تین زرعی قوانین کی منسوخی انتخابی مجبوری !

مرکزی حکومت کا کارپوریٹس کو مزید دولت مند بنانے کا منصوبہ دھرا رہ گیا

زعیم الدین احمد ، حیدر آباد

وزیر اعظم نریندرمودی نے گزشتہ جمعہ کی صبح اعلان کیا کہ تین زرعی قوانین کو وہ منسوخ کررہے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے ملک سے معافی بھی مانگی۔ انہوں نے ان قوانین کی منسوخی کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی البتہ یہ کہا کہ ان قوانین میں کوئی خرابی نہیں تھی ہم اسے کسانوں کے ایک طبقے کو صحیح طور پر سمجھا نہیں سکے اور کہا کہ یہ قوانین ہم نے سچے دل سے اور نیک نیتی سے بنائیے تھے جو کسانوں کی مدد کے لیے ان کی معاشی ترقی کے لیے تھے۔ یہ قوانین چراغ کی مانند تھے جو روشنی دکھانے والے اور کسانوں کو راستہ بتانے والے تھے لیکن شاید ہماری ہی تپسیا میں کچھ کمی رہ گئی تھی جو ہم کسانوں کے ایک طبقے کو پوری طرح سمجھا نہ سکے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مودی حکومت کب سے اتنی حساس ہوگئی ہے کہ وہ کسانوں کے ایک چھوٹے سے طبقے کی خاطر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس کیے ہوئے قوانین کو منسوخ کر دیا؟ کہیں اس فیصلے کے پیچھے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج تو نہیں ہیں؟ محسوس تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ ان نتائج سے خوف کھا چکے ہیں اور یوپی کی صورت حال نے انہیں اس فیصلہ پر مجبور کیا ہے۔
زرعی قوانین کے متعلق ایک بات یہ مشہور کی گئی تھی کہ کسان اپنی فصل کہیں بھی بیچ سکتے ہیں وہ کسی بھی جگہ اپنی پیداوار کو اپنی قیمت پر فروخت کرسکتے ہیں۔ ہم اس بات جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہی تھا؟ کیا پہلے کسانوں کو اس کی اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنی پیداوار دوسری جگہ یا کسی اور کو بیچ سکیں، کیا انہیں حکومت کی جانب سے کوئی پابندی تھی کہ وہ اپنی پیداوار صرف اور صرف حکومتی منڈیوں میں ہی بیچیں، کیا اپنی پیداوار کسی اور کو بیچنے پر ان پر مقدمات درج کیے جاتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی پابندی پہلے سے تھی ہی نہیں کہ وہ اپنی پیداوار صرف حکومتی منڈیوں میں ہی فروخت کریں بلکہ اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ ہندوستان بھر میں جنتا اناج پیدا ہوتا ہے اس کے صرف چھ فیصد پیداوار پر ہی کم سے کم قیمت خرید (ایم ایس پی) ملتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ باقی پیداوار کسان کہیں اور بیچتے تھے۔ سچویشنل اسسمنٹ سروے آف نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کے مطابق اکتیس مختلف زرعی پیداوار میں سے انتیس زرعی پیداوار کا زیادہ تر حصہ خانگی تاجرین کو ہی فروخت کرتے ہیں۔ ملک بھر میں پیدا ہونے والی چاول کی فصل کا محض انتیس فیصد حصہ ہی حکومت خریدتی ہے اور باقی اکہتر فیصد دھان کسان خانگی تاجرین کوہی فروخت کرتے ہیں۔اسی طرح گیہوں کی فصل کا معاملہ ہے۔حکومت صرف چالیس فیصد ہی گیہوں کسانوں سے خریدتی ہے باقی گیہوں وہ خانگی تاجرین کوفروخت کرتے ہیں۔ اس حکومتی خرید میں بھی ریاست پنجاب کا حصہ سب سے زیادہ یعنی تقریباً پچاس فیصد ہوتا ہے۔ ریاست بہار سے تقریباً سولہ فیصد چاول اور باقی چاول کی جنوبی ریاستوں سے خریدی ہوتی ہے۔
ان اعداد وشمار سے مرکزی حکومت کے سفید چھوٹ کا پردہ فاش ہوتا ہے کہ اب تک کسا ن اپنی پیداوار کو خانگی تاجرین کو نہیں بیچ سکتے تھے اسی لیے ہم نے ان قوانین کو بنایا تھا تاکہ کسان کہیں بھی اور کسی کو بھی اپنی پیداوار بیچ سکیں۔ اعدادو شمار یہی بتاتے ہیں کہ کسان اپنی پیداوار کا زیادہ حصہ خانگی تاجرین کو ہی فروخت کرتے رہے ہیں۔ ہم خود اس بات پر غور کرسکتے ہیں کہ آخر خانگی تاجرین کے پاس اناج کہاں سے اور کس طرح آرہا ہے؟ چاہے وہ ریلائنس ہو، بگ بازار ہو، مور ہو یا کوئی بھی کرانے کی دکان ہو، ان کے پاس اناج، سبزیاں، دالیں وغیرہ کہاں سے آرہی ہیں؟ کیا وہ حکومت سے خرید رہے ہیں؟ بالکل بھی نہیں اگر وہ حکومت سے نہیں خرید رہے ہیں تو لازمی بات ہے کہ وہ کسانوں سے ہی خرید رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسان خانگی تاجرین کو اپنی پیداوار فروخت کررہے ہیں۔
حکومت کا یہ کہنا کہ ان قوانین کے ذریعہ ہم کسانوں کو آزادی فراہم کر رہے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی پیداوار کو فروخت کر سکتے ہیں سراسر چھوٹ ہے۔ اس کے برعکس ان قوانین کے ذریعہ حکومت خانگی اداروں اور تاجرین کو مزید طاقت ور بنانا چاہتی ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ اسی طرح کہ قوانین نے شعبہ تعلیم اور شعبہ صحت کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ معیاری تعلیم اور اچھی صحت غریب اور متوسط درجہ کے شہریوں کے لیے ایک خواب ہی ہے۔ حکومت نے کہا تھا کہ بچوں کو صرف حکومتی تعلیمی اداروں میں ہی تعلیم حاصل کرنا کیوں لازم کرنا چاہیے؟ عوام کو کیوں آزادی نہیں ملنی چاہیے کہ وہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوایں؟ اس کا نتیجہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی کیا صورت حال ہے اور خانگی اداروں کا کیا حال ہے۔ سرکاری مدرسے بند ہو رہے ہیں اور خانگی ادارے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ اسی طرح شعبہ صحت کا معاملہ ہے، جس طرح عوام کو یہ آزادی دی گئی کہ وہ کہیں بھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور کسی بھی اسپتال میں علاج کرواسکتے ہیں اسی طرح ان خانگی اداروں کو بھی یہ آزادی دی گئی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق فیس یا معاوضہ لے سکتے ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ ان اداروں کی فیس اور معاوضہ عوام کی دسترس سے باہر ہو گیا اور سرکاری مدرسے اور اسپتال بدحالی کا شکار ہوگئے۔ آج عوام اس بدحالی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
اسی طریقہ سے حکومت چاہتی تھی کہ وہ زرعی شعبے کو آزادی فراہم کرے تاکہ خانگی تاجرین کے استحصال سے کسان اپنی موت آپ مرجائیں اور کارپوریٹس پھلیں پھولیں۔ یقیناً اس کا انجام بھی وہی ہوتا جو آج شعبہ تعلیم اور شعبہ صحت کا ہوا ہے۔ حکومت کا منصوبہ واضح تھا کہ زرعی معیشت کو چند بڑے کارپوریٹس کے حوالے کردیا جائے، دنیا بھر میں بھی یہی ہوا ہے، دنیا بھر کی زرعی معیشت محض چند کارپوریٹس کے ہاتھوں میں ہے جیسے مونسانٹو اور کارگل وغیرہ۔ حکومت کے اسی ناپاک منصوبہ کا نام کسانوں کی آزادی رکھا گیا لیکن کسانوں نے اس ناپاک منصوبہ کو بر وقت بھانپ لیا اور بڑی ہمت اور دلیری کے ساتھ ان قوانین کی مخالفت پر ڈٹ گئے، مسلسل ایک سال کے احتجاج کے بعد مغرور حکومت کو ان مضبوط کسانوں کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس احتجاج کو ناکام بنایا جائے چنانچہ انہیں اندولن جیوی کہا گیا، غنڈے موالی کے القابات سے نوازا گیا، خالصتانی دہشت گرد کی سند دی گئی، ملک دشمن ہونے کے تمغے عطا کیے گئے، عوامی راستوں پر رکاوٹیں لگانے کا الزام لگایا گیا۔ ہر وہ کوشش کی گئی جس سے اس پُر امن احتجاج کو ختم کیا جا سکے لیکن کسان چٹان کی طرح اپنے مقصد پر جم گئے ان تمام باتوں کی پروا کیے بغیر ان قوانین کی پُر زور مخالفت کی اور حکومت جو زبان سمجھتی ہے اسی زبان میں اس کو سمجھایا تب حکومت نے اپنے اٹھائے ہوئے قدم واپس لے لیے۔
اب ایک اور مسئلہ ابھی باقی ہے اور وہ ہے کم سے کم قیمت خرید کا۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ایم یس پی کا قانون بنائے تاکہ کسانوں کو اپنی پیداوار کے مناسب دام مل سکیں۔ درحقیقت کسان اپنے مطالبہ میں حق بجانب ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ یم یس پی پر فوری قانون سازی کرے تاکہ کسانوں کو اپنی پیداوار کے مناسب دام مل سکیں۔ اس کے علاوہ ملک میں رہنے والے دیگر طبقات کو بھی چاہیے کہ وہ ان کسانوں کا ساتھ دیں تاکہ شعبہ زراعت کو بڑے بڑے استحصالی کارپوریٹس کے خونی پنچوں سے بچایا جاسکے اور وہ خود بھی استحصال سے محفوظ رہ سکیں۔

 

***

 حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس احتجاج کو ناکام بنایا جائے چنانچہ انہیں اندولن جیوی کہا گیا، غنڈے موالی کے القابات سے نوازا گیا، خالصتانی دہشت گرد کی سند دی گئی، ملک دشمن ہونے کے تمغے عطا کیے گئے، عوامی راستوں پر رکاوٹیں لگانے کا الزام لگایا گیا۔ ہر وہ کوشش کی گئی جس سے اس پُر امن احتجاج کو ختم کیا جا سکے لیکن کسان چٹان کی طرح اپنے مقصد پر جم گئے ان تمام باتوں کی پروا کیے بغیر ان قوانین کی پُر زور مخالفت کی اور حکومت جو زبان سمجھتی ہے اسی زبان میں اس کو سمجھایا تب حکومت نے اپنے اٹھائے ہوئے قدم واپس لے لیے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 نومبر تا 4 دسمبر 2021