعد کھیتوں میں سونے چاندی کی تلاش میں نکل پڑنا، عوام کی عقل پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے
وزیر اعظم بھی منفی پروپیگنڈے کو ہوا دینے والوں میں شامل!
مغل بادشاہ اورنگ زیب کو ایک بہتر حکم راں اور منتظم قرار دینے پر سماجوادی پارٹی کے رکن ابو عاصم اعظمی کی مہاراشٹر اسمبلی سے معطلی نے جہاں ایک طرف ملک میں تاریخ کی من مانی تشریح اور ہندتوا نوازی کے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر تشہیر و ترویج کے خطرات کو اجاگر کیا ہے تو دوسری طرف مفروضات یا آدھی ادھوری تاریخ پر مبنی فلموں سے تاریخ کو سمجھنے اور سمجھانے کی حماقت کیا گل کھلاسکتی ہے اس کا بھی نتیجہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ خاص طور سے 2014 میں بی جے پی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے قومی جذبات کو برانگیختہ رکھنے کے لیے فلموں اور ویب سیریز کا منظم طریقہ سے استعمال کیا جارہا ہے۔ ان میں قوم پرستی کے جذبات کو بھنانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے اور افسانوں کو تاریخ بتاکر پیش کیا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ‘چھاوا’ میں ایک منظر دیکھنے کے بعد مدھیہ پردیش کے برہانپور میں اسیر گڑھ کے قلعہ کے پاس سیکڑوں لوگ سونے کی تلاش میں نکل گئے۔دراصل اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ مغلوں نے یہاں سونے چاندی کے سکوں کی ٹکسال بنائی تھی۔ یہ افواہ اتنی زیادہ پھیلی کہ اسیر گڑھ قلعہ کے پاس لوگوں نے خزانہ کی تلاش میں کھیتوں میں کھدائی بھی شروع کردی۔ سو سے زائد کھیتوں میں لوگوں نے کھدائی کی ہے مگر انہیں کچھ ہاتھ نہیں آنا تھا سو نہیں آیا۔
مراٹھا حکم راں چھترپتی سمبھا جی مہاراج کی زندگی پر مبنی چھاوا فلم کو دیکھنے کے بعد ناظرین کو لگا کہ اورنگ زیب ہندوؤں کے تئیں نہایت ظالم و سفاک تھا۔ حالانکہ اورنگ زیب کا انصاف پسند اور غیر متعصب چہرہ بھی تاریخ نویسوں نے پیش کیا ہے اور بھارت میں ان کی منفی شبیہ کے برعکس انہیں ایک اعتدال پسند اور ہندوؤں کے لیے فراخ دل بادشاہ قرار دیا ہے۔
ہندوستان کے سب سے متنازعہ حکم راں کی حقیقت کچھ اور ہے
اسٹینفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والی کتاب ’’اورنگ زیب: دی لائف اینڈ لیگیسی آف انڈیاز موسٹ کنٹروورشیل کنگ‘‘ کی مصنفہ پروفیسر آڈرے تروشکے تاریخی حقائق کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ اورنگ زیب ہندو مخالف بادشاہ نہیں تھا جیسا کہ بھارت میں عرف عام میں بتایا اور سجھا جاتا ہے۔ اس نے ہندؤوں کے خلاف کبھی کوئی منظم حملہ نہیں کیا۔ اس کے بدست مندروں پر کبھی کبھار حملے اور جزیہ نافذ کرنے کے اقدام کو اس وقت کے سیاسی اور اقتصادی حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مبصرین نے اس تحقیقی تصنیف کو عہد جدید سے ما قبل کے دور میں ہندو مسلم تعلق کو سمجھنے کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عہد وسطیٰ کی سیاسی تاریخ کو ہندو مسلم کے عینک سے دیکھنے کے بجائے حکومت و اقتدار کی کشمکش و ٹکراؤ اور تخت و تاج کے لیے لڑائی کے پہلو سے دیکھنا چاہیے اور اسی اعتبار سے ان حکم رانوں کے اتحاد و اختلاف کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ مگر یہاں تاریخ کے بجائے اپنے لیے موزوں بیانیہ کو سچ قرار دینے کی جنون غالب ہے چنانچہ اس کے لیے سبھی وسائل استعمال کیے جارہے ہیں جن میں فلمیں اور ویب سیریز بھی ایک طاقتور وسیلہ ثابت ہو رہی ہیں۔
یہ بات تو مسلّم ہے کہ فلمیں پیسہ کمانے کے لیے بنائی جاتی ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ وقت کی بھگوا سیاست کے لیے یہ بہت موزوں ہے کہ تاریخی واقعات کے نام پر ایسی فلمیں بنائی جائیں جو اس بیانیہ کی توثیق کریں اور پروڈیوسر و فلمسازوں کو دولت بھی کما کر دیں۔
چھاوا فلم کی تاریخی غلط بیانیاں، عوام میں فلم کو مقبول بنانے، ڈراما و تفریح کے تقاضے اور سیاسی و سماجی اثرات کا کردار اپنی جگہ، یہاں تاریخ کے سیاسی استحصال پر گفتگو مقصود ہے جو کچھ برسوں سے ایک غالب رجحان بن گیا ہے۔ ماضی میں بھی تاریخی کرداروں پر فلمیں بنتی رہی ہیں مثلاً پکار اور مغل اعظم، لیکن ان فلموں میں کسی طبقہ کے جذبات کو مجروح کرنے کا عنصر غالب نہیں تھا۔ اگر بات مسلم کرداروں کی کریں تو ان کی منفی عکاسی بھی ہوتی رہی ہے مگر ایسی فلمیں نہیں بنا کرتی تھیں جن میں مسلمانوں کو بطور کمیونٹی ذلیل اور مطعون کیا جائے اور انہیں عوام کا دشمن ثابت کیا جائے۔ مگر گزشتہ کچھ سالوں سے تاریخی واقعات اور بعض دفعہ چنندہ اور یکا دکّا سانحات کو بڑھا چڑھا کر ہندو بمقابلہ مسلم یا بھارتی بمقابلہ بیرونی کا جامہ پہنانے اور عوام کے ذہنوں اور دلوں کو نفرت سے بھرنے کے لیے ایسی فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔
چھاوا فلم نہ صرف مخصوص ہندو مسلم بیانیہ کے گرد گھومتی ہے بلکہ مراٹھا بنام برہمن کی کشمکش کو بھی غلط رخ دیتی ہے۔ مراٹھا تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے کولہاپور کے مؤرخ اندرجیت ساونت نے اس پر اعتراض کیا اور فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا ‘‘فلم میں چھترپتی شیواجی کی دوسری بیوی سویارا بائی بھوسلے کو ولن بتایا گیا ہے جب کہ شیوا جی کا چیف سکریٹری انّاجی دتّو جو ایک برہمن تھا اصلی دشمن تھا’’۔ ساونت نے تاریخی حوالوں سے یہ لکھا کہ برہمن کلرکس نے مغلوں سے چھترپتی سمبھا جی کی مخبری کی تھی جس کی وجہ سے وہ پکڑے گئے۔
تقسیم ہند کے بعد کے دور میں فلموں نے سماج کو جوڑنے کا کام کیا
بی آر چوپڑہ کی فلم ‘‘دھول کا پھول’’ (1959) اپنے دور کی ہٹ فلم تھی جس کا یہ نغمہ’’تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا‘‘، ایسے پر آشوب دور میں انسانیت کا پیغام دے رہا تھا جب تقسیم ہند کے زخم تازہ تھے۔ فلم میں ایک مسلمان کو ایک ہندو بچے کی پرورش کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس میں ایک اچھے مسلمان کا کردار پیش کیا گیا جو اپنے وطن سے محبت کرتا ہے۔ انار کلی (1953) چودہویں کا چاند (1960) مغل اعظم (1960) پاکیزہ (1972) امر اکبر انتھونی (1977) جیسی فلمیں آج کیوں نہیں بنتیں جن میں بھائی چارے اور یکجہتی کو مرکزیت حاصل ہے؟ اب سرفروش، ایل او سی: کارگل، ویرزارا، فنا، قربان اور نیویارک جیسی فلموں سے ہم کشمیر فائلز اور کیرالا اسٹوری تک آگئے ہیں جو بنیادی طور سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے ہی بنائی گئی ہیں۔ اسے ملک میں سخت گیر متشدد دائیں بازو کی سیاست کے ابھار کے نتیجے کے سوا اور کیا کہا جائے؟
فلموں کو ٹیکس فری کرکے مفنی بیانیہ کی ترویج و توثیق
کشمیر فائلز (2022)،ل پدماوت (2018) لپسٹک انڈر مائی برقعہ (2016) تنہا جی (2020) دی کیرالا اسٹوری (2023) وغیرہ یہ سب ایسی فلمیں ہیں جو مسلمانوں کو وحشی، غیر مہذب اور سماج دشمن کے طور پر پیش کرتی ہیں اور ان فلموں کو بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں ٹیکس فری بھی کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں پارٹی کی قیادت عوامی جلسوں اور میٹنگوں میں ان فلموں کی تشہیر کرتی ہے تاکہ کارکنان اور دیگر لوگ تھیٹرز میں جاکر انہیں دیکھیں اور دوسروں کو بھی دکھانے کے لیے لے جائیں۔ ظاہر ہے اس کا مقصد سماجی تانے بانے کو توڑنا اور ان فلموں کو عوام کے ذہنوں اور دلوں میں منفی بیانیہ (مسلمان بنام ہندو یا بھارتی بنام باہری حملہ آور) کو راسخ اور پختہ کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے۔
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب کرناٹک اسمبلی انتخابات کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے مئی 2023 میں بیلاری میں ایک انتخابی ریلی کے دوران کیرالا اسٹوری فلم کا ذکر کرکے کہا تھا کہ یہ دہشت گردانہ سازش کا پردہ فاش کرتی ہے جسے لوگوں کو تھیٹروں میں جاکر دیکھنا چاہیے۔ وزیر اعظم کے ذریعہ اس قابل مذمت فلم کی تشہیر کے بعد کئی دیگر بی جے پی لیڈروں نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فلم کی تشہیر کی۔ قابل ذکر ہے کہ یہ فلم ‘‘لو جہاد’’ کے نام نہاد زعفرانی بیانیہ پر مبنی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیرالا کی ہزاروں ہندو خواتین کو جبراً مسلمان بناکر اسلامک اسٹیٹ (داعش) لے جایا گیا۔ تجزیہ نگاروں نے اس فلم کو اسلاموفوبک پروپیگنڈا قرار دیا اور انڈیا ٹوڈے نے اسے سال 2023 کی پانچ سب سے گھٹیا فلموں میں شمار کیا تاہم یہ فلم 304 کروڑ روپے کی کمائی کرنے میں کامیاب رہی۔ اسے محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا کہ کیرالا اسٹوری، کیرالا اسمبلی انتخابات سے عین قبل ریلیز ہوئی تھی۔
اس طرح کی بعض فلموں کو بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں ٹیکس فری بھی کیا گیا ہے، محض اس لیے کہ وہ نفرت آمیز بیانیہ کو آگے بڑھاتی ہیں اور مخصوص سیاسی ایجنڈا پورا کرتی ہیں۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی پروپیگنڈہ فلموں کی فہرست میں آرٹیکل 370 (2024) دی ویکسین وار (2022) بستر: دی نکسل اسٹوری (2024) سوتنتر ویر ساورکر (2024) دی سابرمتی رپورٹ (2024) سمراٹ پرتھوی راج (2022) اور جے این یو: جہانگیر نیشنل یونیورسٹی (2024) وغیرہ شامل ہیں۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ایسی فلمیں جن میں کوئی مثبت اور صحت مند پیغام ہو یا کسی سماجی برائی سے لڑنے کا پیغام ہو، انھیں ہی ٹیکس فری کیے جانے کا ضابطہ ہے تاکہ انہیں کم پیسے میں زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھیں اور سماج کا بھلا ہو۔ مگر اب ٹیکس فری ان فلموں کو کیا جارہا ہے جو سماج میں نفرت پھیلاتی ہیں اور امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ اس فلمو ں کو پروپیگنڈے کا حصہ بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جاسکے۔ انہیں عام بیانیہ کا حصہ بنانے میں میڈیا بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم اس پر مستزاد ہیں جہاں منظم طریقہ سے ٹرینڈ چلاکر اس بیانیہ کو قوی کیا جاتاہے۔
فلم ‘‘کشمیر فائلز’’ کی بھی یہی کہانی ہے جو کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور پولرائزیشن کے سیاسی ایجنڈے کو پورا کررہی تھی۔ جموں و کشمیر میں ہندؤوں کے انخلا پر مبنی اس فلم کی نمائش کے دوران ملک کے کئی شہروں سے ایسے مناظر سامنے آئے جس میں لوگ مسلم مخالف نعرے لگارہے تھے اور ‘‘بدلہ’’ لینے کے عہد کیے جارہے تھے۔ ‘‘چھاوا’’ فلم کو دیکھنے کے بعد کی ایسی بے شمار ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہورہی ہیں جس میں ناظرین بشمول بچے اور خواتین پرتشدد نعرے لگارہے ہیں اور اورنگ زیب کے ہاتھوں سمبھاجی مہاراج کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے پر اپنے غصہ اور نفرت کا اظہار کررہے ہیں۔
ایسی فلمیں سامنے آنے کے بعد اب کون فلمساز بھائی چارے اور رواداری کا پیغام دینے والی فلمیں بنائے گا؟ اب مسلمانوں کو وحشی اور سفاک دکھانے کا ہی چلن ہے تو ‘‘اینیمل’’ (2023) جیسی فلمیں زیادہ موزوں ہیں جس میں ماردھاڑ اور تشدد کی انتہا ہے، کیونکہ اب تشدد کا راستہ ہی واحد راستہ ہے جس سے فوری انصاف کا حصول ممکن ہے۔ عدالتیں، جمہوریت اور آئین و قانون کوئی معنی نہیں رکھتے۔
سنسر بورڈ کا مشکوک کردار
مسلم مخالف فلموں میں یہ یکساں غالب رجحان دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ چنندہ واقعات کو جنرلائز کرنے کے فارمولے پر مبنی ہوتی ہیں اور وہ تاریخ کو مکمل پس منظر کے ساتھ نہیں پیش کرتیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ فلمیں عوام کو بہکانے، ورغلانے اور انہیں مشتعل کرکے ہجومی تشدد پر آمادہ کرنے کا کام کررہی ہیں تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ یہ لوگوں کو برین واش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس میں سنسر بورڈ کا کردار بھی مشکوک ہے جو ایسی فلموں پر روک لگانے کے بجائے ان پر اپنی رضامندی کی مہر ثبت کردیتا ہے۔ بی جے پی کے راج میں ایسی فلموں کو دھڑلے سے بنانے اور انہیں ریلیز کرنے کی پوری آزادی ملی ہوئی ہے۔ سماج اس کی قیمت ادا کر رہا ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ نسلوں کو برباد کرنے میں سنسر بورڈ سمیت وہ تمام عناصر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جن پر ملک کے دیگر جمہوری و آئینی اداروں کو بھی سبوتاژ کرنے کے الزامات مسلسل لگ رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فلمیں سماج میں خاص طور سے اکثریتی آبادی میں عدم رواداری کو فروغ دے رہی ہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ بھارتی فلم انڈسٹری نازی جرمنی کے نقش قدم پر گامزن ہے جب سیاسی مقاصد کے لیے سماج کے اکثریتی طبقہ کو کنٹرول کرنے اور انہیں برین واش کرنے کے لیے فلموں کو بھی ہتھیار بنایا گیا تھا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ یہ ایک ملک دشمن اور سماج دشمن رجحان ہے جس پر فوری طور سے روک لگنی چاہیے اور دانشور طبقہ کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے یا کم از کم اس کےمدّ مقابل مثبت پیغام دینے والی فلمیں بنانے کا راستہ نکالا جانا چاہیے۔
فلمیں پاپولر کلچر کا اہم حصہ ہیں اور ان کی اثر انگیزی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ افسوس اور تشویش کی بات ہے کہ کٹّر اور انتہا پسند دایاں بازو ملک کے سماجی وثقافتی تانے بانے پر چاروں طرف سے حملہ آور ہے۔ فلم سنسر بورڈ کے اراکین کو ان کی ذمہ داری یاد دلائی جانی چاہیے۔ فلمسازوں کو بھی ملک کے تئیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا چاہئے تاکہ اس سماج دشمن رجحان پر اگر روک نہ لگ سکے تو کم از کم کچھ مثبت اور صحت مند پیغام دینے والی فلمیں بھی بنیں اور منفی اثرات کو کم کیا جاسکے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025